میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

dubai naama

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

سابقہ وزیراعظم عمران خان صاحب کی گرفتاری کے بعد ایسا ہوا ہے کہ مظاہرین نے بعض سرکاری تنصیبات، انٹیلیجنس اداروں اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔ حتی کہ قانون شکنی کرتے ہوئے متعدد سرکاری گاڑیوں سمیت پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں، واٹر ٹینکرز اور کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔

عمران خان صاحب، کو جب سے اقتدار سے نکالا گیا ہے، وہ فوج اور انٹیلی جنس افسران کے خلاف الزامات لگاتے آئے ہیں، جس میں گرفتاری سے پہلے اس وقت شدت آئی جب انہوں نے آئی ایس آئی کے ایک حاضر سروس افسر کا نام لے کر یہ سنگین الزام عائد کیا کہ “اس نے مجھے دو بار مارنے کی کوشش کی اور یہ افسر ارشد شریف کے قتل میں بھی ملوث ہے”، جس کے جواب میں آئی ایس پی آر نے کہا کہ ادارہ ایسے بیانات پر قانونی کارروائی کا حق رکھتا ہے۔

گو کہ اس سے قبل وزیراعظم ہاﺅس سے یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو بھی نکالا گیا تھا، اور نواز شریف نے تو بس اتنا پوچھا تھا کہ، “مجھے کیوں نکالا؟” لیکن تحریک انصاف کے صدر اور سابقہ وزیراعظم عمران خان صاحب کے خلاف جب سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی، انہوں نے ریاست کی رٹ ہی کو چیلنج کر رکھا تھا! پاکستان کی سیاسی تاریخ میں رہنماؤں پر مقدمات قائم ہونا اور سیاسی قیادتوں کا جیل جانا کوئی نئی بات نہیں یے۔ ن لیگ کے تقریبا تمام سینیئر رہنما جیل کی ہوا کھاتے رہے ہیں جن میں نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف، خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ وغیرہ شامل ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے رہنماو’ں میں راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کے علاوہ خود آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو بھی سرفہرست ہیں۔

جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا جن کو عمران خان صاحب اپنا پسندیدہ سیاسی رہنما مانتے ہیں، وہ 27 سال تک جیل میں رہنے کے بعد بھی ملک کے صدر بن گئے تھے، جبکہ عمران خان کی سیاسی جدوجہد کا دورانیہ بھی 27 سال کا ہے۔ عمران خان صاحب کو چایئے کہ وہ انتقامی مقدمات کا سامنا کریں اور عوام کو احتجاجی اور ردعمل کی انتقامی سیاست کو بند کرنے کی ہدایات کریں کیونکہ مظاہروں اور جلاو’ گھیراؤ سے ملک و قوم کا نقصان تو ہو سکتا ہے مگر اس میں کسی قسم کا فائدہ بالکل نہیں ہے۔ جنرل مشرف دور میں پاکستان پر 38 ارب ڈالر کا قرضہ تھا جو 2016 میں 100 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس دوران زرداری اور نواز شریف کی سول حکومتیں آئیں جنہوں نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی اس معاشی تباہی کی بنیادی وجہ پاکستان کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال ہے جس کی طرف حال ہی میں چین کے وزیر خارجہ نے توجہ دلائی اور اسی وجہ سے ورلڈ بنک بھی ابھی تک پاکستان کا قرضہ ری شیڈول کرنے سے لیل و لعت سے کام لے رہا ہے۔

عمران خان صاحب کو ‘قادر ٹرسٹ’ کے جس کیس میں رینجرز کے ذریعے نیب نے گرفتار کیا وہ دراصل منی لانڈرنگ کا کیس ہے جس میں برطانیہ کی عدالت نے ‘پراپرٹی ٹائیکون’ ملک ریاض کی 190 ملین پونڈ کی منی لانڈرنگ پکڑی تھی جس پر موصوف نے ‘پلی بارگین’ کر کے اس رقم سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا اور جس کے بدلے میں انگلینڈ کی عدالت نے وہ رقم حکومت پاکستان کو واپس کر دی تھی جس کو عمران خان صاحب کے سابقہ دور میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروایا گیا تھا۔ جبکہ عمران خان کو بحریہ ٹاؤن پنڈی میں زمین تحفتا الاٹ کی گئی تھی جس پر آج قادر ٹرسٹ یونیورسٹی کی بلڈنگ کھڑی ہے۔ جبکہ کچھ قانون دان کہتے ہیں کہ عمران خان کو اس سے کیس میں “نااہل” قرار دیئے جانے کا امکان ہے۔
اس وقت ملک کا بال بال قرضہ میں ڈوبا ہوا ہے۔ چہ جائیکہ کہ ملک میں یہ سیاسی افراتفری اور بدامنی قائم رہی تو خدانخواستہ ملک کے دیوالیہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ عوام کو جو پارٹی اور لیڈرز پرفریب نعرے دیتے ہیں عوام آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چل پڑتی ہے:

جاتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک راہرو کے ساتھ،
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں۔

ہم اس ساری غیر یقینی سیاسی صورتحال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں، 13 جماعتوں پر مبنی متحدہ حکومت کو یا تحریک انصاف اور تن تنہا عمران خان کو؟ ‘تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔’

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

پرائمری سکول ملہووالہ ! یادیں

جمعرات مئی 11 , 2023
سکول کی چار دیواری نہ ہونے کا فائیدہ یہ تھا۔کہ راستہ چلنے والوں کو دیکھتے رہتے تھے اور بور نہیں ہوتے تھے ۔
پرائمری سکول ملہووالہ ! یادیں

مزید دلچسپ تحریریں