نعتیہ مجموعہ زادِ شفاعت

نعتیہ مجموعہ زادِ شفاعت

پروفیسر حافظ محبوب احمد سرگودھا کا وہ درخشاں سورج ہیں جن کی کرنیں عالم نعت میں جگمگا رہی ہیں۔ فروغِ نعت کا ٹاٸیٹل تو ہر کسی نے لگا رکھا ہے لیکن حقیقی معنوں میں جتنا کام حافظ محبوب احمد نے کیا ہے شاٸد ہی کوٸ دوسرا ان کے مد مقابل ہو۔ حافظ صاحب نے فیس بک پر لوگوں کے کلام کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا تو مجھ جیسے سینکڑوں تشنگانِ نعت بھاگتے ہوۓ آۓ اور اپنا سینہ سیراب کر کے دعاٸیں دیتے ہوۓ چلے گۓ میں نے فیس بک پر اور عملی زندگی میں بھی یہ دیکھا ہے کہ فروغِ نعت کے بڑے نام یہ کام نہیں کرتے اور نعتیہ گروپوں میں یہ کہتے ہوۓ نظر آتے ہیں ” اِسّاں چھوڑو اِسّاں کجھ نٸیں نیں آنا وینا” یعنی اس کو رہنے دیں اس کو شعر کے متعلق کچھ پتہ نہیں ہے ۔میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ فروغ نعت کے ٹاٸیٹل والے شعرا غلط کلام لکھنے والے کے انباکس میں جا کر اس کی اصلاح کر دیں۔ کیونکہ فقط رسالہ نکال دینے یا نعت کا ادبی گروپ بنانے سے فروغِ نعت نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ دعویدار کمزور شعرا کی نعت کو سوشل میڈیا پر لاٸک کرتے ہیں اور اپنے ” قیمتی کومنٹ” سے بھی کسی کو نہیں نوازتے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے ان کا بڑا پن کہیں چھوٹا نظر نہ آ جاۓ۔ لیکن حافظ محبوب احمد وہ سمندر ہیں جس سے ہر کوٸ سیراب ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا شعر کی اصلاح کرتے وقت آپ شاعر کا حقیقی خیال نہیں بدلتے صرف کلام کے اوزان، قافیہ کے عیوب اور ربطِ خیال کی اصلاح کرتے ہیں
جہاں تک حافظ صاحب کی شاعری کا تعلق ہے سلاست و فصاحت آپ کا خاصہ ہے سہل ممتنع ہر شعر میں واضح نظر آتا ہے حافظ صاحب کے کلام کی اسلوبیاتی صباحت آپ کے کلام سے صاف ظاہر ہوتی ہے اور کلام میں فکری عفت آپ کے کردار کی واضح تصویر ہے جو کہ ہر شعر میں نمایاں نظر آتی ہے آپ کے کلام میں صنعتِ تلمیح کا جا بجا استعمال ہے۔ علم عروض کے استاد ہیں۔ یو ٹیوب پر بھی علم عروض سکھاتے نظر آتے ہیں۔ آپ کے کلام میں مضامین کی کمی کہیں نظر نہیں آتی ندرت بیانی مضامین کے معیار کو اوجِ کلام تک پہنچاتی ہیں۔ ان کا کلام فکر و نظر کے پھول بانٹتا ہے اور یہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت سے ہی ممکن ہے سوشل میڈیا پر جہاں سیاست دانوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں نفرت کے بیج بو رہی ہوتی ہیں وہاں مدحتِ رسول ﷺ کے چراغ روشن کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے حافظ صاحب بلاشبہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جو فروغِ نعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں کٸ بڑے ناموں کے ساتھ سیکھنے کے لیے جب میں نے رابطہ کیا تھا تو “وقت نہیں ہے ” کا جملہ سننا پڑا لیکن حافظ صاحب نے بلا تفریق پوسٹیں لگاٸیں کہ سوشل میڈیا پر کومنٹ میں کلام بھیجیں تو آپ اصلاح کر دیں گے اور ایسے آپ ہر کسی کا کلام اصلاح کر کے واپس کومنٹ میں ہی بھیج دیتے ہیں۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی

نعتیہ مجموعہ زادِ شفاعت


شعر میں وارفتگی اس میں جان پیدا کر دیتی ہے اور اس سے قاری کی ادراکٸ پرواز کو جِلا ملتی ہے حافظ صاحب کے ہر شعر میں وارفتہ پن ملتا ہے وہ جو سوچتے ہیں وہی لکھتے ہیں اور یہ خوبی اُن کو قافیہ پیماٸ سے دور رکھتی ہے ان کے شعر میں والہانہ پن اس بات کا مظہر ہے کہ وہ الہامی شاعر ہیں میں نے جب بھی ان کی نعت پڑھی ہے ایک عجیب جذبِ دروں اور مستی اوجِ خیال کو چھوتی ہوٸ محسوس ہوٸ ہے حافظ صاحب کی کتاب ” زادِ شفاعت” کے نگار خانہ ٕ شعر میں ڈھلے فن پاروں کا عکسِ جمیل ملاحظہ کیجیے :۔

ترا عشق میری نماز ہے ترا عشق مرا سجود ہے
ترا عشق میرا قعود ہے، ترا عشق میرا قیام ہے

نت نئی نعت عطا ہوتی ہے اللہ اللہ
چن لیا ہے مرے مالک نے مرا من، آہا

جو بارگاہِ شہہِ دوجہاں کے ہو لائق
وہ ایک آنسو بہانا نصیب ہو جائے

رب کا دیدار کیا عرشِ معلٰی دیکھا
چہل قدمی بھی ہوئی، سیرِ مقامات ہوئی

اپنے محبوب کو خود اپنی دکھائیں آیات
مہرباں ایسے محمد ﷺ پہ ہے وہ ذات ہوئی

کرم ہے اُن کا کہ ہوں اُن کا اُمتی یارو!
وگرنہ میں بھری محفل میں کس شمار میں ہوں

نکل کے روح بدن کے قفس سے کب پہنچے
حضورِ شاہِ شہاں میں، اس انتظار میں ہوں

نعت لِکھنی ہے خیالات لرز اُٹھے ہیں
روبرو طیبہ ہے جزبات لرز اُٹھے ہیں

شاہ کی ہم سے نہ ہو جائےکوئی بےادبی
شبِ اَسراء ہے سماوات لرز اُٹھے ہیں

جب بھی کرتا ہوں میں رُخ اپنا مدینے کی طرف
ایک ٹھنڈک سی چلی آتی ہے سینے کی طرف

طواف کرتے ہیں پروانے جیسے گردِ شمع
قلوب اِک رخِ زیبا کے گِرد گھومتے ہیں

کسے کہا ہے پیمبر نے اپنا لختِ جگر
تبھی تو سب درِ زہرا کےگرد گھومتے ہیں

اے خدا پوری بھی کر اَب یہ تمنا دلکی
کب سے ہم حسرتِ دیدار لیے پِھرتے ہیں

شہِ خورشیدِ عرب سے ہے عنایت کا سوال
ایک مدت سے شبِ تار لیے پھرتے ہیں

صرف ہم ہی نہیں مصروفِ ثناء اے یارو!
کرے جبریلِ امیں بھی یہ ریاضت، آہا

ہوئے مبعوث شہِ کون و مکاں بِسم اللہ
عرش تا فرش ہے خوشیوں کا سماں بِسم اللہ

بحرِ حیرت میں سبھی ڈُوب گئے اِنس و جاں
ہم کہاں اور یہ الطاف کہاں بِسم اللہ

چڑھ جائے تو اُترے نہ پس اَز مرگ بھی ہرگِز
اِے بادہ کشو ہے وہ نشہ عشقِ محمد ﷺ

لذت جو حقیقی میں مجازی میں کہاں ہے
اِے کاش ہو ہر دِل کو عطا عشقِ محمد ﷺ

پھیر لِیں مجھ سے اگر شاہ نے نظریں اُس روز
سوچتا ہوں مرا کیا حال خدایا ہوگا

ہے انجُمنِ دل میں قیامت کا چراغاں
میں دل میں بسائے پِھروں نعلینِ محمد ﷺ

مَس اُن سے ہوئے ہیں شہِ کونین کے تلوے
تاج اپنا بنائے پِھروں نعلینِ محمد ﷺ

آخر میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت حافظ محبوب احمد کو حیاتِ خضر علیہ السلام سے نوازے تاکہ وہ عشق رسول ﷺ کے چراغ جلاتے رہیں۔آمین

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مقبول ادیب

بدھ اگست 2 , 2023
مقبول ذکی ، سے میرا رابطہ اور تعلق معروف صحافی اور بھکر منکیرہ کے مشہور شاعر و ادیب سید علی شاہ مرحوم کی وساطت سے ہوا تھا ۔
مقبول ادیب

مزید دلچسپ تحریریں