جب کتابوں کی جگہ ڈائنوسار آباد ہونگے

جب کتابوں کی جگہ ڈائنوسار آباد ہونگے

Dubai Naama

جب کتابوں کی جگہ ڈائنوسار آباد ہونگے

کسی دانشور نے کیا خوب کہا تھا کہ “انسان نے روئے زمین سے اتنا خزانہ حاصل نہیں کیا ہے کہ جتنا اس نے اپنے دماغ میں غوطہ زن ہو کر دریافت کیا ہے۔ کتابیں انسانی دماغ میں ڈوب کر حاصل کیئے گئے خزانے ہیں جن سے وہ لوگ بھی استفادہ کر سکتے ہیں جن کو سوچنے اور غوروخوض کرنے کا فن نہیں آتا ہے۔ کتابوں کی اس افادیت ہی کی وجہ سے دنیا بھر میں کتاب میلے لگتے ہیں۔ درحقیقت کتابیں انسان کی ترقی اور خوشحالی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ آج تک دنیا میں جتنے بھی بڑے انقلابات آئے ہیں وہ سب کے سب کتابوں ہی کے مرہون منت ہیں۔ شارجہ میں لگنے والا عالمی کتاب میلہ ہر سال نومبر کے مہینے میں گزشتہ 42سالوں سے منعقد کیا جا رہا ہے۔ آج اس میلے کے آخری دو دن تھے اور کتاب دوستوں کا اتنا رش تھا کہ ہمیں “اردو بکس ورلڈ” کے سٹال تک پہنچنے میں کم و بیش 20منٹ لگے۔ متحدہ عرب امارات میں ملکی اور غیر ملکی عوام کی کتابوں سے محبت کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ خدا ابھی اپنے بندوں سے مایوس نہیں ہوا ہے۔

جب ہم کتاب میلے میں داخل ہو رہے تھے تو عین اس وقت دنیا کے ایک تہائی ممالک نے اعلان کیا کہ اسرائیل فلسطین میں عالمی جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے کہا کہ، “سیکورٹی کونسل اسرائیل کے عالمی قوانین کی سریع خلاف ورزی کو روکنے میں ناکام ہو گئی ہے”۔ ایران کا موقف تھا کہ ہم اسرائیل کے خلاف حماس کے مزاحمت کاروں کے ہاتھ چومتے ہیں۔ جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے بیان دیا کہ فلسطینی اپنی نسل کشی کی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں منعقدہ اسلامک عرب اجلاس نے اپنے مشترکہ اختتامی اعلامیہ میں “انٹرنیشنل کریمینل کورٹ” پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف عالمی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کرے جن کا وہ فلسطینی علاقوں میں ارتکاب کر رہا ہے۔ یہ اجلاس “او آئ سی” (OIC) اور “عرب لیگ” (Arab League) کا مشترکہ اجلاس تھا جس میں دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اسرائیل فلسطین کی نسل کشی کر کے امن عالم اور انسانی بقا کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یاد رہے کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے 57 اور عرب لیگ کے 22 اسلامی ممالک ممبر ہیں۔ دنیا کی کل آبادی 195ممالک پر مشتمل ہے جن میں 193ملک اقوام متحدہ کے ممبر ہیں۔ دو ملک اقوام متحدہ کے ممبر نہیں ہیں، یہ مشاہداتی ریاستیں (Observer States) ہیں۔ ان میں “فلسطین” اور “ہولی سی” سرفہرست ہیں۔ یوں 193 آزاد اور خودمختار ملکوں میں کل 79 مسلم ممالک فلسطینی میں ہونے والی انسانیت کشی پر بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں کئی ملئین لوگوں کے احتجاج کے بعد ایک روز پہلے لندن میں ایک بار پھر احتجاج کیا گیا۔ لندن میں ہونے والی احتجاجی ریلی میں ہر رنگ و نسل کے مسلم و غیرمسلم افراد نے شرکت کی۔ کچھ کے بقول دس لاکھ اور کچھ کے نزدیک آٹھ لاکھ افراد نے نعرے لگا کر اور بینرز اٹھا کر اپنے دکھ اور غم و غصے کا اظہار کیا جن میں عیسائی، یہودی، سکھ اور غیر مذہبوں کی سب سے بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ موجود تھی۔ مختلف شہروں سے لوگ بسوں، گاڑیوں اور ٹرینوں میں بھر بھر کے لندن پہنچے تھے۔ والدین اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ ھائیڈپارک اور ماربل آرچ سے ریلی نے زور پکڑا اور امریکن ایمبسی تک گھنٹوں مارچ کیا۔ یہ پرامن احتجاج عراق میں ہونے والی جنگ کے بعد لندن میں سب سے بڑا احتجاجی اجتماع تھا۔عوامی ذہن انسان دوست ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے لاکھوں انسانوں کے احتجاج نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان کی اصل طاقت محبت اور امن ہے جو اسی صورت میں قائم کیئے جا سکتے ہیں جب دنیا کے انسانوں کی اکثریت میں شعور اور علم و آگاہی قائم ہو جائے۔

کتاب میلے میں ہم جہاں بھی گئے اسرائیل فلسطین جنگ کی وجہ سے دل میں ایک افسردگی سی محسوس ہوتی رہی۔ گزشتہ روز کے وزٹ میں ہم “علیم بکس” (حال نمبر6, سٹینڈ نمبر8) پر نہیں جا سکے تھے اس دفعہ وہاں بھی جانا نصیب ہوا. اس وزٹ کی خاص بات یہ ہے کہ چند اہم مصنفین سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں کہانیوں پر مشتمل کتاب “لوگ سرگوشیوں میں گویا ہیں” کے خالق راجہ شہزاد، شاعری کی کتب “آنکھیں خواب بنتی ہیں” اور “کمال عشق۔۔۔” کی مصنفہ ڈاکٹر عائشہ زاہد، متحدہ عرب امارات میں مقیم شعراء اور ادباء کے بارے “عطردان” کے مرتب شاداب الفت اور سفر نامہ “قصہ قبلتین” کے مصنف محمد صائم شامل ہیں۔ ان کے 10سالہ بیٹے اور ننے مصنف معاد صائم سے بھی خصوصی ملاقات ہوئی جن کی کتاب “قاموس ڈائنوسار” زیر طبع ہے۔ دنیا کی اشرافیہ کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ کتابوں سے سیکھی گئی دانش و حکمت ہی میں انسان کی “نجات” ہے تو یقینا دنیا میں انسان کی اس نسل کشی کا انجام ایک دن روئے زمین سے انسانی نسل کے خاتمے کی صورت میں نکلے گا۔ پھر انسانوں کی جگہ روئے زمین پر دوبارہ ڈائنوسار آباد ہونگے۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

فلسطین کی رزم گاہ

اتوار نومبر 12 , 2023
اسرائیل کے مظالم کے خلاف جہادی تنظیم حزب اللہ اور حماس ڈٹے ہوٸے ہیں
فلسطین کی رزم گاہ

مزید دلچسپ تحریریں