زرداری صاحب کی ‘معنی خیز’ خاموشی؟

زرداری صاحب کی ‘معنی خیز’ خاموشی؟

Dubai Naama

زرداری صاحب کی ‘معنی خیز’ خاموشی؟

اس دفعہ پیپلزپارٹی کو عوام میں ایک سیاسی فائدہ یہ حاصل ہوا ہے کہ نون لیگ کے لئے  ڈیل کے  لکھے گئے مسودے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا حصہ تھی مگر اب بلاول بھٹو زرداری نے واضح کر دیا ہے کہ پیپلزپارٹی کے نون لیگ سے اختلافات ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن مہم کا میدان سردست تقریبا خالی ہے۔ اگرچہ عمران خان کی مقبولیت کو ختم کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے اور عمران خان کے خلاف مانیکا کا ذاتی زندگی کے بارے گھٹیا انٹرویو بھی لانچ کیا گیا ہے مگر اس کی مقبولیت کو عوام کے دل سے نہیں نکالا جا پا رہا ہے جس  کے ردعمل میں ووٹ مانگنے کے کے لئے اپنے حلقوں میں جانے والے کچھ نون لیگی امیدواروں کی گاڑیوں پر پتھراو’ اور ان کی چھترول کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن سے  سپریم کورٹ ریلیف دے گی یا بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان موجود ہوا تو الیکشن کا بڑا رن پی ٹی آئی اور نون لیگ کے درمیان پڑے گا حالانکہ 9مئی کے واقعات کے پس منظر میں اس الیکشن میں بظاہر یہ “ایں خیال است و محال است” والی بات ہے۔ شائد آپکو یاد ہو گا کہ جب محمد نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں آ رہی تھیں تو انہوں نے جنرل باجوہ، جنرل فیض اور ثاقب نثار وغیرہ کے خلاف لندن میں بیٹھ کر سخت زبان درازی کی تھی اور کچھ دیگر کرداروں کے بارے میں بھی یہ کہا تھا کہ وطن واپسی پر انہیں اقتدار ملا تو وہ ان کرداروں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔ لیکن 21اکتوبر کو جس طرح میاں صاحب کی کامیاب طریقے سے وطن واپسی ہوئی اور جیسے انہوں نے ایئرپورٹ پر عدلیہ اور نادرا کو بلا کر حکومتی انتظامیہ کا بھانڈا پھوڑا اس سے واضح ہو گیا ہے کہ انہیں طے شدہ سہولیات سے بھی کچھ زیادہ ہی “ریلیف” دیا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد بلوچستان سے 30الیکٹیبلز اور ق لیگ کی نون لیگ میں شمولیت نے روز روشن کی طرح واضح کر دیا ہے کہ پردے کے پیچھے سیاسی کھیل کی یہ ڈوریں کون ہلا رہا ہے جس کا ایک خاکہ یہ ہے کہ خود نون لیگ کے سپوکس مین چند صحافی “چابی برداروں” جیسی اصطلاحات کا استعمال کر رہے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف چاہتے تو “پی ڈی ایم” (PDM) کی اتحادی حکومت کے دوران بھی وطن واپس آ سکتے تھے کہ جب ان کے برادر خورد وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان تھے۔ لیکن میاں صاحب نے اس “ڈیل” کا الزام اپنے بھائی کے کندھوں پر نہیں لادا تھا۔ شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میاں شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور وہ ان تعلقات میں کوئی رخنہ نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔

“ڈیل” یا “این آر او” کی سیاست کوئی مثبت اور خوشگوار سیاست نہیں ہے بلکہ یہ جمہوریت کے منہ پر ایک تمانچہ ہے کہ سیاست دان اپنے ناپسندیدہ کاموں اور جرائم وغیرہ کے بدلے میں “این آر او” اور “پلی بارگین” وغیرہ لے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے بارے میں ڈیل کی اڑائی گئی خبروں کی نون لیگ نے سختی سے تردید کی تھی۔ یہاں تک کہ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیئے نون لیگ کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی بیان دیا تھا کہ میاں نواز شریف کسی ڈیل کے تحت نہیں آئے بلکہ وہ عوام کی خدمت کرنے کے لیئے وطن واپس آئے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ میاں صاحب پاکستان ڈیل کر کے واپس آئے ہیں۔ ورنہ وہ وطن تب بھی آ سکتے تھے جب ان کی والدہ اور زوجہ اس دنیا سے رخصت ہوئی تھیں۔ اگر میاں صاحب اپنی سگی ماں کے جنازے میں پاکستان نہیں آئے تھے تو انہیں عوام کی خدمت کا اتنا ہی شوق تھا تو انہیں 4سال پہلے وطن واپس آ کر اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنی چاہئے تھی۔ اس کے برعکس پیپلزپارٹی کی قیادت جو بلاول بھٹو کے پاس ہے ان پر اس قسم کی ڈیل، الیکٹیبلز یا پلی بارگین وغیرہ کی سیاست کا کوئی الزام ہے اور نہ ہی وہ کسی عدالت سے سزا یافتہ ہیں۔ جبکہ اس الیکشن مہم میں نون لیگ فقط ڈیل اور الیکٹیبلز کی سیاست پر انحصار کر رہی ہے جو درپردہ “سودے بازی” اور  “بلیک میلنگ” کی سیاست ہے۔

اس پس منظر میں میاں محمد نواز شریف صاحب عوام میں “قائد عوام” رہے ہیں اور نہ ہی وہ عوام میں “سول بالادستی” یا “ووٹ کو عزت دو” کا بیانیہ دہرانے کی پوزیشن میں ہیں کیونکہ جب یہ سارے فیصلے عوام سے بالا بالا غیر اصولی سیاست کے تحت کیئے جا رہے ہیں تو اس میں عوام کے ووٹ کی کوئی وقعت باقی نہیں بچتی ہے۔

الیکٹیبلز زیادہ تر ابن الوقت اُمیدوار ہوتے ہیں جو اقتدار میں آنے والے اتحادیوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ بڑی جماعت الیکٹیبلز کو لے کر عموما بے توقیر ہو جاتی ہیں۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنی سیاسی مہم کا آغاز ہی “الیکٹیبلز” کو نون لیگ میں شامل کر کے کیا ہے۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ نون لیگ میں شامل امیدواروں سے بہتر کون جانتا ہے کہ پارلیمنٹ میں عددی برتری کی خاطر کس طرح خرید و فروخت ہوتی ہے مثال کے طور پر لوٹے، گھوڑے، مری ریسٹ ہاوس اور جھانگا مانگا کی اصطلاحیں پہلے بھی نون لیگ کے دور میں رائج ہوئی تھیں، اب بھی پہلے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران ممبران کی خریدوفردخت کی خبریں آتی رہیں اور اب تیسری بار نون لیگ الیکٹیبلز کے دم قدم سے دوبارہ اقتدار میں آنے کا کھیل رچا رہی ہے۔ اس نوع کی سیاست میں بکنے والے لوگ چھوٹے لوگ ہوتے ہیں جنہیں قیادتیں بڑا کہہ کر اپنے ساتھ شامل کر لیتی ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ امر ہے جسے ہماری عوام کئی بار سہہ چکی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سیاست کا معروف اصول ہی یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی اصول نہیں ہے۔

ہماری سیاست ہمیشہ ایسے غیر اصولی حوادث سے دوچار رہی ہے۔ سونا آگ میں جل کر کندن ہو جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان الیکٹیبلز نے ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھا ہے اور چڑھتے سورج کی پوجا کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا رہا ہے کہ اس نوع کے سیاست دانوں نے اصولوں پر سودے بازی کر کے اپنی جیبیں تو بھری ہیں مگر عوام کو مزید بدحال سے بدحال تر کیا ہے۔

جب موقع پرستی کو اصول بنا لیا جائے اور  اسے ملک و قوم کو چھوڑ کر اپنا مقدر سنوارنے کا ہی وسیلہ بنا لیا جائے تو پھر  توجیہات کے طور پر ابن الوقت روز افزوں بڑھتے ہی رہتے ہیں جس نظارہ عوام اپنی آنکھوں سے کر رہی ہے۔

دنیا بھر میں سیاستدان سیاسی جماعتیں بدلتے ہیں مگر وہ یوں انی نہیں مچاتے جس طرح اس بار نون لیگ مچا رہی ہے۔

یہ نظریاتی اور پارلیمانی  سیاست کو کمزور کرنے کی روش ہے۔ چونکہ اس طرز کی سیاست میں ملک و نظریئے کی بجائے اپنا مفاد عزیز رکھا جاتا ہے اس لئے ہماری جمہوریت میں ایسے لوگوں کو وہ توقیر نصیب نہیں ہوتی جو کسی فکری و تنظیمی ٹکراؤ کے باعث جماعت بدلنے والے کو ہوتی ہے اور یوں ایسے ابن الوقت عوامی اصطلاح میں “لوٹے” کہلاتے ہیں۔حکمرانی کا دسترخوان نون لیگ کے لئے سجتا دیکھ کر الیکٹیبلز کے منہ سے رالیں ٹپک رہی ہیں۔ ایسی سیاست میں کیا گارنٹی ہے کہ جو وزارتوں کے لیئے ایک بار بلیک کرتے ہیں وہ اگلی بار نہیں کریں گے؟ نون لیگ اپنے تھیلے میں ایسے سارے چٹے پٹے جمع کرتی جا رہی ہے جو آنے والے کل نون لیگ کو بلیک میل کریں گے اور خریدوفروخت و سیاسی رشوت کا بازار دوبارہ گرم ہو گا۔ لیکن خوش قسمتی سے پیپلزپارٹی کی قیادت اس میں قطعا ملوث نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس الیکشن میں پیپلزپارٹی کا یہ پلس پوائنٹ ہے۔ آصف علی زرداری کے بارے میں مشہور ہے کہ “ایک زرداری سب پر بھاری” تو کیا خبر سیاست کا یہ گرو کوئی ایسی چال چلے کہ نون لیگ ان ساری “سہولیات” کے باوجود زرداری صاحب کی اس اصولی سیاست کے سامنے بے بس ہو جائے۔ اگر پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے کی چھٹی مل گئی اور اس کا اتحاد پیپلزپارٹی سے بھی ہو گیا تو اس کا نتیجہ نون لیگ کے سارے خوابوں پر پانی بھی پھیر سکتا ہے۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مقبول ذکی مقبول کی کتاب اعتراف فن

جمعہ نومبر 24 , 2023
“اعتراف فن” مقبول ذکی مقبول کا تحریر کردہ پروفیسر عاصم بخاری کی کثیر جہتی ادبی خدمات اور ان کی شخصیت پر مبنی بہترین تحقیقی کتاب ہے۔
مقبول ذکی مقبول کی کتاب اعتراف فن

مزید دلچسپ تحریریں