بیروت: مشرقِ وسطیٰ میں اشاعتی مرکز کی تاریخ اور ارتقاء
بیروت میں چھپنے والی کتابوں کی تاریخ دراصل اس شہر کی علمی و ادبی “نہضتِ عربی” (Nahḍat al-ʿArabia ) کے ساتھ ہمقدم ہے۔ یہاں ایک جامع دورانیہ وار خاکہ پیش ہے:
قبل از مشینی طباعت (–1820ء)
طباعت کے مشینی طریقوں کے آغاز سے قبل کتابت اور نسخہ نویسی ایک نہایت محنت طلب فن تھا، جسے مخصوص تربیت یافتہ کاتب اور مخطوط نویس انجام دیتے تھے۔ اسلامی دنیا میں خلافتِ عثمانیہ کے دور تک نسخہ نویسی جاری رہی، جب تک کہ طباعت مکمل طور پر ہاتھ سے کی جاتی تھی۔ کاتب حضرات اپنے فن میں مہارت رکھتے تھے، اور ان کے ہاتھوں سے لکھی گئی کتابیں فنِ خوشنویسی کا اعلیٰ نمونہ سمجھی جاتی تھیں۔
بیروت بطور فنّی مرکز
بیروت اس دور میں ایک چھوٹے مگر اہم فنّی مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہاں زیادہ تر خانقاہوں اور خانۂ صفوی کے زیرِ اہتمام کتابت اور نسخہ نویسی کا کام ہوتا تھا۔ مختلف دینی و علمی کتب کو نہایت باریک بینی سے تحریر کیا جاتا تھا، اور ان کی تزئین و آرائش بھی اعلیٰ معیار کی ہوتی تھی۔ ان مخطوطات کو اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجا جاتا، جہاں انہیں علمی و دینی حلقوں میں خاص قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
یہ دور علم و ادب کی ترویج کا ایک منفرد دور تھا، جہاں ہر کتاب ایک قیمتی دستاویز ہوا کرتی تھی، اور کتابت کو محض متن تحریر کرنے کا عمل نہیں، بلکہ ایک فن اور روحانی مشق سمجھا جاتا تھا۔
مشنری طباعت کا آغاز (1833–1850ء)
1833 میں مشنری طباعت کا آغاز ہوا۔ یہ دور نہ صرف طباعتی تاریخ میں اہم تھا، بلکہ مشنری اداروں کے ذریعے علمی و مذہبی مواد کی ترویج میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔
امریکن مشن پریس (1833ء)
1833ء میں امریکی پروٹیسٹنٹ مشن نے بیروت میں "امریکن مشن پریس” کے نام سے ایک چھوٹا مطبعہ قائم کیا۔ یہ پہلا مشینی طباعتی ادارہ تھا، جس کا مقصد بنیادی طور پر مذہبی، مدرسہ جاتی اور تعلیمی کتب کو چھاپنا تھا۔
اس پریس نے عربی اور دیگر زبانوں میں مذہبی کتابوں کی اشاعت کی، تاکہ مشنری مقاصد کو فروغ دیا جا سکے۔
ابتدا میں مشینی طباعت محدود تھی، اور زیادہ تر چھپائی کا کام سادہ، کم صفحات والی کتابوں تک محدود رہا۔
امریکن مشن پریس کا اثر بعد میں دیگر مشنری اداروں پر بھی پڑا، جس سے مزید طباعتی مراکز قائم کیے گئے۔
جیسوئیٹ مشن پریس (1848ء)
1848ء میں عیسائی جیسوئیٹ مشن نے اپنا طباعتی ادارہ قائم کیا، جو امریکن مشن پریس کے بعد بیروت میں دوسرا بڑا مشنری پریس تھا۔
اس پریس نے خاص طور پر عربی اور فرانسیسی زبان میں نصابی کتب اور علم الکلام پر مبنی مواد شائع کیا۔
جیسوئیٹ مشن کا مقصد تعلیمی اور مذہبی نصاب کی اشاعت کرنا تھا، تاکہ تعلیمی اداروں اور مذہبی حلقوں کو معیاری مواد فراہم کیا جا سکے۔
اس پریس نے زیادہ تفصیلی اور ضخیم کتابوں کی اشاعت شروع کی، جس سے عربی ادب اور دینی علوم کے ذخیرے میں اضافہ ہوا۔
اثر و اہمیت
ان دونوں طباعتی اداروں کے قیام سے بیروت میں اشاعتی صنعت کی بنیاد رکھی گئی، اور علم و ادب کی ترویج میں نئی راہیں کھلیں۔ مشنری پریس نے تعلیم، مذہب اور فکری مکالمے کو ایک نئی شکل دی، جس کے اثرات مستقبل میں عرب دنیا کی طباعتی صنعت پر گہرے پڑے۔
عربی نہضت کا دور (1850–1900ء)
1850ء سے 1900ء تک کا دور عربی تہذیب و ثقافت کے احیاء کا زمانہ تھا، جسے "عربی نہضت” کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دور میں علمی، ادبی اور طباعتی میدانوں میں زبردست ترقی ہوئی، اور بیروت ایک اشاعتی اور فکری مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔
مطابع کا فروغ (1855ء کے بعد)
1855ء کے بعد بیروت میں سرکاری اجازت کے ساتھ کئی نجی مطابع قائم ہوئیں، جن میں مطبعة العربية اور مطبعة الحمراء خاص اہمیت کی حامل تھیں۔
یہ مطابع عربی زبان و ادب کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کر رہی تھیں۔
اس زمانے میں مخطوطات کی بجائے طباعتی کتابیں زیادہ عام ہونے لگیں، جو زیادہ آسانی سے دستیاب تھیں اور وسیع پیمانے پر پہنچتی تھیں۔
مختلف سیاسی، ادبی، اور سائنسی موضوعات پر کتابیں چھپنے لگیں، جن سے علمی و فکری ترقی کو فروغ ملا۔
قاسم سلام اور "دار العلم”
ادیب و شاعر قاسم سلام (Qāsim Salām) نے اپنی مشہور اشاعتی ادارہ "دار العلم” قائم کیا، جو عربی طباعت میں نئے رجحانات کا علمبردار تھا۔
قاسم سلام نے جدید طرزِ ٹائپوگرافی متعارف کروائی، جو عربی رسم الخط میں ایک نیا انداز تھا۔
سرِفہرست نسخہ جات میں عنوانات کے لیے فنّی نقش و نگار شامل کیے گئے، جس نے کتابوں کی خوبصورتی اور readability کو بہتر بنایا۔
دار العلم نے عربی ادب، تاریخ، اور فلسفے پر کئی اہم کتابیں شائع کیں، جو اس دور کے علمی منظرنامے پر گہرا اثر ڈالتی رہیں۔
المطبعة المشرقیۃ اور مطبعة النهضة
اسی دور میں المطبعة المشرقیۃ (Dar al-Mashreq) اور مطبعة النهضة (Nahḍa Press) قائم ہوئیں، جو عربی علمی و ثقافتی ترقی میں نہایت مؤثر ثابت ہوئیں۔
کلاسیکی موضوعات کے ساتھ ساتھ فلسفہ، سائنسی علوم اور سماجی اصلاحات پر بھی توجہ دی گئی۔
ان مطابع نے ایسے مصنفین کی کتابیں شائع کیں، جنہوں نے جدید عربی فکر کو فروغ دیا اور ترقی پسند نظریات کی ترویج کی۔
ان مطابع کی اشاعت کردہ کتابیں نہ صرف عرب دنیا میں، بلکہ یورپ اور عثمانی سلطنت میں بھی پڑھی جانے لگیں۔
نتائج اور اثرات
یہ دور عربی زبان، ادب، اور علم کے احیاء کا زمانہ تھا، جس میں نہ صرف قدیم مخطوطات جدید طباعتی شکل میں سامنے آئے، بلکہ عربی فکر میں جدید رجحانات نے جنم لیا۔
عربی زبان کو تحقیقی اور سائنسی ترقی کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
فکری آزادی، علمی تنوع، اور عرب دنیا میں ثقافتی بیداری پیدا ہوئی۔
بیروت مشرق وسطیٰ میں طباعتی و علمی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا، جو آنے والی صدیوں میں بھی اپنی اہمیت برقرار رکھتا رہا۔
خلافت عثمانیہ سے فرانس کے تحت (1900–1943ء)
بیروت 1900ء سے 1943ء تک ایک عظیم اشاعتی و ثقافتی مرکز کے طور پر ابھرا، جہاں نصابی، ادبی اور صحافتی مواد کی اشاعت میں زبردست اضافہ ہوا۔ ابتدا میں یہ شہر خلافت عثمانیہ کے تحت تھا، لیکن پہلی عالمی جنگ کے بعد جب فرانس نے مینڈیٹ سنبھالا، تو اشاعتی صنعت میں نئے رجحانات دیکھنے کو ملے۔
بیروت: "کتابی کارخانہ” (1900–1920ء)
خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں، بیروت نے تعلیمی اور ادبی اشاعت میں مرکزی حیثیت حاصل کر لی تھی۔
حکومتی اجازت کے بعد، بیروت میں کئی بڑے مطابع کھلے، جنہوں نے نصابی کتب، ادبی مجلات، اور روزنامہ اخبارات شائع کرنا شروع کیے۔
مشہور ادبی مجلات جیسے "المصور” اور "الآداب” نے عربی ادب، تنقید، اور جدید خیالات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
اخبار و رسائل کی اشاعت میں تیزی آئی، اور سیاسی و سماجی موضوعات پر کھل کر تبادلہ خیال ہونے لگا۔
فرانسیسی مینڈیٹ اور اشاعتی صنعت (1920–1943ء)
پہلی عالمی جنگ کے بعد، فرانس نے مینڈیٹ کے تحت بیروت کا انتظام سنبھال لیا، جس نے اشاعتی میدان میں نئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
جرمن مواد پر پابندی عائد کی گئی، جس سے عثمانی دور کی بہت سی مطبوعات متاثر ہوئیں۔
فرانسیسی زبان میں اشاعتی سرگرمیوں کو فروغ دیا گیا، اور فرانسیسی نثر و شاعری کی کتابیں عربی قارئین کے لیے ترجمہ ہونے لگیں۔
عربی زبان میں بھی طباعت کا سلسلہ جاری رہا، اور جدید عربی فکر، تاریخ اور فلسفے پر کئی نئی کتب شائع ہوئیں۔
اثرات اور مستقبل کی راہیں
یہ دور بیروت کی ثقافتی و علمی ترقی میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
فرانسیسی مینڈیٹ کے باوجود عربی طباعت کا عمل مسلسل جاری رہا، اور عربی صحافت و ادب نے نئے فکری زاویے اختیار کیے۔
علمی و تحقیقی مطبوعات نے مشرق وسطیٰ میں فکری آزادی کے رجحان کو بڑھایا، جس کے اثرات مستقبل کی تحریکوں پر مرتب ہوئے۔
1943ء میں فرانس کے مینڈیٹ کے خاتمے کے بعد، بیروت عربی طباعت کا سب سے بڑا مرکز بن گیا، جہاں علمی، ادبی اور سیاسی کتب کی اشاعت میں زبردست وسعت آئی۔
یہ ایک اہم تاریخی دور تھا، جس میں بیروت اشاعتی میدان میں جدید ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔
خودمختاری اور شعبۂ مطبوعات کی ترقی (1943–1975ء)
1943ء میں لبنان کی آزادی کے بعد بیروت نہ صرف سیاسی و ثقافتی خودمختاری حاصل کر چکا تھا، بلکہ وہ مشرق وسطیٰ کے سب سے اہم اشاعتی مراکز میں بھی شمار ہونے لگا۔ اس دور میں علمی، ادبی، اور سائنسی مواد کی اشاعت میں بے پناہ وسعت آئی، جس سے فکری و علمی ترقی کی نئی راہیں کھلیں۔
بیروت بطور اشاعتی مرکز
لبنان کے خودمختار ہونے کے بعد، بیروت نے اشاعتی میدان میں مکمل آزادی حاصل کر لی اور کئی نامور مطابع نے اس صنعت کو فروغ دیا۔
دار المنظومة، دار النهار، دار الحداثة، اور دار الآداب جیسے ادارے ادبی داستانوں، تنقیدی مضامین، اور انگریزی سے عربی ترجمے شائع کرنے میں پیش پیش رہے۔
ان اداروں کی اشاعت کردہ کتابوں نے عربی ادب کو ایک جدید شکل دی، اور مشرقی و مغربی فکری مکالمے کی راہیں ہموار کیں۔
انگریزی، فرانسیسی اور دیگر زبانوں کے عالمی کلاسیک ادب کو عربی قارئین کے لیے دستیاب بنایا گیا، جس سے مطالعے اور تحقیق کے شعبے میں وسعت آئی۔
1960–70 کی دہائی: نئے شعبوں میں سرمایہ کاری
1960ء اور 1970ء کی دہائی میں بیروت کی اشاعتی صنعت نے نئے موضوعات اور شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کی، جن میں خصوصاً بچوں کا ادب، نفسیات، اور سائنسی مطبوعات شامل تھیں۔
بچوں کے ادب کو مخصوص رنگ و آہنگ دیا گیا، اور تعلیمی و تفریحی مواد کی اشاعت میں جدت لائی گئی۔
نفسیات اور فلسفہ کے موضوع پر کئی تحقیقی کتابیں شائع کی گئیں، جنہوں نے عربی قارئین میں انسانی نفسیات اور معاشرتی شعور کی نئی جہات متعارف کروائیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی پر تحقیقاتی کام شائع کیا جانے لگا، جس نے عرب دنیا میں علمی ترقی کے امکانات کو مزید وسعت دی۔
نتائج اور اثرات
یہ دور اشاعتی صنعت کی بلندی کا زمانہ تھا، جہاں بیروت نہ صرف عربی ادب کا مرکز بن چکا تھا، بلکہ سائنسی اور تحقیقی علوم میں بھی نئے رجحانات سامنے آ رہے تھے۔
عربی زبان کو مزید جدید اور تحقیقی میدان میں زیادہ موثر بنایا گیا۔
اشاعتی اداروں نے بین الاقوامی سطح پر اثر ڈالنا شروع کیا، اور ان کی کتابیں دیگر زبانوں میں ترجمہ کی جانے لگیں۔
لبنان میں فکری آزادی، تعلیمی ترقی، اور سماجی اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے کتابوں نے اہم کردار ادا کیا۔
یہ ایک زریں دور تھا، جس نے عربی مطبوعات کو نئی بلندیاں عطا کیں۔
خانہ جنگی اور زوالِ اشاعت (1975–1990ء)
1975ء میں لبنان کی خانہ جنگی شروع ہونے کے ساتھ ہی اشاعتی صنعت کو شدید نقصان پہنچا۔ وہ بیروت، جو کئی دہائیوں تک عربی اشاعت کا سب سے متحرک مرکز رہا تھا، اب عدم استحکام اور تنازعات کی لپیٹ میں آ گیا۔ جنگ کے اثرات نہ صرف ادبی اور صحافتی اداروں پر پڑے، بلکہ تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی سخت متاثر ہوئیں۔
اشاعتی صنعت پر تباہ کن اثرات
بیروت کے کئی بڑے مطابع تباہ ہو گئے، یا ان کے مالکان کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔
مشہور اشاعتی ادارے، جیسے دار النهار، دار الحداثة، اور دار الآداب، جنہوں نے عربی ادب کو نئی جہات دی تھیں، جنگ کی وجہ سے مالی بحران اور عملی مشکلات کا شکار ہوئے۔
نئی کتابوں کی اشاعت کم ہو گئی، اور کئی سالوں تک اہم فکری و تحقیقی کام شائع نہیں ہو سکے۔
جنگ کی غیر یقینی صورتِ حال کے باعث مصنفین اور دانشور دیگر ممالک منتقل ہونے لگے، جس سے بیروت کی علمی و ادبی زندگی ماند پڑ گئی۔
لائبریریاں، کتاب میلے، اور ثقافتی سرگرمیاں ختم ہو گئیں
کتب خانوں کو نقصان پہنچا، اور کئی نایاب مخطوطات اور تاریخی دستاویزات کھو گئیں۔
سالانہ کتاب میلے، جو بیروت کی علمی زندگی کی علامت تھے، تقریباً ختم ہو گئے، جس سے قاری اور ناشر کے درمیان رابطہ کمزور ہو گیا۔
علمی و ادبی مجالس کا انعقاد ممکن نہ رہا، اور فکر و تحقیق کے تبادلے کا عمل رک گیا۔
بحالی کی کوششیں اور اشاعتی صنعت کا مستقبل
اگرچہ 1990ء کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوا، مگر اشاعتی صنعت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کئی سال لگے۔
- بعض ناشرین نے دوبارہ اشاعتی کام شروع کرنے کی کوششیں کیں، لیکن بازار میں اقتصادی بحران اور قارئین کی کم تعداد کے باعث بحالی کا عمل سست رفتار تھا۔
- بین الاقوامی اداروں نے مدد فراہم کی تاکہ لبنان کی اشاعتی صنعت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔
- 2000ء کے بعد بیروت نے دوبارہ اشاعتی سرگرمیوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی، لیکن جنگ کے اثرات طویل مدتی ثابت ہوئے۔
یہ دور عربی ادب اور اشاعتی دنیا کے لیے سب سے زیادہ چیلنجنگ تھا۔
بحالی اور ڈیجیٹل انقلاب (1990ء تا حال)
بیروت نے 1990ء کے بعد خانہ جنگی سے باہر نکلتے ہی تعلیمی و ثقافتی ترقی کی راہ پر قدم رکھا۔ اشاعتی صنعت، جو تقریباً تباہ ہو چکی تھی، دوبارہ بحال ہونے لگی اور لبنان کی علمی شناخت تجدید کے عمل سے گزری۔
اشاعتی صنعت کی بحالی (1995ء کے بعد)
1995ء کے بعد کئی چھوٹے و بڑے ناشرین نے دوبارہ مطابع قائم کیں، جنہوں نے عربی ادب اور تحقیق کی اشاعت میں نئی روح پھونکی۔
دار المنظومة، دار الحداثة، دار الآداب، اور دار النهار جیسے ادارے دوبارہ فعال ہوئے، اور کئی اہم ادبی، تحقیقی اور فلسفیانہ کتابیں منظر عام پر آئیں۔
ترجمہ شدہ کتب کی اشاعت میں اضافہ ہوا، جس سے انگریزی، فرانسیسی اور اردو ادب کو عربی قارئین کے لیے مزید قابلِ رسائی بنایا گیا۔
تعلیمی اور ریسرچ جرائد دوبارہ چھپنے لگے، جنہوں نے مشرق وسطیٰ میں علمی مکالمے کو فروغ دیا۔
ڈیجیٹل انقلاب اور بیروتی اشاعتی صنعت
2000ء کے بعد انٹرنیٹ اور ای-بک ٹیکنالوجی نے اشاعتی صنعت میں ایک عظیم تبدیلی پیدا کی۔
المكتبة الشاملة جیسے ڈیجیٹل لائبریری پلیٹ فارمز نے بیروتی اشاعتی اداروں کی مطبوعات کو دنیا بھر میں قابلِ رسائی بنا دیا۔
عربی زبان میں ای-بک فارمیٹ کے تحت کتب کی اشاعت شروع ہوئی، جس سے قارئین کو آسانی ہوئی اور اشاعتی اداروں نے روایتی طباعت کے ساتھ ڈیجیٹل مارکیٹ میں بھی قدم رکھا۔
آن لائن تعلیمی مواد کی اشاعت میں اضافہ ہوا، جس نے عالمی عربی قارئین کے لیے سستی اور فوری دسترس ممکن بنائی۔
ادبی میلے اور بیروت کا جدید اشاعتی منظرنامہ
ہر سال مئی کے مہینے میں بیروت میں ادبی میلہ منعقد ہوتا ہے، جو مشرق وسطیٰ میں عربی ادب کا سب سے بڑا جشن سمجھا جاتا ہے۔
500 سے زائد نئے عنوانات اس میلے میں پیش کیے جاتے ہیں، جن میں عربی، فرانسیسی، انگریزی اور اردو تراجم بھی شامل ہوتے ہیں۔
عالمی اور مقامی مصنفین کی شمولیت سے یہ ادبی میلہ بین الاقوامی شناخت اختیار کر چکا ہے۔
بیروت اب بھی علمی و اشاعتی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز ہے، جہاں تحقیق، ادب اور جدید نظریات کو جگہ دی جا رہی ہے۔
نتائج اور اثرات
یہ دور بیروت کی اشاعتی صنعت کے لیے نئی زندگی کی علامت ہے۔
ڈیجیٹل اور روایتی طباعت کا امتزاج علم و ادب کی ترویج میں مددگار ثابت ہوا۔
عربی زبان میں بین الاقوامی تراجم کی فراہمی نے قارئین کو علمی وسعت عطا کی۔
اشاعتی ادارے جدید مارکیٹنگ اور ڈیجیٹل اشاعت کے طریقوں کو اپنانے لگے، جس سے ان کی عالمی رسائی مزید وسیع ہوئی۔
بیروت نے نہ صرف اپنی اشاعتی صنعت کو بحال کیا بلکہ اسے ڈیجیٹل دنیا میں کامیابی کے ساتھ شامل بھی کیا
بیروت سے چھپی کتابوں کی کچھ خاص باتیں
1. اعلیٰ ترین طباعت اور مواد
– استعمال کیا جانے والا کاغذ اکثر ایسڈ فری یا کم تیزابیت والا ہوتا ہے، جو صفحات کو زرد ہونے اور ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھتا ہے۔
– گہرے سیاہ اور یکساں رنگ کے مرکبِ طباعت (انک) سے تحریر واضح اور پڑھنے میں آسان رہتی ہے۔
2. واضح اور نفیس حروفِ تہجی
– مکتبِ چاپ کے ماہرینِ رسم الخط (typesetters) نَسخ، ثلث یا دیگر روایتی رسمیں انتہائی نفاست سے لگاتے ہیں، اِس لیے پڑھتے وقت قدم قدم پر حروف یکساں اور متوازن محسوس ہوتے ہیں۔
– سرِ صفحات اور مارجن ہیڈرز میں فصیح اور منظم اندازِ قلم کاری ہوتا ہے۔
3. متن کی دقیق تصحیح و تدوین
– کئی بیروتی ناشرین (جیسے “دارُ الکتبِ العلمیّة” یا “دارُالمعرفۃ”) متعدد مخطوطات اور پہلے کے طبعات کا تقابلی جائزہ لے کر یکجا متن شائع کرتے ہیں۔
– اختلافِ قراءات یا مسودات کا حوالہ صفحات نیچے د ے دیا جاتا ہے (footnotes)، جس سے قاری کو متن کے اسلوب اور سندِ روایت کا علم ہوتا ہے۔
4. جدید طباعتی ٹیکنالوجی
– لیزر ٹائپ سیٹنگ اور جدید پریس مشینوں کی مدد سے صفحات کی سیدھ اور مارجنز ہر ورق پر یکساں رہتے ہیں۔
– کمپیوٹرائزڈ لیآؤٹ کے نتیجے میں کتاب کے بابوں، فہرستِ مضامین، اشاریہ (index) وغیرہ بھی منظم انداز میں شائع ہوتے ہیں۔
5. علمی و فنّی معیار کی عالمی شہرت
– عرب دنیا کے علمی مراکز میں بیروت کی اشاعت کو معیار سمجھا جاتا ہے، لہٰذا پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک میں بھی بیروتی ایڈیشن کو فوقیت دی جاتی ہے۔
– شائقِین علم اور محققین بیروت پرنٹ کو کم غلطیوں اور عمدہ طرز طباعت کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |