افسانوی مجموعہ بین کرتی آوازیں

افسانوی مجموعہ:”بین کرتی آوازیں

تبصرہ نِگار:انگبین عُروج

مُصنّفہ و افسانہ نگار:ڈاکٹر نسترن احسن فتحیی

علیگڑھ انڈیا میں مقیم پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور ایم اے اُردو گولڈ میڈلسٹ محترمہ نسترن احسن فتحیی صاحبہ,جن کے دو مقبول ناول “لِفٹ” اور “نوحہ گر” اُردو ادب میں بھرپور پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔محترمہ نسترن احسن فتحیی نے ایک عرصہ افسانہ نگاری کی صنف پر طبع آزمائی کی اور بالآخر ادبی حلقوں اور رفقاء کے اِصرار پر آپ نے اپنا لازوال افسانوی مجموعہ “بین کرتی آوازیں”،پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے اشتراک سے اس مجموعے کی اشاعت بطورِ خاص پاکستان میں کی۔جبکہ کتاب کا انڈین ایڈیشن بھی حال ہی شائع ہواہے۔

سب سے پہلے تو انہیں اس کامیابی پر ڈھیروں داد و تحسین پیش کرتی ہوں اور ان کی بے حد شکر گزار ہوں کہ پاکستان میں بسنے والے اُردو ادب کے شاگردوں کو بھی اپنی بہترین تخلیقات سے نوازا۔

خوبصورت سرورق سے مُزیّن اور اعلٰی ترین طباعت یافتہ یہ کتاب موصول ہوئی تو خوشی اور حیرت کے مِلے جُلے تاثرات چہرے پر عیاں تھے،خوشی اس بات کی کہ پڑوسی ملک بھارت کی معروف،تحقیقی صلاحیتوں پر انعام یافتہ اور ایک مُعتبر جریدے کی روحِ رواں مایہ ناز مُصنّفہ کی کتاب ہاتھوں میں آئی۔

ابتداء میں ہمیں کتاب کو کھولتے ہوۓ اپنے ادبی ذوق کی کم مائیگی کا احساس ضرور ہوا کہ کہاں محترمہ نسترن جی (پی ایچ ڈی،گولڈ میڈلسٹ) کے ضخیم افسانے اور کہاں ہم ادب کے نحیف و ناتواں طفلِ مکتب۔

لیکن ہماری توقع کے برخلاف افسانوں کا زبان و بیان انتہائی سادہ،ہر عُمر اور ہر طبقے کے لیے ہر زمانے کے نشیب و فراز کو سمیٹتے ہوۓ آسان فہم افسانے گو کہ ڈاکٹر صاحبہ کے افسانوں کا مزاج انسانی جذبات و حسّاسیت کے پلڑے میں بھاری وزن رکھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔کتاب کھول کر پہلا افسانہ پڑھتے ہی سانس ساکن،لب منجمد اور زُباں گنگ ہو گئی۔

افسانوی مجموعہ بین کرتی آوازیں

کیا کوئی ایسے حسّاس اور اچھوتے موضوعات پر بھی لکھتا ہے اور لکھ سکتا ہے؟؟مُصنفہ کے افسانوں کی تخلیق و بُنت دورِ جدید میں تخلیق کئے جانے والے افسانوں کے مزاج سے قدرے جداگانہ اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔بھلا کوئی دہائیوں سے گودام میں رکھے،گرد و غبار سے اَٹے پرانے اخبارات میں کنندہ شہہ سرخیوں کے پیچھے چیختی،چِلّاتی،سر دُھنتی،اپنی سچائی کا نوحہ سناتی،بین کرتی آوازوں کو بھی اس حسّاسیت سے سُن اور محسوس کر سکتا ہے؟؟

اس مجموعے میں شامل نسترن صاحبہ کی تخلیق کا شاہکار ہر افسانہ بولتا ہوا،جھنجھوڑتا ہوا،آپ کے دِل میں دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اس مجموعے کی عرق ریزی کرتے ہوۓ کئی بار ایسا ہوا کہ ایک افسانہ مکمل کر کے میں کئی دنوں تک اس میں جیتی رہی،یہ کتاب باوجود کوشش جلد مکمل کرنا میرے لئے محال ہوتا چلا گیا۔شیلف پہ رکھی یہ کتاب اپنا الگ وجود رکھتی ہے،سانس لیتی ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ کے افسانوں میں نہ صرف ظاہری تصنّع اور خوبصورت تمثیل نگاری سے گُریز نظر آتا ہے بلکہ انہیں پڑھتے ہوۓ قاری اپنے ضمیر پر کاری ضرب محسوس کر سکتا ہے۔کہیں کہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ نسترن صاحبہ نے اس سماج کی بوسیدہ رسوم و رواج،لاقانونیت،حق تلفی اور اَنا پرستی و خوشامد کی تہوں سے لیس بناوٹی چہروں پر طنز و تشنیع کے زنّاٹے دار طمانچے رسید کیے ہوں۔

مُصنفہ نے اپنے تخلیق کردہ افسانوں میں سرابی کیفیت اور غیر ضروری ملمع کاری کی روایت شکنی کی بنیاد رکھی ہے۔ہر افسانہ حقیقت سے قریب ترین اور ہر کردار قاری کے جسم میں روح بن کر حلول ہو جانے کی تاثیر رکھتا ہے۔

نسترن صاحبہ کے قلم کی خوبی کہیے یا اُن کے عمیق مطالعے،وسیع تجربات اور لامحدود مشاہدات کا نچوڑ کہ ان کے افسانے جس زمان و مکاں پر نیز جس پیرائے میں تخلیق کیے گئے ہوں،آپ کا قلم خودبخود اُنہی ادوار کا نقشہ کھینچتا ہوا ماضی کے جھروکوں سے گزر کر اپنا راستہ بناتا ہوا اور منظرکشی کرتا ہوا اُس دور کی تہذیب،جہالت و فرعونیت کے بخئیے اُدھیڑتا ہوا تاریخ کے عروج و زوال کو قارئین کے دِلوں پر ثبت کر دیتا ہے۔بلاشبہ آپ کے تخلیق کردہ افسانوں کا حق ہے کہ فقط ان کی ورق گردانی نہ کی جاۓ،انہیں محض پڑھا ہی نہ جاۓ بلکہ اُن میں جِی کر دیکھا جائے۔

مُصنفہ نے اپنے افسانوں میں شیریں لب و لہجہ اختیار کرنے کی بجاۓ قدرے سپاٹ اور ضرورت پڑنے پر تلخ و کاٹ دار لہجہ بھی اختیار کیا ہے،جملوں کی بے ساختگی و برجستگی قاری کے ضمیر کو کچوکے لگانے کی طاقت رکھتے ہیں۔مثبل کے طور پر چند کاٹ دار فقرے ملاحظہ کیجئے؛

“وہ اس دنیا میں کچھ روشنی،کچھ خوشی،کچھ رنگ تلاش کرنا چاہتی ہے مگر اپنی زمین سے دور بھی خوشی اور رنگ کی تلاش میں راکھ،دھواں اور خون کے علاوہ اسے کہیں کچھ نہیں ملتا۔”

-“قانون بننے کے لیے کسی نربھیا کو بے موت مرنا پڑتا ہے،کسی بستی کو جلنا ہوتا ہے۔”

-“یا اللہ تو نے انسانوں کو زندگی صرف اس لیے عطا کی ہے کہ اس سے عبرت حاصل کی جائے۔”

-“مجھے لگا کہ آج بھی میں کچھ مرے ہوۓ لوگوں کے درمیان کھڑی ہوں اور مردہ لاشوں میں یہ شعور کہاں ہوتا ہے کہ وہ کچھ سوچ سکیں اور جان سکیں کہ وہ کن حالات میں جی رہے ہیں۔”

یہ افسانے کسی مخصوص وقت یا مخصوص صِنف پر نہیں لکھے گئے بلکہ ہر افسانے کے پسِ آئینہ کئی جابر،ظالم اور معاشرے کے گھناؤنے بھیڑئیے نما کردار نظر آئیں گے ضرورت ہے تو ان افسانوں کو محسوس کر کے انہیں رگوں میں اتارنے کی کہ نسترن صاحبہ کے قلم نے افسانوں کے پسِ پردہ نہ صرف کرداروں کے چمکتے چہروں سے نقاب نوچ کر اُن پھیڑیوں کے بدبودار اور کریہہ سراپے سے روشناس کرایا بلکہ معاشرے کے بناۓ اندھے بہرے گونگے قاعدے قانون،تہذیبوں کو کچلتے رسوم و رواج اور سسکتی بلکتی انسانیت کا نوحہ لکھتے ہوۓ وجودِ ابنِ آدم کے اشرف المخلوقات کے معراج پر فائز ہونے کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔

نسترن صاحبہ نے اپنے افسانوں میں کہیں آنسوؤں،آہوں اور سسکیوں میں لپٹی خبر کو خوبصورت رنگین شہہ سرخیوں کے پیچھے چھپا کر جذبات اور کاروبار کو الگ رکھنے کا مَکر و فریب بیچ چوراہے پر ہنڈیا کی مانند پھوڑ دیا تو کہیں یہ باور کراتی نظر آئیں کہ موبائل کی چمکتی سکرین پر دور پردیس میں بسنے والے اپنے پیاروں کے چاند چہرے فقط اپنے زندہ ہونے کا احساس ہی دلا سکتے ہیں کبھی آنکھوں کی روشنی بن کر اُجالا نہیں کر سکتے۔

کئی افسانوں کے محور میں گھومتی عورت کی ذات کو کہیں سب کچھ قربان کر کے بھی نِڈر،بے باک اور بغاوت پر آمادہ عجیب عورت گردانا تو کہیں دنیاوی آسائشات کے حُصول کے لیے اپنے وجود کو کرچی کرچی کر دینے کے بعد اُسی وجود کو سمیٹ کر جوڑنے کی فکر میں مبتلا دکھایا۔کسی جگہ پر عورت اپنے وجود کے ہر لمحہ ہر لحظہ ضروری ہونے کے باوجود بے وقعت ہونے پر شکوہ کناں نظر آتی ہے اور کہیں ایڑیاں رگڑتی موت سے پہلے شام کے وقت پکتی روٹی کی خوشبو کی طلبگار۔

ڈاکٹر صاحبہ نے وسیع تجربے کی روشنی میں بتلایا کہ ہجوم اور مُفت کے چند نوالے مِلنے کی اُمید پر سرکس میں کرتب دکھانے والے جانوروں میں خاطرخواہ فرق نہیں ہوتا آج بھی جمہوریت کے نام پر نکلنے والا بپھرا ہوا ہجوم ہٹلر کے دور کی یاد تازہ کرتا ہے۔صحرا کی تپتی ریت پر کہیں نسلِ انسانی اپنی بقاء کی بھیک مانگتی ہو اور نایاب و نادر جانور کی نسل بچانا انسان سے لاکھ درجے زیادہ ضروری ٹھہرا دیا گیا ہو،ایسے ہی کسی لاچار مجبور و بے بس غریب کی بُھربھری ہڈیوں سے پوری مشقت کروا کے بڑے لوگ اپنی جیب میں پڑے بڑے نوٹوں سے بھی ایک کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں کہ غریب کی محنت پر بڑے نوٹ کو کتنا چھوٹا کر کے دیں اور زندگی کی بس آگے نکل جاتی ہے غریب کا فقط آسرا ہی رہ جاتا ہے۔

کسی کی برسوں کی ریاضت کے بعد کمائی عزتِ نفس کو ایک پل میں اُس کے اپنے دنیاوی غرض کی خاطر کیسے پیروں تلے کُچل دیتے ہیں۔

سادہ اوراق کی پر تعریفی فلسفے لکھ کر شہرت کے اندھوں کی بھوک مِٹا کر چند سِکّے اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کو مِل جائیں تو کیا بُرا ہے۔

غرضیکہ ہر افسانہ تعفن زدہ،بدبودار معاشرے کے چہرے پر پیپ رستے پھوڑے کی طرح ہے،جو اس معاشرے کے ایک ایک فرد کی ذہنی پستی،اخلاقی گِراوٹ اور مُردہ ضمیر ہونے کی غمازی کرتا ہے۔

نسترن صاحبہ کے افسانوی مجموعے میں چند افسانچے بھی شامل ہیں،اِن افسانچوں کے بارے میں فقط اتنی راۓ دینا ہی کافی ہو گا کہ”مُختصر لیکن پُراثر!”افسانوں کی طرح افسانچے بھی معاشرتی و سماجی رویوں کی بے حسی و سفاکیت پر بین کرتے نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ کے قلم سے نکلتے الفاظ میں جانے کیسی جادوئی تاثیر ہے کہ مختصر سطور میں جمود زدہ قفل پڑے ذہنوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دعاگو ہوں کہ ڈاکٹر نسترن احسن فتحیی صاحبہ کا قلم مزید مضبوط و توانا ہو اور ایک وقت ایسا آئے کہ ڈاکٹر صاحبہ کے قلم سے تخلیق کردہ تحاریر مُردہ ضمیر معاشرے کی رگوں میں ہلچل پیدا کر سکیں اور اس پژمردہ معاشرے میں انقلاب کی فضا جنم لے سکے۔

باذوق کتب کے دلدادہ قارئین اس کتاب کے حصول کے لیے ادارے اور مصنفہ سے براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔

00919599396218

00447424929058

ای میل:

[email protected]

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

بیانیوں، نعروں اور جلسے جلوسوں کی سیاست

منگل ستمبر 26 , 2023
میاں نواز شریف کی آمد محض ایک سیاسی بیانیہ ہے۔ ہماری عوام کی نفسیات میں، “سیاست میں کوئی دوستی اور کوئی دشمنی مستقل نہیں ہوتی”،
بیانیوں، نعروں اور جلسے جلوسوں کی سیاست

مزید دلچسپ تحریریں