سائنس اور مذہب متضاد نہیں

سائنس اور مذہب متضاد نہیں

Dubai Naama

سائنس اور خدا متضاد نہیں

پاکستانی امیریکن ڈاکٹر سہیل زبیری صاحب امریکہ کی ٹیکساس یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس  کے مشہور پروفیسر ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں چیئرپرسن کے عہدے پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے سائنس اور مذہب کے موضوع پر مضامین معاصر جریدوں اور آن لائن ویب سائٹس پر چھپتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریروں کا خاصہ یہ ہے کہ وہ مذہب کے مابعدالطبیعات جیسے دقیق موضوعات کو سائنس کی سادہ اور عام فہم زبان میں پیش کرنے پر مہارت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خدا اور سائنس کے بارے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ: “ہماری سوسائٹی کے ایک بڑے حصے میں یہ تصور عام ہے کہ سائنس مذہب کی شدید مخالف ہے، اور سائنسی سوچ الحاد کی طرف لے جاتی ہے۔” یعنی الحاد سے مراد خدا اور مذہب کی نفی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک غلط العام تصور ہے کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف یا متضاد علوم ہیں۔ حالانکہ سائنس ایسا نظریاتی اور تجرباتی مضمون ہے جو قدرت کے بنائے ہوئے قوانین فطرت کی ترجمانی اور تشریح کرتی ہے ناکہ یہ مذہبی عقائد اور تعلیمات کو رد کرتی ہے۔

سائنس اور مذہب کے درمیان پائی جانے والی اس غلط فہمی کی وجہ سے سائنس کے کچھ طلباء اپنی کم علمی کی وجہ سے خدا کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ بنیاد پرست مذہبی طبقہ کے لوگ سائنس سے عدم واقفیت کی بناء پر سائنس کو ناپسند کرتے ہیں یا یہ دونوں طبقے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ شائد سائنس اور مذہب واقعی ایک دوسرے کے متوازی مضامین ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

کوانٹم فزکس کے جدید نظریات و تجربات مثلا “وقت میں سفر” (Time Travel)، “متوازی کائناتیں” (Parallel Universes) اور “بگ بینگ” (Big Bang) کے نظریات کائنات کی ابتداء کو جاننے کے بارے میں سرگرداں ہیں۔ یورپ کے وسط میں سوئٹزرلینڈ اور فرانس میں واقع دنیا کی سب سے بڑی سائنسی لیبارٹری سرن (SERN) میں دنیا بھر سے آئے ہوئے 3000 سے زیادہ سائنس دان 24 گھنٹے تجربات کے ذریعے اس بات کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی، یہ کیوں ہے یا اس کا حقیقی خالق اور موجد کون ہے۔ ان تجربات کے دوران “انٹرنیٹ” اور “گارڈ پارٹیکلز” (Higgs Bosson) جیسی حیران کن ایجادات ہوئیں اور اب چھوٹے پیمانے پر اس “بڑے دھماکہ” (Big Bang) کو انجام دینے کے تجربات ہو رہے ہیں جس کے بعد پہلی بار ہماری موجودہ کائنات معرض وجود میں آئی تھی تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ مذہب کے مابعدالطبیعاتی عقائد کے مطابق جانا جا سکے کہ کائنات کا اصل مقصد کیا ہے۔

سائنس اپنی تعریف اور کام کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی ایسا مضمون ہے کہ اس کا تعلق قدرت کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانا ہے ناکہ کائنات کے خالق جیسے آفاقی تصور کی مخالفت کرنا ہے۔ بہت سارے سائنس دان سائنس کو پڑھنے اور اس کے عملی تجربات اور ایجادات کے بعد مذہب میں داخل ہوئے کیونکہ آپ سائنس کو جتنا زیادہ گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں آپ اسی قدر اس حقیقت سے آشکار ہوتے چلے جاتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے کام کرنے کے پیچھے کوئی بڑا اور عظیم ذہن کارفرما جس کی وجہ سے یہ منظم قوانین کی بنیاد پر کام کر رہی ہیں، اور کائنات کا یہ طبیعیاتی نظام اس قدر منظم اور مربوط ہے کہ اس میں بال برابر بھی کمی بیشی آئے تو یہ کائنات ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر کام کرنا بند کر دے گی۔

زمین پر زندگی کا آغاز تقریباً 4 ارب سال پہلے ان حالات میں ہوا تھا جن کے بارے میں سائنس دان سردست زیادہ نہیں جانتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تب کائنات کے مشاہدے اور اس کا ریکارڈ محفوظ کرنے کے لیئے زندگی یا انسان جیسی باشعور کوئی مخلوق موجود نہیں تھی۔ زمین پر زندگی اپنی قدیم اور ایک خلیئے پر مبنی بنیادی شکل میں کائنات کے تقریبا 4ارب سال قبل وجود میں آنے کے بعد ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی صرف 20لاکھ سال پہلے افریقہ میں نمودار ہوئی تو انسانی گروہ افریقہ سے نکل کر یورپ اور ایشیا میں پھیلتے گئے، اور تقریباً ڈھائی لاکھ سال پہلے بنی نوع انسانوں نے آگ پیدا کرنے اور اسے کھانا پکانے کے لیے استعمال کرنے کا طریقہ سیکھا۔ زندگی کی انسانی ابتداء کا یہ ایک مہذب طرز عمل تھا جس نے انسانوں کی نسل کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کیا۔ جبکہ انسانی تاریخ کا سب سے نمایاں واقعہ 10000سال قبل زراعت کے عروج کے ساتھ پیش آیا جس کے بعد صنعتی انقلاب برپا ہوا، پھر یورپ میں احیائے علوم یعنی “نشاتہ ثانیہ” کی تحریک نے جنم لیا مغربی دنیا میں سائنسی انقلاب برپا ہوا جبکہ آج انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر “کوانٹم فزکس” کے دور سے گزر رہا ہے۔

کوانٹم سائنس کے جن مختصر مگر جدید نظریات کا پہلے ذکر کیا ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی مجرد قسم کے حقائق ہیں جن کو سمجھنے کے لیئے محض سائنس ہی نہیں مذہب کے الہامی اور مابعدالطبیعاتی عقائد کا سہارا لیئے بغیر مزہب کی بنیاد یعنی “حقیقت مطلقہ” تک پہنچنا تقریبا ناممکن ہے۔ الہامی عقل (وحی) کے علاوہ سائنس ہی وہ واحد تجرباتی علم ہے جو یہ ٹھوس سفر طے کروا سکتا ہے۔ بلکہ کوانٹم سائنس کی دیگر جدید اور حیران کن تھیوریز مثلا “قانون غیر” “(Law of Uncertainty), “ٹیلی پورٹیشن” (Teleportatoon) اور “دہرے زرات” (Twin or Entangled Particles) کے مطالعہ سے تو ایسا لگتا ہے کہ جدید سائنس دوبارہ الہامی و مذہبی عقل کی طرف پلٹ رہی ہے۔

مزیدبرآں سائنس ایک ارتقائی علم ہے مگر مذہب یا خدا کے بارے انسان کا تصور اس کے اندر فطری اور پیدائشی طور پر موجود ہے (یعنی “Built In” ہے) کہ انسان اپنے شعور و فہم کی طرف پلٹتے ہی جس سب سے پہلے سوال کے بارے میں سوچتا ہے وہ خود اس کی اپنی تخلیق ہے جس کے لیئے وہ خدا جیسی کسی عظیم ہستی کا محتاج ہے۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ: “جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پا لیا”۔ تمام قدیم الہامی و غیر الہامی مذاہب جن کے بارے میں آج ہم جانتے ہیں، زرتشت، ہندومت، بدھ مت، یہودیت، عیسائیت اور اسلام بنیادی طور پر سب کے سب کائنات اور زندگی کے بارے کامل اعتقادات (اور عقائد) ہیں جس کی تشریح کا کام سائنس تجرباتی طور پر کرتی ہے۔ اس طرح سائنس ایک ایسا علم ہے جو نامعلوم سے معلوم کی طرف سفر کرتی ہے یعنی پہلے نظریہ (Hypothesis or Theory)، پھر تجربہ (Experiment) اور اس کے بعد قانون (Law) قائم کرتی ہے۔ اور اسی قانون کو مذہب پہلے ہی مرحلہ میں “نظریہ حیات” یا “فلسفہ حیات” کی صورت میں طے کر دیتا ہے۔

یوں سائنس اور مذہب کو متصادم سمجھنا یا تصور کرنا دراصل ایک علمی کج فہمی کا نتیجہ ہے۔ اس بحث میں البرٹ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ جیسے بڑے سائنس دان بھی مغز ماری کرتے رہے ہیں۔ آئن سٹائن نے خدا کے تصور کو تسلیم کیا اور کہا، “میں سپائینوزا کے خدا پر یقین رکھتا ہوں” ( Albert Einstein stated “I believe in Spinoza’s God”) اور ہاکنگ نے خدا کا انکار کرنے کے باوجود “گرانڈ ڈیزائن” (Grand Design) جیسی معرکتہ الآراء کتاب لکھی جو کائنات کے بارے خدا کے بنائے ہوئے نظم و ضبط اور فطری قوانین کے بارے میں ہے۔ مذہب اور سائنس ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ایک حتمی اور غیر متبدل ہے اور دوسرا ارتقاء پذیر ہے جیسا کہ خود سٹیفن ہاکنگ کی “بلیک ہولز” (Black Holes) کی تھیوری میں دوسری عام کائنات میں کام کرنے کے باوجود طبیعیات کے تمام قوانین بلیک ہولز میں جا کر منہدم ہو جاتے ہیں حتی کہ دنیا کی تیز ترین رفتار روشنی بھی وہاں سے گزرتے ہوئے گم ہو جاتی ہے۔ یعنی سائنس یہاں بھی قدرت کے اس راز کی نظریاتی تعبیر پیش کرتی ہے ناکہ اس کی مخالفت کرتی ہے۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

شعیب کیانی کی نظم "میں نہیں رو سکا"

ہفتہ مئی 11 , 2024
شعیب کیانی کی نظم “میں نہیں رو سکا” گہرے ذاتی اور معاشرتی انتشار کے درمیان جذباتی ضبط پر مبنی شاعری ہے
شعیب کیانی کی نظم “میں نہیں رو سکا”

مزید دلچسپ تحریریں