مقبول ذکی مقبول اور اس کی ادبی مقبولیت

تحریر:
پروفیسر عاصم بخاری میانوالی

نذیر یاد کی نظم کی طرح مقبول ذکی مقبول کی مقبولیت بھی آۓ روز فزوں تر ہوتی چلی جارہی ہے ۔

ہر دل عزیز شہر میں ، مقبول آج کل
تم بھی” نزیریاد ” کی ہو نظم کی طرح

بھلا کیوں نہ ہو۔
ادب کے ساتھ محبت کا جو عملی اظہار مقبول ذکی مقبول کے ہاں ہمیں ملتا ہے آج کے شاعروں ادیبوں میں وہ جذبہ کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔اردو سرائیکی شاعر ہیں مگر ماں بولی میں شعر کہ کر تسکین ِ قلب محسوس کرتے ہیں۔آج کل نثر کے میدان میں بھی ان کا نام ِ نامی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ان کے تبصرے اور بہ طور ِ خاص انٹریوز کی آج کل دھوم ہے۔ادیبوں شاعروں کے انٹرویوز کے ذریعے ان کی شخصیت کے مختلف گوشے قارئین ِ ادب کی بارگاہ میں ایک مدت سے بہ صدق و خلوص تواتر سے پیش کیے جا رہے ہیں۔
بقول شاعر

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب ِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

بڑی بات ہے۔منکیرہ بھکر کے لق و دق صحرا میں ادب کے پودے لگانا اور ان کی خون ِ دل سے آبیاری کا عزم ِ صمیم اور وعدہ انھوں نے علی شاہ مرحوم کی روح سے کیا ۔۔۔۔کہ جس ادبی مشن کا آپ نے آغاز کیا تھا تادم آخر اس کو اپنی منزل تک پہچانے کی حتی المقدور کوشش کرتے رہیں گے سو وعدہ خوب نبھاۓ جا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ادبی سفروں میں رہتے ہیں۔آج جھنگ ہے تو کل ننکانہ صاحب ، کبھی گجرات کی تقریب میں ہیں تو کبھی ماجد مشرقی کے ہاں گجرانوالہ کبھی حفیظ جالندھری کی قبر پر فاتحہ خوانی کر رہے ہیں تو کبھی فیض اور اقبال کے شہرسیالکوٹ ملیں گے۔

جھپٹا پلٹنا ،پلٹ کر جھٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

maqbool zaki

ان کانظریہ ہے حرکت ہی زندگی ہے۔
مقبول ذکی شاعر ہیں ادیب ہیں محقق ہیں اور دنیاۓ تنقید کے نو وارد۔ان کی شاعری اور تحقیقی وادبی مضمون اور علمی و ادبی انٹرویوز آۓ روز اخبارات رسائل اور جرائد میں چھپتے رہتے ہیں جواں ہمت ہیں۔مجھے ان کی جس خوبی نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ان کی ایثار پسندی ہے۔ دوسروں کے لیے جگہ بناتے ہیں۔سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ان ہی کی کوششوں سے پاکستان بھر کے بہت سے شعرا ءادیب ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔وسیع المطالعہ تو بہت سے لوگ ہوتے ہیں مگر یہ وسیع القلب بھی ہیں لوگوں کو متعارف کرا کے ادبی تسکین محسوس کرتے ہیں۔دوسروں کے لیے جینا اور کام آنا ان کی زندگی کا مقصد ومنشور ہے۔ناوسائلی کے باوجود بہت وسیع حلقہ ء احباب رکھتے ہیں۔ویسے حیرت کی بات ہے کہ آج کے لوگ تو ذات کی بات کرنے والے ہیں۔ہرایک کو اپنے ہی نام اور مقام کی پڑی ہے۔
دو سرائیکی شعری مجموعوں “سجدہ ” اور ” منتہاۓ فکر کے خالق ہیں۔جن پر ان کی خوب حوصلہ افزائی اور پذیرائی ہو چکی ہے۔ملک کےطول و عرض سے اعتراف ِ فن کے اعزازات اور ایوارڈز سے انھیں نوازا گیا ہے۔جس پہ ہمہ وقت سراپا شکر دکھائی دیتے ہیں سادہ ہیں۔مزاج میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔آج کل ان کی علمی وادبی شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب”مصاحبے” زیر ِ ترتیب ہے۔جس میں ادبی شخصیات کے بارے مکمل معلومات بڑے خوب صورت اور دل چسپ انداز میں فراہم کی گئی ہیں۔ان کا یہ بڑا یادگار اور قابلِ ذکر کارنامہ ہے۔جو کہ انھیں دنیاۓ نثر ، تحقیق و تنقید میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
آخر میں ان کے چند بہ طور نمونہ شائقین ِ شعر وادب کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا

سانس چلنے لگی حق کے پیغام کی
ایسے دل میں عمل کو اتارا گیا

خم کو جو بھولے ہیں وہ دشمن ہوئے ہیں آل(ع) کے
اس کو نہ کوئی بھلائے ہے یہ نام کربلا

نہ کہیں ایجھا کیتا سجدہ کوئی ایجھاں نہ کر سگسی
اجاں توڑیں ہے سجدے وچ عبادت وی سمندر ہے

عاشور دا ڈیہاڑا پیشیں نماز ویلا
ساری خدائی اتے چھاونڑ لگا ہے سجدہ

توں خالق مالک جانڑدا ہیں میڈی اکھیاں وچ برسات ہے کیوں

ڈیکھوں در لاہندے اساں سیداں (ع)دے ہنڑ بھیج جہان تے حجت خدا

pro asim

پروفیسر عاصم بخاری

میانوالی

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مودت اور آہِ رسا

جمعہ جنوری 14 , 2022
اس دور میں ایسے لوگ نایاب ہیں جن کا سخن کے ساتھ ساتھ کردار بھی عظیم ہو اور ان کی تنہائی یاد الٰہی سے منور ہو

مزید دلچسپ تحریریں