بد قسمتی

بد قسمتی

میں اس اچھوت جات کے آدمی کو بہت اچھے سے جانتا تھا۔ وہ میری ہی کالونی میں اپنی جات چھپاکر رہتا تھا، جیسے عام طور پر دوسرے اچھوت رہتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اونچی جات کا کشتریہ راجپوت ٹھاکر کہتا تھا۔ چونکہ وہ دور ایک گاؤں کا رہنے والا تھا، سو لوگ اسے اونچی جات کا راجپوت ہی سمجھتے تھے۔ وہ اپنے گھر کے اوپر پہچان کے لیے ہمیشہ کیسریا مذہبی پرچم لگایا کرتا تھا۔ وہ ساون کے مہینے میں بول بم کا نعرہ لگاتے کئی کلومیٹر تک پیدل چلتا تھا۔ وہ تقریباً ہر مہینے اپنے گھر میں پوجا پاٹھ کراتا تھا۔ وہ براہمن مہاراج کے پیر دھوتا تھا۔ وہ دوسرے اچھوتوں سے چھوا مانتا تھا۔ وہ انہیں گندی گندی گالیاں دیا کرتا تھا۔ وہ ہر چھٹیوں میں پریوار سہت دھارمک جگہوں کے سفر پر نکل جاتا تھا۔ ان بھارت کے کئی سارے بڑے دھارمک جگہوں کے علاوہ چین کے قبضہ والے کیلاش مانسروور میں بھی جا چکا تھا۔ وہ بابری مسجد ڈھانے بھی گیا تھا۔ وہ وہاں سے ایک اینٹ بھی لیکر آیا تھا،جسے وہ اپنے پوجاگھر میں رکھتا تھا۔ وہ پاس پڑوس کے لوگوں کو اپنی دھارمک سفر کے قصہ ایسے سناتا مانو کوئی جنگ جیت کر آیا ہو۔ میں بھی اسے کئی ورشوں تک اونچی جات کا ہی سمجھتا رہا۔ مجھے اسکی جات کے بارے میں اسکے ہی گاؤں میں رہنے والے ایک دوست نے بتایا تھا۔ مجھے اب اس پر غصہ سا آنے لگا تھا۔ اس بار گرمیوں میں انہوں نے سومناتھ مندر جانے کا پلان بنا رکھا تھا۔ ہمیں یہ بات اسکے بچوں نے بڑے جوش خروش کے ساتھ سے بتائی تھی۔

ایک دن اخبار میں پنے پلٹتے ہوئے میری نظر ایک خبر پر پڑی، جس میں لکھا ہوا تھا کہ سومناتھ مندر میں پرساد چرانے کے نام پر ایک اچھوت کی لوگوں دوارہ پٹائی۔ ایسی خبریں تو آئے دن ہوتی ہی رہتی ہیں،سوچ کر میں اس خبر کو پڑھنے کے بعد بھول گیا تھا۔ کچھ مہینوں بعد وہ فیملی واپس آ گئی تھی، پر ساتھ میں اس گھر کا مکھیہ نہیں تھا۔ ایک دن اسکی بیوی ہمارے گھر آئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ہمارے پوچھنے پر اسنے بتایا کہ مندر کے باہر اچھوتوں کو گھسنا منع ہے، لکھا ہوا تھا، لیکن میرے ہسبینڈ خود کو اونچی جات کا ہی سمجھتے تھے۔ وہاں مندر میں ہمارے ایریا کا بھی ایک پنڈت بیٹھا تھا۔ اسنے میرے ہسبینڈ کو پہچان لیا اور ہماری جات کو گالی دیتے ہوئے مندر کے اپوتر(ناپاک) ہونے کی بات کہ کر بھیڑ اکٹھی کر لیا۔ اس بھیڑ نے میرے ہسبینڈ کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا اور اس پر پرساد چوری کا الزام لگا دیا۔

aalok-kumar-

آلوک کمار ساتپوتے

افسانہ نگار

چھتیس گڑھ صوبہ کے سرکاری رسالہ کے مدیرکے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ہندوستان کے تمام پروگیسیو اخبارات و رسائل میں افسانے شائع ہوچکے ہیں۔

افسانہ نگار | تحریریں

تعلیم : ماسٹرآف کامرس
پیشہ : سرکاری ملازم حکومت چھتیس گڑھ
منصب : چھتیس گڑھ صوبہ کے سرکاری رسالہ کے مدیرکے فرائض انجام دے رہیں ہے۔
٭ ہندوستان کے تمام پروگیسیو اخبارجیسے:دینک بھاسکر، راجستھان پتریکا، امراجالا، راشٹریہ سہارا، نوبھارت، ہری بھومی، دیش بندھو وغیرہ میں منی افسانوں کی اشاعت عمل میں آچکی ہے۔
٭ ہندوستان کی تقریباً سبھی پروگیسیو رسائل جیسے:ہنس، کتھادیش، واگرتھ، عام آدمی، کتھاکرم، ورتمان ساہتیہ،قدم بینی، پاکھی، پنرنوہ وغیرہ میں بھی منی افسانوں کی اشاعت عمل میں آچکی ہے۔
٭ ریڈیو رائے پور سے افسانے نشرہوچکے ہیں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

آسانیاں بانٹتے رہو

جمعہ ستمبر 23 , 2022
ہر ملک کی تعمیرو ترقی میں تین قسم کے گروہ اس ملک کی ترقی اور مضبوطی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی گروہ حکمت اور خدمت معاشرے میں پروان چڑھاتے ہیں
آسانیاں بانٹتے رہو

مزید دلچسپ تحریریں