اہل اور مخلص قیادت کی ضرورت
عوام کی قوت برداشت جواب دیتی جا رہی ہے۔ عام انتخابات کے بعد بھی سیاسی استحکام مفقود دکھائی دیتا ہے۔ کاروباری طبقے کے تحفظات برابر موجود ہیں۔ قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیئے ٹیکسوں کے بڑھنے کا بھی قوی امکان ہے۔ بناءبریں امکان یہی ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی ابتری کم نہیں ہو گی بلکہ یہ بڑھے گی۔ یہ ہر شعبے میں بدحالی اور زوال کی ایسی زمینی حقیقت ہے جس سے عوام کے اندر مایوسی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ انسانی نفسیات ہے کہ مایوسی کا فوری تدارک نہ کیا جائے تو یہ بغاوت اور فساد پر اکساتی ہے۔
جس طرح 9مئی اور پھر 8فروری نے اداروں کی کارکردگی کو ننگا کیا اس سے مقتدرہ پر عوام کا اعتمادہ تقریبا اٹھ چکا ہے۔ 9مئی اقتدار کے چھن جانے کی جنگ سے زیادہ مقتدرہ کے سیاست میں مداخلت کے خلاف ردعمل تھا۔ 8فروری کے الیکشن میں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو بھاری تعداد میں جو ووٹ پڑا وہ دراصل نفرت کا ووٹ تھا۔ اندازہ کریں کہ پی ٹی آئی پر پابندیوں اور عتاب کے باوجود اس الیکشن میں گزشتہ تمام انتخابات سے زیادہ ٹرن اوور رہا جس میں پاکستان کے نوجوان طبقے نے سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا۔
مقتدر حلقوں کی مبینہ خواہشات کے برخلاف انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی کے حکومت سازی کیلئے ہونے والے مذاکرات میں اتحادی حکومت کے معاملات طے تو پا گئے ہیں مگر ایسے “غیر فطری” اور “زبردستی” کے سیاسی اتحاد کی کامیابی کے امکانات بہت کم نظر آ رہے بیں۔ آغاز میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں اقتدار سنبھالنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ ان میں کچھ سیاسی رہنماؤں کا خیال تھا کہ “وزارت عظمی دینے کی کوشش کی جائے گی مگر اسے لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔ پیپلزپارٹی کا یہ اظہاریہ بھی سامنے کہ وہ حکومت سازی میں تعاون کرنے کے لیئے تیار ہے مگر وہ اقتدار میں شامل نہیں ہو گی۔ یہ ایک قسم کی سیاسی بے یقینی اور تعطل کی فضا تھی۔ اگر کسی ملک میں ایسی سیاسی غیریقینی صورتحال پیدا ہو جائے تو اس کے ہوتے ہوئے کوئی ملکی اور غیرملکی بڑی انویسٹمنٹ آتی ہے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی معاشی تبدیلی پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
اس دوران تحریک انصاف نے مرکز، پنجاب اور کے پی کے میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کیا جس کا اولین مقصد خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کرنا ہے۔ چونکہ یہ ارکان پی ٹی آئی کے انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے اس لئے مخصوص نشستوں کیلئے ووٹ دینے کے بھی اہل نہیں تھے۔ لھذا بہ امر مجبوری تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کیا۔ قانونی حلقوں کے مطابق یہ ایک “الحاق” ہے جسے مجلس وحدت المسلمین کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مطابق مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے بعد وہ ایوان کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن کر نہ صرف وفاق اور کے پی کے بلکہ پنجاب میں بھی حکومت بنائے گی۔ لیکن آئینی ماہرین اور مبصرین اسے ایک خوش فہمی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سنی اتحاد کی پارلیمنٹ میں کوئی نشست نہیں۔ اس کے سربراہ نے پی ٹی آئی کی حمایت سے آزاد امیدوار کے طور پر سیٹ جیتی ہے۔ اس جماعت کو آئینی و قانونی طور پر پارلیمانی پارٹی میں بدلنا ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔ یہ معاملہ پہلے الیکشن کمیشن اور پھر سپریم کورٹ میں بھی جا سکتا ہے جس سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ مخلوط حکومت بن بھی گئی تو یہ پہلے ہی دن سے گرائے جانے کے خطرات سے دوچار ہو گی۔
جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ (نازی) پارٹی 1923 میں ایڈولف ہٹلر کی قیادت میں ایک بغاوت تھی جو ایک ناکام انقلاب ثابت ہوئی کیونکہ وہ ملک میں نسل کشی پر مبنی سیاسی فاشزم میں کمی لانے میں ناکام رہی تھی۔ مقتدرہ پاکستان میں تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام لانے میں ناکام رہی ہے جس وجہ سے 9مئی جیسی بغاوت اور دہشت گردی رونما ہوئی۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات بغاوت کے رجحان کی وضاحت کرتے ہیں۔ جب تک پاکستان کے ادارے، سیاسی جماعتیں، مقتدرہ اور عدلیہ کسی نظام اور پالیسیوں کو بہتر کرنے پر توجہ نہیں دیتے ہیں پاکستانی عوام کو مزید معاشی بدحالی، لاقانونیت اور پھیلتی ہوئی سیاسی انارکی کا سامنا رہے گا۔
یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک سیاست کی جانکاہ جنگ کو چھوڑ کر نظام اور پالیسیاں بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ ایک ہی طرز اور ایک ہی فطرت کے سیاست دانوں کو بار بار آزمانا آغاز ہی میں مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں نئی، مخلص اور اہل قیادت کو لانا ہی گونا گوں مسائل کا واحد حل ہے۔ مخلوط حکومت بنی بھی تو چونکہ اس میں شامل ارکان کی اکثرہت کے کردار اور کارکردگی کو پہلے ہی آزمایا جا چکا ہے وہ رات و رات کوئی بڑی انقلابی تبدیلی لانے میں ناکام رہے گی۔ اس وقت عوام جس قدر مایوسی اور غیریقینی کیفیت میں ڈوب چکی ہے وہ حکومت سازی کے بعد فوری احتجاج کی صورت میں ردعمل ظاہر کرے گی۔ تحریک انصاف بھی اسی موڈ میں نظر آتی ہے۔ مقتدرہ کو چایئے کہ وہ ابھی سے اس کا حل ڈھونڈنے کی طرف توجہ دینا شروع کرے۔
Title Image by Melanie from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔