صوفیہ، مصنوعی انسان ( کوانٹم ہیومین کا دوسرا حصہ)
28 اکتوبر 2017 کو سعودی عرب نے صوفیہ نامی خاتون روبوٹ کو دنیا کی پہلی شہریت دے کر انسانی ترقی کی تاریخ کو ایک نئے دور میں داخل کرنے کی ابتداء کی تھی۔ یہ تاریخ ساز قدم اٹھانے سے سعودی عرب نے دنیا کے اس پہلے ملک ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا تھا جس نے انسان کے بنائے ہوئے کسی سپر انٹیلیجنٹ مشینی انسان کو پاسپورٹ جاری کیا تھا۔
روز اول سے احساسات اور خوابوں کا حامل انسان اپنا مستقبل محفوظ کرنے، بقا حاصل کرنے اور چیزیں تخلیق کرنے کے فن کا متلاشی رہا ہے جس کا تمثیلی ذکر تقریبا تمام الہامی و غیر الہامی مذاہب کی کتب کے علاوہ قرآن کے قصہ آدم میں اس خلاصے کے ساتھ موجود ہے کہ: “پھر خدا نے تمام روئے زمین سے مٹی لی، اسے گوندھا، جب مٹی خشک ہوئی تو اس کا بت بنایا اور اس میں اپنی روح پھونکی تو وہ چلتا پھرتا آدم ہوا”. شائد کوانٹم سائنس اور ٹیکنالوجی کے زور پر انسان نما روبوٹس (Humanoid Robotics) یعنی مصنوعی انسانی ذہانت رکھنے والے “روبوٹک انسان” کی ایجاد اس حوالے سے ایسی پیش رفت ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے بنائ ہوئ مشین (بت) میں اپنا شعور یا روح منتقل کر سکے۔ یہ ایسا ہی عمل ہو گا جیسے خدا نے انسان کا مٹی کا بت بنا کر اس میں اپنی روح پھونکی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا ایسا کوئ نیا ممکنہ جسم ہمارے شعور اور عقل کو محفوظ رکھنے کا دیرپا حل ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا؟ چونکہ انسان خدا کی روح کی حامل مخلوق ہے اور روح کو موت نہیں ہے۔ لھذا انسان نے کسی نہ کسی جسم میں زندہ رہ کر زندگی کا یہ سفر ہمیشہ جاری رکھنا ہے۔ قرآن نے اپنی حیات پرور اسی اجتماعی فکر کی بناء پر “موت” کو فنا کے معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ یہ کہا جس کا مفہوم ہے کہ روح لافانی ہے یعنی جسم کو موت آتی ہے مگر روح کو موت نہیں آتی اور، “ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا یے (القرآن)۔”
صوفیہ نامی مصنوعی انسان اطلاعات اور معلومات پر مشتمل ایک پروگرامڈ ٹیکنالوجی ہے جسے ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔ ابتدائ طور پر ہر نئے آئیڈیا کو قدم جمانے کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن بعض ناعاقبت اندیش بنیاد پرستوں نے بے شمار دوسرے الزامات کے علاوہ سعودی عرب کے اس انسانیت افروز اقدام کو روایتی تنقید اور نکتہ چینی کا نشانہ بناتے ہوئے اسے کعبے میں بتوں کی واپسی سے تعبیر کیا تھا اب کوانٹم ٹیکنالوجی کی پیش قدمی دیکھ کر انہیں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جس طرح روائیت پرست لوگ جدید دور کی ہر پیش قدمی کو یہود و نصاری کی سازش قرار دیتے ہیں۔
ریاض میں منعقد ہونے والی مستقبل کی سرمایہ کاری کانفرنس کی تقریب میں جب صوفیہ کو انسانی معاشرے کی شہریت دی گئی تھی تو اس نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ:
“I want to live and work with humans”۔
کہ میں انسانوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہوں۔
صوفیہ روبوٹ کو ہانگ کانگ میں کام کرنے والی ایک امریکن کمپنی Hanson Robotics نے تیار کیا تھا جس کے مالک امریکی سائنسدان Dr. David Hanson ہیں۔
انسانی دماغ کی طرز پر چلنے والے ایسے روبوٹک انسان تیار کرنے والی ایک کمپنی Grishin Robotics بھی ہے جبکہ دنیا کی دیگر دس بڑی کمپنیوں میں
IROBOT, GOOGLE, TOUCHBIONICS, NORTHROP GRUMMAN, RETHINK ROBOTS, ACCURACY, LIQUID ROBOTICS, BOSCH, QBOTIX, PROX DYNAMICS
سر فہرست ہیں۔ یہ ساری کمپنیان انسانی زندگی کو دوام بخشنے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسان کا اگلا محفوظ اور مستقل جسم یہی روبوٹک انسان ہیں؟ ہم اہل اسلام کا ایمان ہے کہ انسان کے اندر خدا کی روح ہے جو لامحدود طاقت کی حامل ہے۔ اس کا ایک اندازہ انسانی دماغ میں پائے جانے والے ان نیورانز کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے جن کی تعداد اربوں میں ہے۔ تاہم جب انسان مٹی کے نامیاتی جسم سے دوسرے کسی کوانٹم جسم میں خود کو منتقل کرے گا تو اس کی پہنچان کیسے کی جائے گی یا وہ کونسی “نوع” کہلائے گا؟ یہ نیا انسان کیا کھائے پیئے گا اور اس کے جذبات کیسے ہونگے؟ وہ کاپی یا کلون انسان سے پکارا جائے گا، اسے کوانٹم انسان Quantum Human سے منسوب کیا جائے گا یا وہ محض “کوانٹم” کہلائے گا؟ مثال کے طور پر آج کی میڈیکل سائنس کے زریعے اگر احمد کا دماغ اصغر کو لگا دیا جائے تو “احمد” اصغر کہلائے گا یا “اصغر” احمد کہلائے گا؟
یہاں یہ قضیہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان دو انسانوں میں سے ایک انسان کو اپنی پہچان یا تو کھونی پڑے گی یا خود کو ایک دوسرے انسان میں مدغم کرنا پڑے گا۔ کیا ایک انسان “دو” ہو سکتے ہیں یا دو انسان “ایک” ہو سکتا ہے؟ یہ دو انسانوں کے جسمانی اور ذہنی ادغام یا ملاپ سے ایک نیا وجود حاصل کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہ انسان کا ممکنہ کمپیوٹرائیذڈ مستقبل ہو سکتا ہے جو بہت ہی دلچسپ ہے۔ تاہم ایک کمپیوٹر کا انسانی دماغ کی طرح کام کرنا اور انسان کا کمپیوٹر مشین میں زندہ رہنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ممکن ہے ایک دن ہم ایسا کوانٹم کمپیوٹر ایجاد کر لیں جو انسانی دماغ کی طرح کام کرتا ہو مگر اس سے ہمیں اپنی جان کو خطرہ ہو گا کیونکہ ایسا کوئ انسان نما کمپیوٹر نامیاتی “احساس” سے یقینا عاری ہو گا۔
کیا ہم ایسا کمپیوٹر ایجاد کر سکتے ہیں جو انسانی دماغ کی نقل یا تقلید کر سکے؟ یہی سوال انسانی دماغ کے ایک منصوبے پر کام کرنے والے محقیقین کے ایک گروہ نے 10 سال کی محنت کے بعد چند برس قبل یورپین یونین کے سامنے رکھا تھا تاکہ وہ اس سلسلے میں ان کی مالی معاونت کریں۔ یہ منصوبہ نیورو سائنس کے میدان میں کام کرنے والوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا جس سے انسانی دماغ پر ہر پہلو سے تحقیق کی جا سکے گی جس میں دماغ کے جنیز، سیلز، اناٹومی اور نظریاتی ماڈلز سرفہرست ہیں۔
انسانی پیچیدہ دماغ کو کمپیوٹر کی صورت میں متعارف کروانے کے منصوبے کی فنڈنگ یورپی یونین کرنے کے لئے تیار ہو گئ ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ دسمبر 2023ء تک اس پروگرام کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ اس منصوبے کی کامیابی پر “اشرافیہ” اپنے دماغوں کو کمپیوٹروں میں محفوظ کروا سکے گی۔ اس صورت میں جسم اور دماغ کے تعلق کی کیا نوعیت ہو گی؟ انسان کے جسم اور دماغ کے درمیان توان قائم ہو گیا تو یہ امکان ہے کہ موت کے خطرے کے پیش نظر ناقص انسانی جسم کی مرمت بھی انسان کے دماغ والا کمپیوٹر کر سکے گا۔
انسان کے دماغ کو بہتر طریقے سے کسی مشین میں منتقل کیئے جانے کے موضوع کو سپورٹ کرنے والوں میں وید یونیورسٹی ہاسپٹل Vaud Hospital سوٹزرلینڈ کے پروفیسر نیورو سرجن اور ریسرچر فلپ ریلئین Philippe Ryvlin سرفہرست ہیں جن کا دعوی ہے کہ جتنی بھی رکاوٹیں پیش آئیں ہم ایک دن انسانی دماغ کے تمام فکشنز کو کمپیوٹر میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اگرچہ انسان کے دماغ کے لامحدود سیلز اور ان کی تعداد کے اعتبار سے انسان کی یاداشت کو انسان ہی کی بنائی ہوئی ایک مشین میں ڈالنا جوئے شیر لانا ہے مگر اس کارنامے کو انسانی لامحدود صلاحیتوں کے حوالے سے انجام دینا ناممکن نہیں ہے جس کا انحصار محض ٹیکنالوجی کی ترقی پر ہے۔
ہیومین برین پراجیکٹ کے اس سے ملتے جلتے ایک منصوبے پر ہیڈل برگ Heidelberg اور برن Bern یونیورسٹی کا نیورو مارفک کمپیوٹر می ہائے پیٹروسی Nuromorphic Computers Mihai Petrovici کا ادارہ بھی کام کر رہا ہے جس کا مقصد انسانی دماغ کے متوازی کمپیوٹرز ایجاد کرنا ہے جو انسان کے دماغ میں پائ جانے والی کمی کو دور کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔
لیکن انسانی دماغ کا تعلق فزکس اور بیالوجی سے ہے۔ میرا خیال ہے کہ روح اور جسم کے تعلق کو مکمل طور پر سمجھنے سے پہلے ہمیں اس نوع کی ترقی کے کئ مراحل سے گزرنا ہو گا۔ ہمارا جسم خون اور گوشت کے ریشوں سے بنا ہوا ہے مگر ہم انسان اپنے جسم اور روح سے کوئی بالاتر “ہستی” ہیں۔ اس مرحلے پر نیورو سائنس کا ہر ماہر، ڈاکٹر، سائنس دان یا فلسفی یہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو اپنے ارادے اور شعور کی بناء پر ماحول پر برتری حاصل ہے اور اس نوع کی ترقی کا راز بیالوجی کے تعاملات اور اس کی معلومات کی پروسیسنگ سے ہے تو ہم یہ معلوم کر کے ترقی کا یہ سنگ میل یقینا عبور کر سکتے ہیں کہ اس کا تعلق بیالوجی کے کن پہلووں سے ہے۔
اگر انسانی جسم کے فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے نظام کو سمجھ لیا جائے تو ہم سیلیکون یا کسی دوسرے بیالوجیکل جسم میں اپنے شعور کی “کاپی” کر کے منتقل ہونے کی یہ منزل آسانی سے طے کر سکتے ہیں۔
ہیومین برین پراجیکٹ کی سائنس ڈائریکٹر کیتھرین ایمنٹ Katrin Amunts ان توقعات کی مخالفت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دماغ کو کسی سخت مشین میں محفوظ کرنے سے وہ تخلیقی، سائنسی اور شاعرانہ خیالات نہیں پیدا کیئے جا سکتے ہیں جو بیالوجیکل دماغ کی مالیکیولر موصول کنندگی اور ایک نیوران کی حرکت سے دوسرے ہمسائے نیورانز کے آپسی تعاملات سے پیدا ہوتے ہیں، اس صورت میں ہم پیچیدہ موسیقی سے کیسے لطف اندوز ہونگے اور جذبات پر مبنی رد عمل وغیرہ کیسے ظاہر کریں گے؟
اس کے باوجود یہ قانون فطرت ہے کہ ہمارے دماغ میں کوئ خیال اتفاقیہ یا بلا مقصد پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کائنات میں کوئ ایسی مشکل ہے کہ جس کا کوئ حل نہ ہو۔ گو کہ ابھی ہم اس ٹیکنالوجی سے بہت دور ہیں۔
فطرت کی خاموشی کو تنہائی میں جذب کے ساتھ سننا خوش قسمتی ہے، اس دوران ہمارے دل پر حقائق اترتے ہیں اور ہم باطن کی آنکھ سے وہ سب کچھ دیکھتے ہیں جو ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آ سکتا۔
دنیا میں اتفاق نام کی کوئی چیز نہیں، ہر چیز ہر دوسری چیز سے جڑی ہوئ ہے اور اس سے اگلی چیز کے واقع ہونے کا سبب بنتی ہے۔ غور سے دیکھیں کہ ہماری زندگی کا ہر بڑا واقعہ چھوٹے واقعات کے اکٹھے ہو جانے کی وجہ سے پیش آتا ہے۔ چیزیں ہمیشہ اتفاقیہ نتائج کی بجائے منطقی نتائج پیدا کرتی ہیں۔
اگر آپ کو لگے کہ چیزین اتفاقا واقع ہو رہی ہیں تو ان کی حکمت پر غور کریں کیونکہ کبھی کبھی اتفاق ایک باقاعدہ منصوبہ ہوتا ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔