تدوینِ دیوانِ غالب کی ایک ما بہ الامتیاز کوشش !

تدوینِ دیوانِ غالب کی ایک ما بہ الامتیاز کوشش !

ڈاکٹر عزیزاحسن

جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو اپنے اردو کے استاد محمد احمد نقوی صاحب سے ایک شعر سنا
طاعت میں تارہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو(نسخہء طاہر، ص۷۷)
پھر جب استاد نے اس شعر کی معنوی جہت سے پردہ سرکایا تو خالص اللہ کے لیے عبادت کرنے کا ادراک ہوا۔ اس شعر نے میرے ذہن و دل کو جکڑ لیا ۔ میں ایک مدت تک یہی شعر دہراتا رہا۔ بعد ازاں غالب کے دیگر اشعار بھی پڑھے جو میرے سر سے گزرگئے۔ کالج میں کامرس کی بارھویں جماعت تک اردو پڑھائی گئی تو نصاب میں غالب کی غزلیں بھی تھیں۔وہاں پروفیسر وسیم فاضلی اور پروفیسر انورخلیل نے اردو پڑھائی۔ ایک شعر کی تشریح کرتے ہوئے انور خلیل صاحب نے غالب کے کلام کا محاکاتی عنصر ظاہر کرنے کے لیے بڑی خوبصورت تشریح کی:
میں نے کہا کہ بزمِ ناز غیر سے چاہیے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں؟
شاعر نے اپنے محبوب سے کہا کہ ہماری بزم میں غیر کو نہیں ہونا چاہیے۔ محبوب نے یہ سن کے شاعرہی کو کان سے پکڑ کے اٹھادیا۔۔۔اور شوخی سے کہا ’’یوں‘‘؟؟؟
پروفیسر وسیم فاضلی نے بتایا کہ غالب کے اشعار میں لہجے کے بدلنے سے اشعار کے معانی بدل جاتے ہیں:
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
یہ شعر صرف لہجے کے فرق سے دشت کی ویرانی کو لائق زکر یا گھر کے مقابلے میں ہیچ بناتا دیتا ہے۔ انھوں نے چہرے کے تاثرات اور شعر کی قرا ءت سے شعر میں ویرانی کو گھر کی ویرانی کے مقابلے میں بہت زیادہ اور پھر گھر کے مقابلے میں بہت معمولی ظاہر کیا۔
۱۹۶۹ءمیں غالب کی صد سالہ برسی منائی گئی تو ملک کے تقریبا ً تمام ہی ادبی رسائل نے غالب نمبر شائع کیے۔ میں نے غالب شناسی کے شوق میں تقریباً سارے ہی غالب نمبر جمع کرلیے۔ آرٹس کونسل پاکستان، کراچی میں دو تین روزہ کانفرنس بھی ہوئی۔ میں نے وہاں بھی مقررین کو سنا۔
کچھ دن بعد انگلینڈ سے پروفیسر رالف رسل تشریف لائے تو ان کا لیکچر بھی آرٹس کونسل ہی میں سُنا۔ انھوں نے بتایا کہ غالب کے دیوان کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔’’ لیکن اشعار کی قراءت میں ،کتابت کی اغلاط کے باعث مترجم نے بڑی ٹھوکریں کھائیں۔ مثلاً


’’ہم موحدہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
اس شعر میں کاتب کی مہربانی سے لفظ موَحِّد ’’موجد‘‘ بن گیا تھا۔لہٰذا مترجم نے بھی اسی طرح ترجمہ کرڈالا یعنی انھوں نے بلا تکلف Inventor لکھ دیا۔ حالاں کہ لفظ موجد کی وجہ سے شعر کا وزن بھی بگڑ گیا تھا‘‘۔
مجھے حیرت اور مسرت ہوئی کہ ایک انگریز اردو شاعری کے نظامِ عروض سے بھی اس حد تک واقف ہے!!!
اسی زمانے میں مجھے ماہنامہ ’’کتاب‘‘ کا شمارہ ملا جس میں غالب کا دیوان شائع کیا گیا تھا۔اس دیوان میں ’’نسخہء طاہر‘‘ کا مکمل متن تھا۔
غالب شناسی کے شوق نے مجھے بہت سی شرحیں بھی پڑھنے کی طرف مائل کیا۔ غلام رسول مہر کی شرحِ کلامِ غالب ’’نوائے سروش‘‘ بھی میرے ذاتی کتب خانے کی زینت بن گئی۔
میں نے یہ کہانی اس لیے سنائی ہے کہ کافی عرصے سے میں تقدیسی ادب کے طالب علمانہ مطالعے میں مصروف ہونے کے باعث
عام ادب General Literature) ( سے کٹ سا گیا ہوں۔آج میں نے مکرمی ڈاکٹر اشفاق انجم کے اصرار پر ان کے مرتب کردہ دیوانِ غالب پر کچھ لکھنے کا ڈول ڈالا ہے۔ اس لیے میری تحریر محض خانہ پُری ہی سمجھی جائے!
غالب کا کلام ’’دیوان‘‘ کے نام سے متعدد بار مختلف مرتبین کی کاوشوں سے منصہء شہود پر آیا۔ لیکن سچی بات ہے کہ اس میں نہ تو اردو کے تمام حروفِ تہجی کا اہتمام تھا اور نہ ہی ردیف وار ترتیب تھی۔ ظاہر ہے ان دواوین میں قطعات ، رباعیات، مثنویات اور قصائد بھی تھے۔ اس لوازمے کی موجودگی کی وجہ سے وہ کتابیں دواوین کے ذیل میں نہیں آتیں ، انھیں کلیات کا نام دینا چاہیے تھا۔
ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب نے ،غالب کے دیوان کو اردو کے حروفِ تہجی کے لحاظ سے ترتیب دیا ہے اور جو حروف خود غالب نے یا دواوین کے مرتبین نے نظر انداز کردیے تھے انھیں بھی کسی نہ کسی طرح مکمل کردیا ہے۔ انھوں نے اپنی اس کاوش کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:
’’دیوان‘‘ اس شعری مجموعے کو کہتے ہیں جس میں حروفِ تہجی کے اعتبار سے ردیف وار غزلیں شامل ہوں یعنی ’’الف‘‘ سے ’’یای‘‘ تک!! اس میں بعض شعرأ نے صرف عربی حروفِ تہجی کو پیش نظر رکھا تو بعض نے فارسی کو اور بعض نے کچھ ہندی حروف بھی شامل کر لئے، اِس اعتبار سے دیکھیں تو اکثر متداول دواوینِ غالبؔ میں،
’’ پ ، ث ، ح ، خ ، ذ ، ص ، ض ، ط ، ظ ، غ ، ق ‘‘
حروف کی ردیفوں میں غزلیں نہیں ملتیں جب کہ بعض نسخوں میں ’’ث، ح، غ‘‘ کی غزلیں موجود ہیں ساتھ ہی ’’ط‘‘ کا صرف ایک شعر دستیاب ہے لیکن نہ جانے کیوں اُسے مرتبین نے نظر انداز کر دیا۔ ڈاکٹر اشفاق انجم نے لکھا:
[دیوان کو حروف تہجی کے لحاظ سے ]مکمل کرنے کی غرض سے۔۔۔۔’’خ ۔ ذ ۔ ص ۔ ض ۔ ظ ۔ ق ‘‘
ردیفوں میں مرزا کی فارسی غزلوں سے اشعار مستعار لے کر ’’دیوان‘‘ مکمل کر دیا ہے، مستعار یوں کہ اگر کبھی اُردو غزلیں دستیاب ہو گئیں تو اُنھیں واپس کر دیا جائے گا!!‘‘
اس طرح موصوف نے دیوان کی معنوی شرط پوری کردی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے دوسرے مطبوعہ دواوین کا بہ نظرِ غائر مطالہ کرکے ان میں در آنے والی کتابت کی یا متنی اغلاط کی نشاندہی بی کردی ہے اورجو لفظ ان کی دانست میں ضروری تھا اس کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے۔
میں نے صرف ایک غزل کے متن کی موجود گی جاننے کےلیے کچھ نسخے دیکھے۔ غزل ہے:
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
یہ غزل نسخہء طاہر میں صفحہ ۶۱ پر ،غلام رسول مہر کی شرح، نوائے سروش کے ضمیمہء اوَّل میں صفحہ ۸۸۶ پر ہے اور دیوانِ غالب کامل مرتبہ کالی داس گپتا رضا کے صفحہ ۴۱۷ پر ہے۔
ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب نے مذکورہ تینوں نسخوں میں شامل مشترک، درجِ ذیل تین اشعارحذف کردیئے:
ہوں درد مند جبر ہو یا اختیار ہو
گہہ نالہء کشیدہ کہہ اشکِ چکیدہ ہوں
جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
از بسکہ تلخیِ غمِ ہجراں چشیدہ ہوں
ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہے مجھکو لاگ
نے دانۂ فتادہ ہوں نے دامِ چیدہ ہوں
یہ اشعار حذف کرکے کالی داس گپتا رضا کے نسخے سے تین اشعار(خورشید دیدہ ہوں، نا آفریدہ ہوں اور بختِ رمیدہ ہوں) ایزاد فرمالیے اوراسی نسخے کے صفحہ ۱۸۵ پر اسی قافئیے اور ردیف کی دوغزلوں کے بقیہ اشعار نظر انداز کردیئے۔ان غزلوں کے مطلعے درجِ ذیل ہیں:


خوں در جگر نہفتہ ، بہ زردی رمیدہ ہوں
خود آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ ہوں
اور
سودائے عشق سے دمِ سردِ کشیدہ ہوں
شامِ خیالِ زلف سے صبحِ دمیدہ ہوں
اس میں کیا مصلحت ہے اس کو خود ڈاکٹر صاحب ہی جان سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب نے جن نسخہ ہائے دواوین سے استفادہ کیا ان کی تفصیل انھوں نے اس طرح درج کی ہے:
’’اِس کام کے لئے درج ذیل نسخوں اور شروحات کا انتخاب کیا جنھیں ماہرینِ غالبیات معتبر و مستند جانتے ہیں،
۱ – دیوانِ غالبؔ (صدی ایڈیشن) شیام کشن نگم (ممبئی) ۱۹۶۹ء
۲ – نسخۂ حمیدیہ، مؤلفہ مفتی محمد انوارالحق، مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، بھوپال ۱۹۸۲ء
۳ – دیوانِ غالبؔ (کامل) کالی داس گپتا رضاؔ، ساکار پبلشرز پرائیویٹ لمیٹیڈ
(ممبئی) ۱۹۸۸ء
گپتا صاحب کا یہ دیوان، نسخۂ حمیدیہ، نسخۂ بھوپال، نسخۂ رام پور، نسخۂ بدایونی، نسخۂ لاہور، نسخۂ شیرانی، نسخۂ دیسنہ، نسخۂ کریم الدین (کراچی)، عمدۂ منتخبہ، عیارالشعرأ، گلِ رعنا، نسخۂ عرشی اور نسخۂ مالک رام کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔
۴ – دیوانِ غالبؔ(اردو+ ہندی) مرتبہ علی سردار جعفری، اردو اکیڈمی، دہلی ۲۰۰۱ء
۵ – دیوانِ غالبؔ، غالبؔ انسٹی ٹیوٹ (دہلی) سیّد مظفر حسین برنی۔ ۲۰۰۳ء
۶ – دیوانِ غالبؔ۔ ثنا پبلی کیشنز، کراچی (پاکستان) ۲۰۰۹ء
۷ – دیوانِ غالبؔ مع شرح۔ مولانا غلام رسول مہر، فرید بکڈپو، دہلی۔ ۲۰۱۱ء
۸ – بیانِ غالبؔ، شرح دیوانِ غالبؔ، آغا محمد باقر، کتابی دنیا، دہلی
(مقدمے میں انھیں، نگم، حمیدیہ، گپتا، سردار، برنی، ثنا، مہر اور باقر سے ظاہر کیا گیا ہے۔)
ان نسخوں کے تقابلی موازنے سے مجھ پر ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ طبیعت باغ باغ ہو گئی۔
اوّل، تو یہ کہ بیشتر مرتبین و مؤلفینِ دیوانِ غالبؔ نے مکھی پر مکھی مارنے کا کام کیا ہے یعنی ایک مطبوعہ دیوان سامنے رکھ لیا اور اسے بعینہٖ نقل کر دیا۔
دوّم، یہ کہ بعض نے ماقبل نسخے میں ’’اپنی دانست‘‘ میں کوئی خامی دیکھی تو اس کی ’’اصلاح‘‘ کر دی جسے بعد کے نقل کرنےو الوں نے برقرار رکھا۔
سوّم، کسی نے بھی اشعار میں لفظ کی تبدیلی، اِملے کی صحت حتیٰ کہ کتابت کی خامیوں پر بھی توجہ نہیں دی اور ویسے ہی نقل کر دیا مثلاً، دیوانِ غالبؔ (کامل) مرتبہ کالی داس گپتا رضاؔ میں جہاں جہاں شعر میں لفظ ’’خورشید‘‘ آیا ہے، اُسے کاتب نے ’’خرشید‘‘ لکھا ہے اور غالباً اُسی کی نقل میں غالبؔ انسٹی ٹیوٹ کے نسخے میں بھی ’’خرشید‘‘ موجود ہے۔ (دیکھئے ص ۲۴۰)
تبدیلیوں اور بے توجہی کے مراحل سے گزرنے کےبعد دیوانِ غالبؔ کے ان نسخوں میں در آنے والے متنی اختلافات کے درمیان یہ جاننا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ،
’’خود غالبؔ نے کیا کہا تھا!؟ غالبؔ کی تحریریں محفوظ بھی ہیں یا نہیں! یا پھر کس حد تک!!‘‘
راقم الحروف نے متذکرہ بالا نسخوں میں جو متنی اختلافات پائے ہیں، اُن کی تعداد ایکسو پینتیس (۱۳۵) ہے۔ اگر کچھ اور نسخے دیکھے ہوتے تو اِس تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا۔
بہرحال اِن متنی اختلافات کے تجزیئے سے راقم کو جو متن صحیح معلوم ہوا اُسے توجیہہ و تشریح کے ساتھ ’’دیوانِ غالبؔ (مکمل)‘‘ میں شامل کر لیا ہے۔
اِس دیوان کی تالیف کا مقصد بھی یہی ہے کہ
’’دیوانِ غالبؔ کا کم از کم ایک نسخہ تو ایسا ہو جسے متن کے اعتبار سے معتبر کہا جا سکے۔‘‘
اس طویل اقتباس کے لیے معذرت۔لیکن بات بنانے کے لیے یہ معلومات فراہم کرنا ناگزیر تھا۔
ڈاکٹراشفاق انجم صاحب نے متداول دواوینِ غالب میں جن ۱۳۵ متنی اختلافات کی نشاندہی کی ہے وہ کسی سرسری مطالعے سے ہرگز نہیں ہوسکتی تھی۔ انھوں نے بڑی عرق ریزی اور باریک بینی سے یعنی meticulously یہ کام انجام دیا ہے۔پھر اس نسخے کی امتیازی جہت ظاہر کرنے کے لیے لکھا:
’’پ‘‘ ردیف کا ایک بھی شعر کسی بھی متداول نسخے میں موجود نہیں ہے۔ ناچیز کو ایک مطلع دستیاب ہوا، جسے شامل کر لیا ہے، یہ بھی اس نسخے کا امتیاز ہے‘‘۔
ڈاکٹر اشفاق انجم نے غالب کے اشعار میں آنے والے بعض ادق الفاظ کے معانی بھی درج کردیے ہیں،غالب کی غزلوں کی عروضی بحریں بھی درج کردی ہیں، نیز املا بھی درست کردیا ہے۔اس نسخے کی مابہ الامتیاز نوعیت ڈاکٹر صاحب کے ایسے ہی اقدامات سے ظاہر ہے۔
پیشِ نظر نسخے میں جو فارسی کلام شامل کیاگیا ہے، اس میں ایک غزل حرف ’’ص‘‘ والی ہے۔اردو دیوان میں فارسی کا جوڑ صرف دیوان کے حروفِ تہجی کی تکمیل کی غرض سے لگایا گیا ہے۔ اس موقع پر مجھے یاد آیا کہ
افتخار احمد عدنی نے فارسی اشعار کا منظوم ترجمہ کیا تھا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ وہ ترجمہ یہاں نقل کردوں جو اصل فارسی غزل کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔ اس کی شمولیت سے غالب کے فارسی متن کا اردو پیکر بھی شاید اس نسخے کے معنوی حسن میں اضافے کا باعث ہوسکے:
کر عکسِ پل کی طرح سے سیلِ بلا پہ رقص
اپنی جگہ پہ رہ کے کسی اور جا پہ رقص
کیا خواہشِ وفا کہ غنیمت ہے ایک پل
کر التفات شاہدِ شیریں ادا پہ رقص
ذوقِ سفر میں ہم ہوئے منزل سے بے نیاز
رفتار چھوڑ، کرتے ہیں بانگِ درا پہ رقص
سر سبز تھے تو سیرِ چمن میں رہے مدام
اب شعلہ کررہا ہے ہماری فنا پہ رقص
حاصل نوائے چغد سے ہولذَّتِ سماع
کر انبساطِ جنبشِ بالِ ہُما پہ رقص
ملتی ہے جن کو راحتِ بے پایاں عشق میں
کرتے ہیں خاک ہو کے وہ دوشِ صبا پہ رقص
فرسودہ رسم چھوڑ کے کرتے ہیں اہلِ دل
عیش و طرب پہ نوحہ تو آہ و بکا پہ رقص
زہد و نفاق دونوں انا کے اسیر ہیں
کر بندِ نفس توڑ کے دل کی صدا پہ رقص
جلنے سے کوئی رنج، نہ کھلنے سے کچھ خوشی
صرصر پہ وجد کیجیے ، بادِ صبا پہ رقص
وابستہ ہے کسی سے تو غالب نشاط میں
کر ناز اپنی ذات پہ‘ بندِ بلا پہ رقص


اسی طرح افتخار احمد عدنی نے ’’ض‘‘ کے بھی دو اشعار کا ترجمہ کیا ہے:
تسبیح کے شمار سے خوش ہوں کہ آخرش
پایا ہے میں نے اک کفِ پیالہ ستاں عوض
غالب ہر اک وفا کے صلے میں جفا نئی
دیتا ہے کس کمال سے وہ مہرباں عوض
’’ق‘‘ کی ردیف والی فارسی غزل کے بھی تین اشعار مع ترجمہ حاضر ہیں:
غلط کند رہ و آید بہ کُلبہ ام ناگاہ
صنم فریب بود شیوۂ ہدایتِ شوق
وہ راہ بھول کے ناگاہ میرے گھر آیا
صنم فریب ہے کیا شیوہء ہدایتِ شوق
متاعِ کاسدِ اہل ہوس بہم بر زن
کنوں کہ خود شدہء شحنہء ولایتِ شوق
متاعِ کا سدِ اہلِ ہوس کو برہم کر
ہوا ہے خود ہی جو تو شحنہء ولایتِ شوق
بخود مناز و بہ آموزگار ہم بپذیر
من و نہایتِ عشق و تو و ہدایتِ شوق
نہ بے نیاز ہو، ہم جیسے پختہ کاروں سے
کہ ابتدا ہے تری اور یہاں نہایتِ شوق
(غالب کی فارسی غزلوں سے انتخاب اردو اور انگریزی ترجموں کے ساتھ۔ [اردو، افتخار احمد عدنی]، [انگریزی، رالف رسل]پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی، بہ تعاون انجمن ترقی اردو، پاکستان،۱۹۹۹ ء )
غالب کے کلام کی مقبولیت اور اس پر ہونے والےمسلسل تحقیقی و تنقیدی کام کو دیکھ کر غالب کی پیشین گوئی یاد آتی ہے۔غالب نے بہت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
کوکبم را در عدم اوج قبولی بودہ است
شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن
(میرے ستارہء بخت کو عدم میں اوجِ قبول حاصل تھا۔ میری شاعری کی شہرت بھی اس دنیا میں میرے دنیا سے گزرجانے کے بعد ہی ہوگی)۔
غالب کی صد سالہ تقریبات میں ایک صاحب نے باقاعدہ علم نجوم کی اصطلاحات کی روشنی میں ستاروں کی چال دکھانے کے لیے ایک زائچہ بناکر، اس شعر کی تشریح کی تھی۔ان کی پیش کردہ تفصیلات سے غالب کی علم نجوم پر دست رس بھی ظاہر ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں غالب پر اب تک ہونے والے کام کی روشنی میں غالب کی پیشین گوئی کے پورا ہونے کی گواہی ملتی رہی ہے، اور نہ جانے کب تک اس پیشین گوئی کے اثرات ظاہر ہوتے رہیں گے؟ غالب نے خود کو شاعرِ فردا بھی کہا تھا:
ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں
غالب کے مختلف دواوین میں متنی،ملفوظی اور املا کے اختلافات کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا: ’’ ممکنہ حد تک درست متن انتخاب کر کے شائع کیا جا رہا ہے‘‘ نیز فارسی کلام کی شمولیت کے ساتھ یہ فرمایا ’’ ۔’’خ ۔ ذ ۔ ص ۔ ض ۔ ظ ۔ ق ‘‘ ردیفوں میں مرزا کی فارسی غزلوں سے اشعار مستعار لے کر ’’دیوان‘‘ مکمل کر دیا ہے، مستعار یوں کہ اگر کبھی اُردو غزلیں دستیاب ہو گئیں تو اُنھیں واپس کر دیا جائے گا!!‘‘
ڈاکٹراشفاق انجم کا یہ بیان ،اس بات کی شہادت ہے کہ غالب کے کلام کی اشاعت اور اس کی تفہیم کے لیے کاوشوں کا سلسلہ رُکا نہیں ہے تحقیق کی دنیا میں اس سلسلے کے جاری رہنے کے امکانات بہت ہیں۔ بقول اقبال
گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادہء ناخوردہ در رکِ تاک است
یہ گمان نہ کر کہ شراب کشید کرنے کا کام ختم ہوچکا ہے۔ [نہیں نہیں] ابھی تک انگور کی بیلوں میں ہزاروں ایسی شرابیں موجود ہیں جنھیں پیا ہی نہیں گیا ہے۔
غالب پر تحقیقی اور تنقیدی کام ہوتا رہے گا، لیکن اب دیوانِ غالب کا یہ نسخہء اشفاقیہ ہی مستند ترین متن تسلیم کیا جائے گا۔ میں اس اہم کام کی تکمیل پر ڈاکٹر صاحب کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر عزیزاحسن
جمعرات:۲۶محرم الحرام ۱۴۴۴ھ
مطابق: ۲۵ اگست ۲۰۲۲ء

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

رفیق عالم کی حمد کا فنی و فکری مطالعہ

بدھ اپریل 3 , 2024
رفیق عالم کی اردو حمد میں جابجا عقیدت اور شکرگزاری کا گہرا اظہار ملتا ہے۔ بہترین حمدیہ اشعار کے ذریعے رفیق عالم روحانی
رفیق عالم کی حمد کا فنی و فکری مطالعہ

مزید دلچسپ تحریریں