بڑا بھائی چھوٹا بھائی

بڑا بھائی چھوٹا بھائی

Dubai Naama

بڑا بھائی چھوٹا بھائی

وہ اسکول میں دو بھائیوں کے نام سے مشہور تھے۔ ان دونوں بھائیوں کا گندمی رنگ اور درمیانہ قد تھا۔ بڑے بھائی کا قد تھوڑا بڑا اور چھوٹے بھائی کا قد تھوڑا چھوٹا تھا۔ اگر دونوں بھائیوں کے قد برابر ہوتے تو ان دونوں کے چہروں میں اتنی مماثلت تھی کہ جڑواں بھائی نہ ہونے کے باوجود جڑواں لگتے۔ وہ گورنمنٹ ہائی اسکول پیرمحل کے کلاس رومز اور راہ داریوں میں جدھر جاتے اکٹھے جاتے، ایک ہی کورس کے ایک جیسے مضامین لیتے، تقریری مقابلوں میں اکٹھے حصہ لیتے اور جب بزم ادب کے پیریڈ میں کچھ پڑھنے کا موقعہ آتا تو اگر ایک بھائی غزل سناتا تو دوسرا بھائی بھی غزل ہی سناتا۔

ان دونوں بھائیوں کی عادات بھی ملتی جلتی تھیں، گفتگو اور لب و لہجا بھی ایک جیسا تھا۔ ایک بھائی بولتا تو لگتا دوسرا بول رہا ہے اور دوسرا بات کرتا تو لگتا پہلا بول رہا ہے اور بلفرض دونوں بھائی ایک ساتھ بات کرتے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک ہی بھائی بول رہا ہے۔ انہوں نے قسم نہیں بھی کھائی تھی تب بھی پورا اسکول کہتا تھا کہ ان بھائیوں نے عمر بھر اکٹھے رہنے کی قسم کھائی ہے۔ جب دونوں بھائی پڑھ لکھ کر اور اعلی تعلیم حاصل کر کے بڑے ہو گئے تو ترقی کرتے کرتے بڑا بھائی شفقت اللہ مشتاق پہلے ڈپٹی کمشنر بہاول نگر رہا اور آجکل وہ سیکریٹری پنجاب ریوینیو بورڈ کے طور پر فرائض انجام دے رہا ہے جبکہ چھوٹا بھائی پروفیسر عبدالقادر مشتاق گورنمنٹ یونیورسٹی فیصل آباد میں شعبہ تاریخ کا انچارج ہے۔

بڑے بھائی شفقت مشتاق صاحب اعلی بیوروکریٹ ہونے کے ساتھ اعلی پائے کے پنجابی شاعر اور کالم نویس بھی ہیں۔ یہ دونوں بھائی مجھ سے ایک سال جونیئر تھے۔ ان دونوں بھائیوں اور میں نے کئی بار مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں میں اکٹھے حصہ لیا۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ کبھی میں ہارا تو وہ جیت گئے اور کبھی وہ جیتے تو میں ہار گیا۔ ریٹائرڈ پروفیسر یورالوجی الائیڈ ہسپتال فیصل آباد پروفیسر ڈاکٹر غلام محبوب سبحانی جو شفقت اللہ مشتاق کے پھوپھی زاد بھائی ہیں مجھ سے ایک سال سینئیر تھے۔ ان دونوں کی طرح ڈاکٹر سبحانی صاحب اپنی گوری چٹی رنگت اور لمبے قد کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان کی دوسری وجہ شہرت مشتاق انجم بھٹی تھے جو ان دنوں قومی اسمبلی کے سیکرٹری ہیں اور جنہیں صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب نے 23مارچ یوم پاکستان کے موقعہ پر امسال “تمغہ امتیاز” سے بھی نوازا تھا۔ ڈاکٹر سبحانی اور مشتاق انجم دونوں کلاس فیلو تھے اور گہرے دوست بھی تھے۔ یہ دونوں دوست بھی ہائی اسکول میں جھوٹا بھائی اور بڑا بھائی کی مانند اپنی دوستی کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان دونوں کی دوستی میں ایک ناگرا نامی لڑکے کا بھی رول تھا جو ان دونوں کا دوست تھا اور وہ بھی ڈاکٹر سبحانی کی طرح پورے اسکول میں اپنے گورے چٹے رنگ اور لمبے قد کی وجہ سے مشہور تھا۔ ہائی اسکول گئے عرصہ ہو گیا ہے ناجانے اب بھی حسن کے ایسے مقابلے ہوتے ہیں یا موقوف ہو گئے۔ لیکن ڈاکٹر سبحانی کل کی طرح آج بھی ایک رعب دار شخصیت ہیں۔ مآشآءاللہ! آج بھی موصوف کے چہرے کی سرخی مائل رنگت اور شخصیت کی وجاہت دیکھنے والے کو اپنے سحر میں مبتلا کر لیتی ہے۔

ان دنوں پیرمحل ہائی اسکول میں کچی منڈی کے رہائشی ایک طالب علم کا نام “پپو” تھا، وہ بھی ڈاکٹر سبحانی کا دوست تھا۔ شائد وہ آجکل محکمہ انہار اور دریاؤں کا کوئی بڑا افسر لگا ہوا ہے کہ: “ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا”۔ ڈاکٹر صاحب اپنے چہرے اور نقوش کی وجہ سے حسین و جمیل تو ہیں ہی، مگر ان کے اوصاف کا حسن اس سے بدرجہ اتم زیادہ ہے۔ گزشتہ روز ایک وٹس گروپ میں ڈاکٹر سبحانی کے بارے شفقت اللہ مشتاق کا لکھا ہوا ایک کالم نظر سے گزرا تو اس پر میرا تبصرہ تھا کہ، “ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کا کردار و اخلاق الفاظ کے خراج تحسین سے کہیں زیادہ کا مستحق ہے”، جس وجہ سے میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا۔ ڈاکٹر غلام محبوب سبحانی صاحب انتہائی عجز و انکسار کے پیکر ہیں، خوبصورت اور شیریں گفتگو کرتے ہیں، انہوں نے بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے، وہ ملک و ملک گھومے ہیں، ان میں علمی تجسس ہے اور وہ مزید بہت کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ بڑا بھائی شفقت اللہ مشتاق، چھوٹا بھائی عبدالقادر مشتاق، ڈاکٹر سبحانی، ناگرا، مشتاق انجم بھٹی، پپو اور میں ایک ہی شہر اور ایک ہی گاؤں کے ہیں۔ چشم بد دور کہ شفقت اللہ مشتاق اور عبدالقادر مشتاق جب بھی چھٹی پر گاو’ں آتے ہیں تو وہ آج بھی اپنے ڈیرے پر اکٹھے بیٹھتے ہیں، شادی بیاہ اور ہر خوشی غمی پر دونوں بھائی اکٹھے جاتے ہیں۔ جب کچھ پرانے کلاس فیلو اکٹھے ہو جائیں تو ہمیں ہائی اسکول پیرمحل کا وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب یہ دونوں بھائی اکٹھے پھرتے تو طلباء اور ٹیچر کہا کرتے تھے کہ، “وہ دو بھائی آ گئے”۔ وقت ایک سایہ ہے جو کبھی کبھی خوش قسمتوں کے ساتھ چلتا ہے۔ کانوں میں آج بھی وہ آواز سنائی دیتی ہے اور دل چاہتا ہے:

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

Title Image by Gerd Altmann from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

موسمیاتی سفیر پاکستان بنیے!

منگل اپریل 30 , 2024
موسمیاتی سفیر ہونے کے ناطے اکثر ماحولیاتی مسائل اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں گہری سمجھ حاصل کرنا شامل ہوتا ہے۔
موسمیاتی سفیر پاکستان بنیے!

مزید دلچسپ تحریریں