سوچیں اور امیر ہو جائیں
ایک بار خلیل الرحمٰن قمر نے کہا تھا کہ، "یہ معاشرہ بڑا منافق ہے کہ غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔” واقعی غربت، ایک تلخ حقیقت اور کڑوا سچ یے جو پوری انسانیت کا المیہ ہے۔ لوگ آپ کے حالات سے ہاتھ ملاتے ہیں، آپ سے نہیں۔ زندگی میں ہر دکھ اور تکلیف برداشت کی جا سکتی ہے، مگر غربت ایسا بوجھ ہے جو انسان کی خودداری، عزتِ نفس، اور خوابوں کو بے دردی سے روند دیتا ہے۔
جب آپ کے پاس وسائل اور دولت نہ ہو تو دنیا کا رویہ بدل جاتا ہے۔ آپ کی بات کا وزن کم ہو جاتا ہے، اور لوگ آپ کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ میں کوئی بڑی کمی ہو۔ جوانی میں بے روزگاری ذلت و رسوائی کا دوسرا نام ہے، اور کبھی تو یوں لگتا ہے کہ فقر و افلاس موت سے بھی بدتر ہے کیونکہ غربت صرف جیب کو خالی نہیں کرتی بلکہ دل و دماغ پر بھی گہرے زخم لگاتی ہے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں آج دنیا میں غربت ایک “عیب” ہے جبکہ امارت ایک "خوبی” ہے کیونکہ غربت نقائص واضح کرتی ہے اور امارت انہیں چھپا دیتی یے۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ وسائل کے بغیر آپ کی محنت اور خلوص کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ کیا واقعی انسان کی قدر صرف اس کی دولت سے کی جاتی ہے؟ کیا عزت اور خودداری صرف پیسے کی محتاج ہے؟ یا یہ ہم ہیں جنہوں نے اپنی اقدار کو دولت کے پیمانے پر تولنا شروع کر دیا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں اور ہمیں مجبور کر دیتے ہیں کہ اس دنیا میں عزت کے ساتھ زندہ رہنے کے لیئے امیر ہونے کے بارے میں سوچا جائے۔
امریکی مصنف نپولین ہل نے غربت اور مفلسی سے نکلنے کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے، "سوچیں اور امیر ہو جائیں” (Think and Grow Rich) جس میں انہوں نے کامیابی حاصل کرنے کے راز گنوائے ہیں۔ اس کتاب میں خصوصی طور پر اس بھید سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا سوچنے سے واقعی دولت حاصل کی جا سکتی ہے؟ انہوں نے اس کتاب میں اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے کہ کیا کامیابی اور دولت قسمت کا نتیجہ ہوتی ہے، یا اس کے پیچھے کوئی خاص اصول کار فرما ہوتے ہیں؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کے لئے نپولین ہل نے اپنی یہ مشہور زمانہ کتاب لکھی۔
یہ کتاب نہ صرف کامیابی کے اصولوں کو واضح کرتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ کس طرح انسان اپنی سوچ کو طاقتور ہتھیار بنا کر خود کو بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی شہرت کا راز انسانی دماغ کے ان حصوں کو واہ کرنے سے ہے جن کا تعلق زیادہ دولت جمع کرنے سے ہوتا ہے۔ یوں یہ محض ایک کتاب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل فلسفہ بھی ہے جو انسان کی زندگی کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار سنہ 1937ء میں شائع ہوئی اور آج تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جس نے دولت کمانے کے لیئے لاکھوں افراد کو کامیابی کے راستے پر ڈالا ہے۔ اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ کامیابی کے اصولوں کو عملی زندگی کے تجربات سے جوڑتی ہے، اور قارئین کو بتاتی ہے کہ سوچنے اور امیر ہونے سے وہ کس طرح اپنی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
اس کتاب کی بنیاد یوں رکھی گئی کہ امریکہ کے نامور بزنس مین اینڈریو کارنیگی نے نپولین ہل کو ایک خاص مشن دیا اور کہا کہ وہ دنیا کے سب سے کامیاب کاروباری افراد کے انٹرویوز لیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ آپ حیران ہوں گے کہ نپولین ہل نے اس کتاب کو مکمل کرنے میں 25 سال لگائے اور انہوں نے تحقیق کی، ہزاروں کامیاب اور ناکام لوگوں کا تجزیہ کیا، 500 سے زائد ملٹی ملینئرز افراد سے ملاقاتیں کیں، جن میں مشہور سائنس دان، نوکری پیشہ اور بزنس مین شامل تھے۔ نپولین ہل جن مشہور شخصیات کو ملا ان میں تھامس ایڈیسن، ہنری فورڈ اور الیگزینڈر گراہم بیل جیسے عظیم نام شامل تھے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں نپولین ہل نے کچھ بنیادی اصول وضع کئے، جو ہر اس شخص کو کامیاب بنا سکتے ہیں جو انہیں سچے دل سے اپنائیں گے۔
اس کتاب میں کامیابی کے جن بنیادی اصولوں کو شامل کیا گیا ان میں نمبر1 پر مضبوط خواہش اور کسی عظیم مقصد کا شامل ہونا ہے. ہر کامیاب شخص کی زندگی میں ایک واضح مقصد ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی بڑا خواب نما مقصد نہیں، تو آپ کبھی بھی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں مقصد کے اندر بہت انرجی ہوتی ہے جو آپ کو عمل پر اکساتی ہے۔ آپ کی زندگی اور کام کا مقصد جتنا بڑا ہو گا آپ کو کامیابی بھی اتنی ہی بڑی ملے گی۔ آپ سوچیں کہ زندگی میں آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پھر اسی سمت میں کام کریں آپ یقینا کامیاب ہوں گے۔ نپولین ہل نے نمبر2 پر یقین اور خود اعتمادی کو رکھا جس کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کو اپنی کامیابی پر یقین ہونا چایئے۔ جو لوگ اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہیں، وہی لوگ آگے بڑھتے ہیں۔ خود اعتمادی کے بغیر کوئی بھی شخص اپنے خوابوں کو حقیقت میں نہیں بدل سکتا ہے۔ انہوں نے نمبر3 پر بار بار دہرائی گئی سوچ کو رکھا اور کہا کہ آپ جو کچھ بار بار اپنے دماغ میں دہراتے ہیں، وہی حقیقت میں بدلنے لگتا ہے۔ اگر آپ خود کو ذہنی طور پر قائل کر لیں کہ آپ کامیاب ہوں گے، تو آپ کے فیصلے، اقدامات اور عادات بھی ویسی ہی بننے لگیں گی۔ انہوں نے نمبر3 پر علم اور مہارت کو رکھا کہ اور دلائل پیش کیئے کہ محض عام علم کامیابی کے لئے کافی نہیں ہوتا، بلکہ کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ اپنی فیلڈ میں ایکسپرٹ بنتے ہیں، وہی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے نمبر4 پر تصور اور تخلیقی صلاحیت کو رکھا اور لکھا کہ کامیاب افراد وہی ہوتے ہیں جو اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا فن اور مہارت رکھتے ہیں۔ اگر آپ صرف سوچتے رہیں اور عمل نہ کریں، تو آپ کی سوچ بے فائدہ ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کو استعمال کریں اور نئے مواقع تلاش کریں۔ انہوں نے منصوبہ بندی اور عمل کو نمبر5 پر رکھا اور کہا کہ کامیابی اچانک حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اس کے پیچھے منظم منصوبہ ہوتا ہے، جو لوگ بغیر کسی حکمت عملی کے کام کرتے ہیں، وہ زیادہ تر ناکام رہتے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں مشکلات کو سامنا کرنے کی ہمت اور حوصلے کو نمبر6 پر رکھا اور کہا کہ ناکامی سے گھبرانے والے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔
نپولین ہل کہتے ہیں کہ، "ناکامی درحقیقت کامیابی کا پہلا قدم ہے۔” جو لوگ مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں، وہی آخرکار کامیابی کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ یہ دولت حاصل کرنے کے لئے سوچ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ اگر ہم اپنی سوچ کو درست کر لیں، تو دولت اور کامیابی کے مواقع خود بخود پیدا ہونے لگتے ہیں۔
یہ بات نہیں بھولنی چایئے کہ ہم جیسا سوچتے ہیں، ویسا ہی ہماری زندگی میں واقع ہونے لگتا ہے۔ اگر ہم کامیابی کے بارے میں مثبت انداز میں سوچیں اور اس کے مطابق عمل کریں، تو کامیابی ہماری قسمت میں لکھ دی جاتی ہے۔ نپولین ہل کے مطابق ہر وہ انسان امیر بن سکتا ہے جو مثبت انداز میں سوچ سکتا ہے۔ دولت اور کامیابی صرف قسمت یا اتفاق پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ یہ ان اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے جو اس کتاب میں بیان کیئے گئے ہیں۔ اگر آپ اس کتاب میں بیان کیئے گئے اصولوں کو اپنی زندگی میں اپنائیں، تو آپ بھی ایک کامیاب اور امیر شخص بن سکتے ہیں۔
زندگی کا یہ اصول بنا لیں کہ بڑا آدمی بننا یے ہمیشہ بڑا سوچیں آپ ایک دن بڑے آدمی بن کر رہیں گے، سوچیں، یقین رکھیں، منصوبہ بندی کریں، عمل کریں، کامیابی آپ کے قدم چومنے پر مجبور ہو جائے گی۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |