انٹرنیشنل شارجہ بک فیئر 

انٹرنیشنل شارجہ بک فیئر 

Dubai Naama

انٹرنیشنل شارجہ بک فیئر

انٹرنیشنل شارجہ بک فیئر، جانے کے لئے ہم بعد از دوپہر 2بجے روانہ ہوئے۔ کتابوں کے تھیلے اٹھا کر گاڑی میں رکھنے کا جو تھیلا میرے حصے میں آیا اس میں رکھی سب سے اوپر والی کتاب کا عنوان “ابلیس” لکھا تھا۔ یہ کتاب اپنے عجیب و غریب عنوان کی وجہ سے مجھے کافی دلچسپ محسوس ہوئی۔میں نے یہ کتاب الگ کی اور اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑ لی۔ گوکل نے شارجہ ایکسپو سنٹر کا فاصلہ 20منٹ ظاہر کیا مگر ٹریفک کے رش کی وجہ سے گاڑی ایک جگہ رکی تو سرمد خان صاحب نے  مجھے خاموش دیکھ کر پوچھا، “بھٹی صاحب کیا چل رہا ہے”؟ الہامی کتب کے مطابق ابلیس اللہ تعالی کا مقرب ترین فرشتہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنا عبادت گزار تھا کہ اس نے زمین کے چپے چپے پر سجدہ کیا تھا۔ وہ اپنے علم میں بھی تاک تھا اور اس نے بتا دیا تھا کہ انسان زمین پر ناحق قتل و غارت اور “خون ریزی” کرے گا۔ اسی لیئے جب فرشتوں کے انسان کو سجدہ کرنے کی باری آئی تھی تو ابلیس نے غرور کیا تھا اور اپنی عبادت اور علم کے زعم میں آ کر انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وجہ سے اللہ تعالی نے اسے قیامت تک رائندہ درگاہ کر دیا تھا۔ ابلیس کو اس نافرمانی کی وجہ سے “شیطان” بھی کہا جاتا ہے۔ ابلیس کے عنوان والی اس کتاب کی مصنفہ نمرہ احمد ہیں۔ میرے بائیں طرف پچھلی سیٹ پر پاکستان سے آئے ہوئے مہمان فرقان صاحب بیٹھے تھے شائد انہوں نے بھی میری “باڈی لینگویج” کو دیکھ لیا تھا۔ میں نے اس کتاب کی ورق گردانی کی “ایکٹنگ” کرنے کی کوشش کی اور اسرائیل فلسطین جنگ کا موضوع چھیڑ دیا۔ میں نے جوابا کہا: “سر، غزہ کی پٹی میں درجنوں سینکڑوں بے گناہ بچے، عورتیں، بوڑھے اور نوجوان روزانہ کی بنیاد پر قتل ہو رہے ہیں”۔  انسانی نسل کشی کا غم کچھ درد دل رکھنے والوں کے لئے انسانیت کا اجتماعی دکھ ہے جو ایک ہی انسان میں جمع ہو جائے تو اس کا کتھارسس کرنا آسان نہیں ہے۔ ایسی کیفیت میں خاموشی اور پریشانی ایک فطری عمل ہے۔ شارجہ ایکسپو سینٹر تک پہنچنے میں ہمیں 40منٹ لگ گئے اور اس دوران سارا وقت یہی موضوع چلتا رہا۔

انٹرنیشنل شارجہ بک فیئر 
Image by Ahmad Ardity from Pixabay

شارجہ ایکسپو سینٹر جونہی نظر آیا جلی حروف میں ہر انٹری گیٹ پر لکھا تھا، “We Speak Books” جس کا مفہوم میرے حساب سے یہ بنتا ہے کہ ہم وہی کچھ بولتے ہیں جو ہم کتابیں پڑھ کر اپنے اندر محفوظ کرتے ہیں۔  تین روز قبل شارجہ “وزڈم ہاو’س” سے سرمد خان کے بک سٹال “اردو بکس ورلڈ”
(ہال نمبر: 7، سٹینڈ نمبر: زیڈ بی8) کو کچھ آرڈر ملا تھا جس کو پورا کرنے کے لئے وہ ایک روز کے لئے کراچی چلے گئے تھے اور اگلے ہی روز وہ پندرہ پندرہ کلوگرام کے کتابوں کے دو تھیلے لے کر واپس آ گئے۔ ہمارے پاس پلاسٹک کے 3بیگوں میں بھی کتابیں تھیں۔ ان کتابوں کی بنیادی جانچ پڑتال کے لیئے ہمیں گیٹ نمبر2 پر بھیج دیا گیا، دس پندرہ منٹ  بعد ہمارے “انٹری پاس” بنے، ہم میں سے ایک نے انٹری بک میں دستخط کیئے اور ہم یہ ساری کتابیں ٹرالی میں رکھ کر کتاب میلہ کے اندر لے  گئے۔ میں نے وقفے وقفے سے دیکھا کہ ہر جگہ قد آدم کی اونچائی پر یہی حروف لکھے تھے کہ، “ہم کتابیں بولتے ہیں”۔ یہ بات قدرے ٹھیک بھی ہے کہ ہمارے دماغ کی ساخت ایسی ہے کہ ہم مطالعہ، واقعات  اور تجربات  وغیرہ کی صورت میں اپنے لاشعور کو جو فیڈ کرتے ہیں آئندہ زندگی میں شعوری طور پر ہم وہی کچھ بولتے ہیں اور پھر اسی پر عمل کرتے ہیں۔ سٹال پر ہمارا استقبال نوعمر عظیم انصاری (وہ ویب ڈویلپر بھی ہیں) نے کیا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے سرمد خان سے اردو کے دیگر سٹالز کے بارے پوچھا تو انہوں نے بزم اردو کے “گوشہ ادب” (حال نمبر6 سٹینڈ نمبر018)
کے بارے میں بتایا۔ اس سٹال کا احتمام محترمہ فرزانہ منصور نے کیا ہے۔ لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی جگہ۔ ہماری ملاقات زبیدہ خانم سے ہوئی۔ وہیں ہم انڈین خاتون محترمہ کہکشاں سے بھی ملے جنہیں ہم بعد میں اپنے بک سٹال پر لائے تو انہوں نے اپنے سکول کی لائبریرین محترمہ لتا کو فون کر کے بلا لیا جنہوں نے اپنے سکول کے لئے کم و بیش 10اردو کی کتابیں خریدیں اور کچھ مزید ٹائٹلز کے آرڈر بھی دیئے۔

اس کتاب میلے میں انڈیا کے 100پبلشرز کی شرکت کا سنا تھا۔ ان میں سے کچھ بک سٹالز کا وزٹ بھی کیا۔ لیکن تشنگی تھی کہ پہلے پاکستانی اردو کتب کے سٹالز کی سیر کی جائے۔ لیکن پتہ چلا کہ انڈیا کے ان کثیر بک سٹالز کے مقابلے میں پاکستانی کتابوں کا “قدرت اللہ قرآن بکس” کا صرف ایک اور سٹال ہے۔ یوں اس کتاب میلے میں انڈیا کے 100بک سٹالز تھے اور پاکستان کے محض 3سٹالز تھے۔ اردو بکس ورلڈ پر ہماری مدبھیڑ ایک بڑی سیاسی جماعت کے صدر یاسر ملک سے بھی ہوئی اور انہوں نے بھی یہی شکایت کی۔ انہوں نے پروفیسر رفیق اختر کی ایک کتاب دیکھی تو فورا اٹھا لی اور کہا، “یہ میرے استاد ہیں”۔ انہوں نے کتاب کی قیمت دیکھے بغیر 50درہم سیلز مین کو پکڑا دیئے اور بقایا نہیں لیا۔ اسی جگہ ہماری ملاقات کراچی کے نوجوان شاعر قیصر منور سے ہوئی۔ ہم واپس نکلنے کی جلدی میں تھے۔ جب میں نے ان سے ان کی کسی کتاب کا پوچھا تو انہوں نے اپنا فون نمبر دے دیا اور کہا میری کوئی کتاب دیکھنے کے لئے گوگل کر لینا۔ معین صمدانی صاحب نے قرۃالعین حیدر کا بھی ذکر کیا کہ وہ کل “رائٹرز فورم” میں آ رہی ہیں شائد وہ ہمارے سٹال پر بھی تشریف لائیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اپنی بنگلہ زبان “سونار بنگال” کے لئے اتنی قربانیاں دینے والے بنگلہ دیشی بھائیوں کا وہاں کوئی بک سٹال موجود نہیں تھی۔ میری خواہش تھی کہ کتاب میلے کے عرب ممالک کے سٹالز پر بھی جایا جائے۔ سرمد خان صاحب نے یہ کام سینئیر صحافی اور مشہور ٹی وی پروڈیوسر معین صمدانی صاحب کے ذمہ لگایا مگر پہلے وہ مجھے اور فرقان صاحب کو “رائٹرز فورم” پر لے گئے۔ یہاں لکھاریوں کا جمگھٹا تھا۔ سیشن ابھی شروع ہونا باقی تھا کہ ہمیں عربی نسل کی پیسٹریوں، کیک سویٹس اور چائے قہوہ وغیرہ سے سروو کیا گیا۔ واپسی پر اتفانا میری نظر لبنان کے ایک بک سٹال پر پڑ گئ جسے دیکھ کر میں دوبارہ غمزدہ ہو گیا۔

نمرہ احمد کی یہ کتاب رمزیہ کہانیوں کی کتاب ہے اور اس کی پہلی کہانی کا نام ‘ابلیس’ ہے جس کے آخر میں وہ لکھتی ہیں کہ، “میں نے سونے کے بچھڑے کو توڑ کر جلا کر نیل کے پانیوں میں بہا دیا ہے اور اب میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا آپ کا بھی کوئی ایسا جھوٹا خدا ہے جس نے آپ کو باندھ رکھا ہے اور آپ کو اللہ سے دور کر دیا ہے؟ اگر ہے تو اسے ابھی توڑ ڈالیں۔ نصیحت پھر بعد میں آپ کے پاس نہیں آئے گی۔ بعد میں صرف عذاب آتا ہے”۔

شائد انسان کے اندر کا “نفس” بھی ابلیس ہے جس کے بارے میں ایک حدیث شریف ہے جس کا مفہوم ہے کہ روئے زمین پر شرک کے بعد سب سے بڑا کفر اپنے نفس کی پوجا کرنا ہے جو اپنے جیسے انسانوں کا خون بھی عبادت سمجھ کر بہاتا ہے اور اسی کا مظاہرہ آج اسرائیل  فلسطینی بچوں کا قتل کر کے کر رہا ہے۔ کتابوں اور استادوں کے دماغوں میں موجود ایک علم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسان کے ابلیسی نفس میں موجود اس جہالت کو ختم کیا جا سکتا یے۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مذہبی جنگ یا علمی تحریک؟

ہفتہ نومبر 11 , 2023
بہت سے اہل اسلام نشانہ ثانیہ کو اب ضروری سمجھتے ہیں۔ موجودہ اسرائیل اور حماس کی جنگ انتقام کا ایک مستقل بیج بو رہی ہے۔
مذہبی جنگ یا علمی تحریک؟

مزید دلچسپ تحریریں