وہ سکھوں کے محلے میں اکیلا ہندوتھا۔ وہ روز گرودوارے جاتا اور گروگرنتھ صاحب پڑھاکرتا۔
اندراگاندھی کے قتل کے بعد ہوئے ہندوسکھ دنگوں کے دوران وہ سکھ مذہب میں اپنی عقیدت بتاتے ہوئے بچ گیا۔ کچھ سالوں بعد اس کی بدلی مسلم مجارٹی والے علاقے میں ہوگئی۔ وہاں وہ باقاعدہ مسجد جاتا اور قرآن پڑھاکرتا۔ بابری مسجد میں ہوئی توڑپھوڑ کے بعد بھڑکے دنگوں میں اس نے مسلم دنگائیوں سے اسلام مذہب میں اپنی عقیدت بتائی، وہیں ہندو دنگائیوں سے اپنے ہندو ہونے کی دہائی دی۔ وہ پھر بچ گیا۔
ان دنوں وہ عیسائیوں کے محلے میں نوکری کررہاہے۔ وہ پادری کے قتل، ننس سے بلاتکار اور چرچوں میں توڑپھوڑ جیسے مدعوں پرہندوﺅں کے خلاف آگ اگلتاہے۔ وہ روز چرچ بھی جانے لگاہے اور مقدس بائبل بھی پڑھنے لگاہے۔ پکے طور پر وہ اس بار بھی بچ جائے گا۔
وہ یہ بات بڑے غرور کے ساتھ کہتا ہے کہ میں ہندو ہوں لیکن تب، جب وہ تنہا ہوتاہے۔
یعنی ایک ہندوطالبانی تنظیم کانعرہ….گور/غرور سے کہو ہم ہندوہیں۔

آلوک کمار ساتپوتے
افسانہ نگار
چھتیس گڑھ صوبہ کے سرکاری رسالہ کے مدیرکے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ہندوستان کے تمام پروگیسیو اخبارات و رسائل میں افسانے شائع ہوچکے ہیں۔