سیلف میڈ مین قدید احمد

سیلف میڈ مین قدید احمد

سیلف میڈ مین قدید احمد

امجد اسلام امجد مرحوم کی ‘سیلف میڈ لوگوں کا المیہ’ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم ہے جسے پڑھتے ہوئے دبئی میں مقیم سیالکوٹ کا ایک نوجوان بزنس مین قدیر احمد یاد آ گیا۔ بسیار کوشش کے باوجود میں آج تک “بزنس مین” (Business Man) اور “سیلف میڈ مین” (Self Made Man) کا صحیح اردو ترجمہ نہیں ڈھونڈ سکا تھا۔ بظاہر انگریزی کے لفظ بزنس مین کا اردو ترجمہ تاجر ہے مگر اردو زبان و ادب میں تاجر عموما ایسے شخص کو کہتے ہیں جو جنس، چیزوں اور دیگر مصنوعات وغیرہ کی خرید و فروخت کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ہر اس شخص کو سرکاری طور پر بزنس مین کہا جاتا ہے جو کسی کمپنی کا مالک ہو۔ امارات اور دبئ میں آپ کوئی بھی کاروبار کرنا چاہتے ہیں، دکان یا ریسٹورنٹ کھولنا چاہتے ہیں، ایکسپورٹ امپورٹ کا کاروبار کرنا چاہتے ہیں، انڈسٹری لگانا چاہتے ہیں یا دوسرا کوئی بھی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہر کام کے لیئے ایک الگ سے لائسنس بنانا پڑتا ہے۔ قدیر احمد کی کمپنی ڈاکومنٹس کلیرنس، کمپنی فارمیشن اور لوکل سپانسر فراہمی وغیرہ کا کام کرتی ہے۔ اردو زبان و ادب کی لغت کا حسن یہ ہے کہ اس میں انگریزی، عربی، ہندی، فارسی اور سنسکرت وغیرہ کے الفاظ اپنی پوری معنویت کے ساتھ جوں کے توں سما جاتے ہیں۔ جب قدیر احمد نے اپنی کامیاب کاروباری کہانی سنائی تو مجھے ان دونوں لفظوں کی عملی تفسیر سمجھ میں آ گئی۔

قدیر احمد کا دفتر ڈیرا دبئی میں کلاک ٹاور کے ساتھ ایک آٹھ منزلہ شیشے کی عمارت میں ساتویں فلور پر ہے۔ وہ اپنی کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں اور ان کا کمرہ دفتر کی ایک نکڑ پر ہے جہاں سے نیچے گزرنے والی گاڑیوں اور پیدل چلنے والے لوگوں کو دیکھنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ انہوں نے اپنی ریوالونگ چیئر کو گھمایا اور کہنے لگے، “میرے والد صاحب فٹ بال سیتے تھے اور مٹی کی ٹرالیاں بھرتے تھے۔ میں ان پڑھ تھا انہوں نے مجھے ٹائل پلستر کا کام سیکھا دیا۔ دبئی میں میرا پہلا ویزہ مستری کا تھا اور میری تنخواہ چھ سو درہم تھی۔ گزشتہ دس سال میں اتار چڑھاؤ آتے رہے مگر میں نے ہمت نہیں ہاری”۔

قدیر احمد کی کہانی بہت متاثر کن تھی، وہ وقفے وقفے سے نیچے سڑک کا نظارہ بھی کرتا رہا، اس نے کہانی سنانی شروع کی تو میں سنتا ہی چلا گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے مجھ پر کوئی سحر طاری ہو گیا ہے۔ تب قدیر احمد نے موبائل سے ایک ویڈیو نکالی اور مجھے دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ فری علاج کے لئے یہ آٹھ کمروں کا ہسپتال بنا رہا ہے جس پر وہ مبلغ 80لاکھ روپے خرچ کر چکا ہے، وہ غریب اور نادار بچوں کی تعلیم کے لیئے ایک خیراتی فنڈ قائم کرنا چاہتا ہے اور آئندہ “الیکشن” بھی لڑنا چاہتا ہے۔

سیلف میڈ مین ان چند گنے چنے کامیاب کاروباری لوگوں میں سے ہوتے ہیں جو حالات کے خلاف لڑتے ہوئے اوپر ابھرتے ہیں جن میں الیکٹرک بلب کے موجد تھامس ایڈیسن، مشہور بلینیئریز بل گیٹس، جیف بینزوز، مارک زکربرگ، جان کون، برائن ایکٹن اور گوتھم ایڈانی سرفہرست ہیں جن میں سے کسی ایک کی کہانی یہ ہے کہ وہ اور اس کی ماں ڈبل روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے تھے اور امریکہ میں سوشل بینیفٹ کی رقم لینے کے لیئے آخری بیچ پر بیٹھے تھے۔ اس نے اپنا کئ بلیئین ڈالر کا کاروبار اس شرط کے ساتھ بیچا تھا کہ اسے چیک اسی بیچ پر آ کر دیا جائے جس پر وہ اور اس کی ماں کبھی “خیرات” کی رقم وصول کرنے کے لیئے بیٹھتے تھے۔

قدیر احمد کی طرح سیلف میڈ مین اپنا ماضی بھولتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو حوصلہ دینے کے لئے اس پر کوئی پردہ ڈالتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں امجد اسلام امجد نے ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہا تھا:
روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے، زندگی کے رستے میں۔۔بچھنے والے کانٹوں کو

راہ سے ہٹانے میں، ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں

خوشبوئیں پکڑنے میں۔۔ گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں، عمر کاٹ دیتے ہیں

اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں، کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں

درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں، صبر کے سمندر میں۔۔ کشتیاں چلاتے ہیں

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا،
کچھ صلہ نہیں ملتا، مرنے والی آسوں کا۔۔ خون بہا نہیں ملتا

زندگی کے دامن میں۔۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں، سب ہی ہاتھ آتی ہیں سب ہی مل بھی جاتی ہیں

وقت پر نہیں ملتیں۔۔ وقت پر نہیں آتیں
یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے، لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے، اصل جو عبارت ہو۔۔
پسِ نوشت ہو جائے

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں، ان کے صحن میں
سورج دیر سے نکلتے ہیں۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

چھانگلا ولی اور جنجو

بدھ دسمبر 6 , 2023
چھانگلا ولی موج دریا کی تبلیغ کی وجہ سے ہندووں کی قوم جنجو نے اسلام قبول کیا جن کی تعداد سوا لاکھ تھی ۔
چھانگلا ولی اور جنجو

مزید دلچسپ تحریریں