بیانیوں، نعروں اور جلسے جلوسوں کی سیاست

بیانیوں، نعروں اور جلسے جلوسوں کی سیاست

Dubai Naama

میاں نواز شریف کی آمد محض ایک سیاسی بیانیہ ہے۔ ہماری عوام کی نفسیات میں، “سیاست میں کوئی دوستی اور کوئی دشمنی مستقل نہیں ہوتی”، کا اصول کارفرما رہا ہے۔ جلسے جلوسوں میں بریانی کھانے اور ناچنے والی ہمارے وطن عزیز کی سادہ لوح عوام جس لیڈر سے محبت کرتی ہے اس کی برائیاں بھول جاتی ہے اور جس سے نفرت کرتی ہے اس کی اچھائیاں بھول جاتی ہے۔ گو کہ یہ اصول اعلی جمہوری روایات کے لئے سم قاتل ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے اسے خود سیاست کے چیمپئن رہنماؤں نے فروغ دیا۔ اس حوالے سے “لوٹا کریسی”، “بریف کیس سیاست”، “ہارس ٹریڈنگ” “جھانگا مانگا” اور “مری ریسٹ ہاوس” کی بدنام زمانہ اصطلاحیں آج بھی سیاست کے طالب علموں کو یاد ہیں۔ گزشتہ نصف صدی کی ہماری سیاسی تاریخ ہی اصولوں اور نظریات کی بجائے اسی قسم کی مفادات پر مبنی گھٹیا اور منافقانہ سیاست پر کھڑی ہے۔ چالاک سیاستدانوں نے سطحی بیانیوں اور مسحورکن نعروں کے پیچھے بھاگنے والی عوام کے اس غیرسنجیدہ اجتماعی رویئے سے ہمیشہ خوب فائدہ اٹھایا۔ پیپلزپارٹی کے بانی و سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کا بیانیہ “مسئلہ کشمیر” اور “امریکی مخالفت” تھا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جذباتی تقریر کے دوران یو این او کا چارٹر پھاڑا اور اجلاس سے باہر آ گئے۔ انہوں پاکستان آ کر قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا، “کچھ امریکن ہاونڈز میرا پیچھا کر رہے ہیں۔” جس کے بعد بھٹو نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اور فلک شگاف نعرہ بلند کیا، “مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی کپڑا اور مکان” اور ساتھ ہی زرعی اصلاحات کرنے کا وعدہ کیا مگر جب انہیں اقتدار ملا تو انہوں نے غلام مصطفی جتوئ اور مصطفی کھر جیسے دیگر سارے جاگیرداروں کو جھولی میں بٹھا لیا۔ میاں محمد نواز شریف تین بار 1990ء تا 1993ء، 1997ء تا 1999ء اور 2013ء تا 2017ء وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ جب وہ آخری بار اقتدار میں آئے اور رخصت ہوئے تو انہوں نے ووٹ کو “عزت دو” کا بیانیہ متعارف کروایا اور “مجھے کیوں نکالا” کا نعرہ بلند کیا۔ جب میاں نواز شریف نومبر 2019 میں عدالتی حکم پر علاج کے لئے لندن گئے تو عمران خان کے ذریعے عوام کو خبر ملی کہ میاں صاحب ملک کی کثیر دولت سمیٹ کر پہلے ہی لندن منتقل کر چکے تھے۔ اسی دوران عمران خان صاحب “کرپشن” کا بیانیہ مسلسل زور شور سے آگے بڑھاتے رہے اور انہوں نے میاں نواز شریف کے خلاف نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرون ملک میں بھی “چور چور” کے نعرے لگوائے مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کا بیانیہ ٹھس ہو گیا تھا اسی طرح عمران خان کے عہد اقتدار میں کرپشن کئ گنا بڑھ گئی اور آج وہ خود پہلے توشہ خانہ کیس میں گھڑی چوری کے الزام میں زندان کے پیچھے تھے اور جب اس کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں ضمانت دی تو انہیں سائفر کیس میں اٹک جیل میں رکھ لیا گیا، جبکہ اس وقت ان پر 9مئی کے پرتشدد واقعات کے الزامات بھی صادر ہو چکے ہیں۔ اب میاں نواز شریف صاحب نے دوبارہ عوام کو 21اکتوبر کو ملک آنے کا بیانیہ دے کر سیاست میں ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کی بنیاد انہوں نے فوج اور عدلیہ کو ٹارگٹ کر کے رکھی ہے۔

میاں نواز شریف صاحب شدید علالت کی وجہ سے ایک عدالتی حکم پر چند ہفتوں کے لیے لندن روانہ ہوئے تھے لیکن صحت یابی کے باوجود وہ مسلسل وطن واپسی کو مؤخر کرتے رہے۔ اب ان کی واپسی کے حوالے سے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف اور مریم نواز عوام کے اندر سیاسی بخار پیدا کرنے کے لئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے میاں نواز شریف انتخابات کی انقلابی مہم چلانے اور “چوتھی مرتبہ” وزیراعظم بننے کے لئے واقعی وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ بلکہ میاں نواز شریف نے جس مزاحمتی بیانیئے کا آغاز کیا ہے اس سے بقول ان کے انہوں نے چوتھی بار وزارت عظمی پر بیٹھنے کے سارے معاملات طے کر لیئے ہیں جس کے ان کے پاس تحریری ثبوت بھی ہیں۔ ان کے مطابق وزیراعظم بننے کے بعد وہ 2017 میں انہیں ہٹانے والے سازشی کرداروں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے جن میں اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باوجود اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کے علاوہ سپریم کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس اور متعدد جج بھی شامل ہیں۔

بیانیوں، نعروں اور جلسے جلوسوں کی سیاست

کیا میاں محمد نواز شریف صاحب عوام کی عدم شعوری پختگی سے فائدہ اٹھا کر یہ بیانیہ سامنے لائے ہیں؟ بڑے سیاستدانوں نے عوام کی اس نفسیاتی کمزوری کو خوب نچوڑا ہے۔ سیاست دان یہ کھیل عوام کی اجتماعی نفسیات سے کھیلتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہر بڑی اور شاطر سیاسی جماعت ایک مسحور کن بیانیہ گھڑتی ہے جسے عوام میں مقبول عام بنا کر سیاسی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جدید دور میں پروپیگنڈا اور “ڈس انفارمیشن” سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ سب بڑی سیاسی جماعتیں علاقائی اور عالمی سطح پر لابنگ کے لئے لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ نواز شریف کو پاکستان آنے کے لیئے اگر بھائی شہباز شریف کے دور حکومت میں کلیرنس نہیں ملی تھی تو نگران حکومت میں یہ کلیرنس نہیں ملنے والی۔بے شک شاطر سیاسی جماعتیں بیانیئے اور نعرے گھڑنے کی ماہر ہوتی ہیں۔ ن لیگ کے پاس طاقتور میڈیا سیل، پریس ایڈوائزرز اور معروف صحافیوں کے گروپ کے علاوہ عوام میں رومانس پیدا کرنے کے لئے شہباز شریف اور مریم نواز شریف بھی ہیں۔ شائد ن لیگ انتخابات سے قبل عوام میں ہائپ پیدا کرنے کی متمنی تھی کہ، “کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے” جیسا ماحول پیدا کرنے کے لئے میاں شہباز شریف نے 21اکتوبر کا اعلان کیا جس میں بعد میں خود میاں نواز شریف نے “رنگ” بھرنے کی جدوجہد کی۔ ن لیگ کا انتخابی نشان بھی شیر ہے تو شہباز شریف نے شائد “جوش خطابت” میں اعلان کر دیا کہ، “نواز شریف آ رہا ہے۔” اس بیانیہ کو ن لیگ اب بھی ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چایئے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کو جاتے جاتے کالعدم قرار دے دیا تھا جس وجہ سے آصف علی زرداری سمیت میاں نواز شریف بھی اس کی زد میں آ گئے ہیں۔ نواز شریف العزیزیہ کیس میں سزا یافتہ مجرم ہیں وہ وطن واپس آئے اور انہیں عدالت میں پیش ہونے سے قبل عبوری ضمانت نہ ملی تو قانون کے مطابق وہ جونہی لاہور اتریں گے، یہ پولیس کی قانونی ذمہ داری ہو گی کہ انہیں گرفتار کر کے کوٹ لکھپت جیل پہنچائیں جس کی طرف عبوری وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کے دو معروف ترین سیاستدانوں میاں نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور انتخابات ان کے بغیر بھی منعقد ہو سکتے ہیں۔اسحاق ڈار کو پاکستان واپس آتے ہی عبوری ضمانت مل گئی تھی اور ایک روز بعد عدالت میں پیش ہو کر انہوں نے باقاعدہ ضمانت حاصل کر لی تھی۔ ان کے خلاف کافی سنگین مقدمات تھے مگر وہ نہ صرف صاف بری ہو گئے بلکہ وفاقی وزیر خزانہ بھی بن گئے! لیکن اگست میں جونہی پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہوئی اور قومی اسمبلی ٹوٹی موصوف دوبارہ واپس لندن چلے گئے (حالانکہ وہ سینیٹ کے رکن تھے اور ملک سے مخلص ہوتے تو قومی خدمات بدستور انجام دے سکتے تھے)۔کیا نواز شریف کو بھی اب ایسی ہی سہولت حاصل ہو سکتی ہے؟ اگر یہ سہولت انہیں اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی وزارت عظمی میں نہیں ملی تھی تو اب نگران حکومت میں کیسے مل سکتی ہے؟

2020 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سالہ توسیع دینے کے لیے ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا مگر آج یہ دونوں سیاسی جماعتیں مفادات پر مبنی غلطیوں کو چھپانے کے لئے جنرل باجوہ کو مطعون کر رہی ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو آڑے ہاتھوں لینے کا یہ بیانیہ پہلے عمران خان کا تھا جسے اب نواز شریف نے یہ ردبدل کر کے اپنا لیا ہے کہ وہ قمر جاوید باجوہ، جنرل فیض اور جسٹس ثاقب نثار وغیرہ کو سزا دے کر ہی دم لیں گے:
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد،
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!

لیکن سوچنے کی بات ہے برطانیہ اور امریکہ سمیت جن مغربی ممالک میں جمہوریت رائج ہے وہاں بھی ایسے سیاسی بیانیئے اور نعرے گھڑے جاتے ہیں، کیا وہاں بھی اسی طرح جلسے جلوس اور الیکشن مہم کے دوران ماردھاڑ ہوتی ہے جس طرح ہمارے ہاں ہوتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے پردے میں ہمارے چنگیزی سیاست دان یہاں جمہوری تماشہ سجاتے ہیں اور پھر غریب اور سیاسی شعور سے عاری معصوم عوام کو جی بھر کر چونا لگاتے ہیں۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

امان اللّٰہ کاظم ایک نایاب گوہرِ سخن

منگل ستمبر 26 , 2023
امان اللّٰہ کاظم کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ لیکن نئے قارئین کے لئے آپ بے بہا قابلیت اور شخصیت پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
امان اللّٰہ کاظم ایک نایاب گوہرِ سخن

مزید دلچسپ تحریریں