ہمارا زوال

ہمارا زوال


کالم نگار:۔ مظہر علی خان کھٹڑ

آج اگر ہم کو اپنے وطن میں سب سے زیادہ ہجوم نظر آ رہا ہے تو وہ تین جگہوں پر نظر آ رہا ہے
آٹا لینے والی قطاروں میں
ہسپتالوں میں
عاملوں کے آستانوں پر
میں ساتھ یہ بھی عرض کر دوں کہ یہاں عاملوں کے آستانوں سے مراد جعلی پیر ہیں
میں اللہ کے ولیوں کا منکر نہیں میں خود اللہ کے نیک بندوں کے مزارات پر جاتا ہوں اللہ والوں کے پاس دعا کے لیے بیٹھ جاتا ہوں مگر جادو ٹونے والے عاملوں کے آستانوں پر نہیں جاتا
تو میں بات ہجوم کی کر رہا تھا کہ ان تین جگہ پر سب سے زیادہ ہجوم نظر آتا ہے کیا اس ہجوم کی وجہ جاننے کی ہم نے کبھی کوشش کی ہے کیوں کہ آج سے تقریباً تیس سال پیچھے چلیں جائیں تو مزارات پر ہجوم ہوتا تھا مگر یہ آٹے کی لیے قطاریں نہیں ہوتی تھیں

ہمارا زوال


ہسپتالوں میں ڈاکٹر بیٹھے مریضوں کا انتظار کر رہے ہوتے تھے مگر آج ایسا نہیں ہے یہ کیوں ہو رہا ہے آئیں اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں دوستو مجھے اس کی جو بنیادی وجہ نظر آ رہی ہے وہ اپنے رحیم و کریم رب سے دوری ہے ہم نے اپنے رب کو یاد کرنا چھوڑ دیا ہے ہم نے اپنے رب کے ذکر سے رخ موڑ لیے ہیں اور آج ہم مہنگائی کی چکی میں پستے جا رہے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں نے ہمیں اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے جب بیماری آتی ہے دوا کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے ہم عاملوں کے پاس دوڑ پڑتے ہیں وہ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ پر کسی نے کالا جادو کر دیا ہے آپ پر جنات کا سایہ ہے وہ ہمیں شف شف کر کے جو ہمارے پاس تھوڑی بہت بچی کچی رقم ہوتی ہے بٹور لیتے ہیں حالانکہ ایسی حالت میں بھی ہمیں خدا یاد نہیں آتا ہم سارا سارا دن آٹے کی لائن میں دھکے کھا رہے ہوتے ہیں لائن میں کھڑے کھڑے نماز قضا کر دیتے ہیں بتائیے کیا اس طرح مسائل حل ہو جائیں گے نہیں نہیں اس طرح کبھی مسائل حل نہیں ہونگے ہر مسئلے کا حل اللہ پاک کی پاک کتاب میں بیاں کر دیا گیا ہے اللہ پاک کی پیاری کتاب قرآن مجید کی تلاوت کریں ترجمہ اور تشریح کے ساتھ قرآن پاک کو پڑھیں اور اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ کامیابی اللہ پاک کے ذکر اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے پر چلنے میں ہے


آئیے ہم سب اپنے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں وہ غفور و رحیم ہے وہ ضرور ہمیں معاف کر دے گا اپنے رب سے سچی توبہ کریں اور پنجگانہ نماز کی پابندی کریں اور نماز تہجد ادا کر کے اپنے لیے اپنے تمام مسلمان بھائیوں کے لیے اور وطن عزیز کے لیے دعا مانگیں اللہ پاک ہم پر رحم فرما دے گا تہجد گزاری پر سید حبدار قاٸم نے اپنی کتاب ”نماز شب “ کے صفحہ نمبر 114 پر بہت خوبصورت مضمون لکھا ہے ملاحظہ کیجیے

” اللہ کا ذکر دل کا سکون ہے
امام جعفر صادق ؑ کے منور ارشادات نمازِ شب کی ترغیب دلاتے ہیں کیونکہ نماز شب سے دلوں کو سکون ملتا ہے اور دلوں کا زنگ دور کرنے کے لیے رات کے پچھلے پہر اللہ کا ذکر کرنا اکسیر ہے۔ اور جو لوگ اپنے دلوں کو رات کے ستاروں کی حسیں ٹمٹماہٹ کے سنگ انوارِ خدا وندی کا خزینہ بناتے ہیں ۔ ان کے دل اللہ کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ اور ان کے دل کو اللہ رب العزت اپنی رحمتوں سے سکون آمیز بنا دیتا ہے۔ وہ ہمیشہ فرحت محسوس کرتے ہیں ۔
سورہ الرعد کی آیت نمبر 28 میں ارشاد باری تعالٰی ہے۔
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
یعنی بے شک اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔
اللہ تعالی تہجد گزار کا سینہ اپنے مقدس انوار سے بھر دیتا ہے۔ اور اس کی روح کو پاکیزگی کے اعلٰی مدارج پر فائز کر دیتا ہے ایسا انسان جب بھی بولتا ہے تو اس کی پاک زبان سے پھول جھڑتے ہیں ۔ اس کے حسن بیان سے کلیاں نکھرتی ہیں غنچے رقص کرتے ہیں اور اسکی شخصیت اللہ کے رنگ میں رنگی جاتی ہے ۔ اس کی زیست کی ساری ترجیحات معمولات اور پسند و نا پسند خوشنودی ٕ رب العزت کے حوالے سے ترغیب پا کر معراجِ بندگی حاصل کرتی ہیں۔ کیونکہ اسکی محبت کا معیار بلندیوں کو چھوکر اس کو اس مقام پر لے آتا ہے جسکا ذکر قرآن حکیم کی سورہ الانعام کی آیت نمبر 162 میں اللہ رب العزت یوں بیاں فرماتا ہے: ۔
قل ان صلاتی و نسکی ومحیای ومماتی للہ رب العلمین۔
آپ کہہ دیں کہ بلاشبہ میری نماز ،میری قربانی،میرا چلنا،اور میرا مرنا یہ سب اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا مالک ہے۔
یہی معیارِ تقوٰی ہے اور نمازِِ شب کا یہ اعجاز ہے کہ انسان اپنی خواہشاتِ نفسانی کو ختم کر کے اعمالِ صالح کی جانب رواں دواں ہوتا ہے۔ اپنے ہر عمل کا محاسبہ کرتا ہے ۔ اور آرائشِ عمل و انکساری کے لیے اپنے دل میں تقوٰی کی حقیقی صورت اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ خداوند قدوس کے حضور جواب دہی کا احساس دراصل تقوٰی کی ہی اساس ہے۔ جو لوگ خوف سے دامن گیر ہوکر خدا وند عالم کے حضور راتوں کو قیام کرتے ہیں۔ اور تسبیح و تہلیل میں اپنی زندگی کی ساعتیں گزارتے ہیں ۔ خدا وند تعالٰی ان سے جنت میں انعام و اکرام کا وعدہ کرتا ہے۔ ان لوگوں کے دل ہی سکون کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔“

سید حبدار قاٸم کے اس مضمون کو پڑھ کر مجھے بہت سکون ملا ہے اگر ہمیں زوال سے بچنا ہے تو ہمیں اللہ سے لو لگانی ہو گی عمل کرنا ہو گا کیوں کہ عمل کرنے سے زوال عروج میں بدل جاتا ہے عمل سے قوم مردہ دلی سے نکل کر زندہ دلی کا مظہر بن جاتی ہے تو کوٸی ہے جو فکر کرے اور عمل کر کے زوال سے نجات حاصل کرے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کائنات جاوید کی نظم "تعلق"

پیر مارچ 25 , 2024
کاٸنات جاوید کا تعلق کھاریاں کے ایک چھوٹے قصبے سے ہے، آپ گرافکس ڈیزاٸنر ،کوٹنٹ راٸٹر ، افسانہ نگار، نثر نگار،
کائنات جاوید کی نظم “تعلق”

مزید دلچسپ تحریریں