ھنزہ سکردو کا سفرنامہ

تحریر : آصف خان ، انگلینڈ

یوں تو بچپن سے ھی پاکستان کے طول و عرض میں گھومنے کا موقع ملا میرے مرحوم ماموں جان شیخ عبد الرشید ایک سینئر بینکر تھے اور مسلم کمرشل بینک سے وابستہ ھونے کی وجہ سے ھر تین سال بعد ان کی تعیناتی پاکستان کے ایک نئے علاقے میں ھوا کرتی تھی جہاں تک مجھے یاد ھے سب سے بہترین اور یادگار تعیناتی ان کی ایبٹ آباد،سوات،مردان،جہلم اور آزاد کشمیر میں تھیں اور اس وجہ سے مجھے بچپن میں ھی ان سب خوبصورت علاقوں کو دیکھنے اور وہاں پر وقت گزارنے کا موقع ملا میرے والد صاحب اور ان کی فیملی 1929 سے ٹرانسپورٹ بزنس سے منسلک رھی ھے 80 کی دھائی میں جب والد صاحب نے مانسہرہ کراچی بس سروس کا اجرا کیا RIJ 1392 اور RIJ 7192 رجسٹریشن کی دو نئی بسیں اس روٹ پر ڈالی تو میں ضد کر کے افتتاحی بس سروس میں کراچی کے لئے روانہ ھو گیا اور اس طرح مجھے براستہ سڑک پاکستان دیکھنے کا موقع مل گیا سٹوڈنٹ لائف میں براستہ ٹرین بھی راولپنڈی تا کراچی یادگار سفر اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ کیا تاہم برطانیہ منتقل ھونے اور زندگی کی مصروفیات کی وجہ سے پاکستان کے گلگت بلتستان خطے کو دیکھنے سے محروم رھا۔اگست 2019 میں عمران خان کینسر اپیل برطانیہ نے پاکستان کی نانگا پربت بیس کیمپ جو کہ برطانیہ کی بلند ترین پہاڑوں سے بھی زیادہ بلندی پر واقع ھے کو سر کرنے کے لئے “Pakistan trekking challenge”کا پروگرام ترتیب دیا جس کا مقصد عمران خان کینسر اپیل کے لئے مزید فنڈ ریزنگ اور عوام کو آگاہی دینا تھا یہ کوئی دس روز کا پروگرام تھا جس میں برطانیہ بھر سے 27 لوگ شریک ھوئے تاہم نانگا پربت بیس کیمپ تک صرف 6 لوگ پہنچ سکے جن میں بھی شامل تھا وقت کی کمی کی وجہ سے سکردو اور ھنزہ نہ دیکھ سکا اور ایک خلش سی رھی کہ کاش میں یہ سارے علاقے دیکھ پاتا مگر بدقسمتی سے اس کے بعد مارچ 2020 میں کرونا کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا 2020 کا پاکستان کا پروگرام کینسل ھوا عمران خان کینسر اپیل نے اس کے بعد اگست 2021 میں ایک اور گلگت بلتستان کا ٹریکنگ کا پروگرام ترتیب دیا اور اس میں خاص طور پر ھنزہ سکردو دیوسائی استور کے خوبصورت علاقوں اور پہاڑوں کو شامل کیا گیا تاہم برطانیہ کی طرف سے پاکستان کو غیر منصفانہ طور پر ریڈ لسٹ میں رکھنے کی وجہ سے اس پروگرام کو بھی کینسل کرنا پڑا مجھے ذاتی طور پر اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ ایک اچھے رفاھی کام کرنے کے ساتھ ساتھ میں گلگت بلتستان کے خوبصورت علاقوں کو دیکھنے کا ایک موقع گنوا رھا ھوں البتہ اس کے بعد کچھ ضروری کاموں کے لئے اگست میں ھی میری پاکستان آمد ھوئی اور ضروری معاملات سے فارغ ھونے کے بعد 1 ستمبر کو میں نے اپنے بھائی خورشید،بھانجے سعد اور دوستوں شوکت اور انور زیب کے ساتھ ھنزہ اور سکردو کے لئے رخت سفر باندھا اور اپنی 4×4 SUV میں براستہ ھزارہ موٹروے حضرو سے صبح 9 بجے روانہ ھوئے ناران کاغان سے ھوتے ھوئے سہ پہر 3 بجے بٹہ کنڈی پہنچے بٹہ کنڈی میں رات قیام کیا بٹہ کنڈی ایک خوبصورت سیاحتی مقام ھے یہاں پر نئے اور اچھے معیاری ھوٹلز دیکھ کر دلی خوشی ھوئی۔ناران کے بازار اور چہل پہل دیکھ کر احساس ھوا کہ پاکستان کے لوگوں کو اب مری کا بہترین متبادل مل گیا ھے 2 ستمبر کو صبح نو بجے ھنزہ کے لئے روانہ ھوئے اور روڈ کو بہترین حالت میں دیکھ کر دلی خوشی ھوئی ناشتہ راستے میں کیا اور بھرپور کیا اس کے بعد براستہ چیلاس بابو سر ٹاپ اور گلگت سے ھوتے ھوئے ھم سہ پہر 3 بجے ھنزہ پہنچے.

hunza

ھنزہ کا موسم انتہائی خوشگوار اور قدرتی حسن لاجواب ھے لوگ انتہائی خوش اخلاق اور نفیس ھیں شہر صاف ستھرا ھے ھنزہ میں جاتے ھی ھم نے پہلے بازار کا رخ کیا اور اس کے بعد 8 سو سالہ پرانا تاریخی بلتیت قلعہ دیکھا جو انتہائی بلندی پر ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا ھے گلگت بلتستان کی تاریخ میں اس قلعے کی بہت اہمیت ھے ھنزہ میں ھمارے قیام کے دوسرے دن ھم عطاآباد جھیل دیکھنے روانہ ھوئے یہ جھیل 2010 میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے وجود میں آئی جس کی وجہ 20 لوگ جان سے گئے اور تین گاوں اس جھیل میں ڈوب گئے اس جھیل کی گہرائی 60 میٹر ھے اور لمبائی کئی کلومیٹر تک ھے اس جھیل تک پہنچنے کے لئے کئی کلومیٹر لمبی 4 سرنگوں سے گزر کر جانا پڑتا ھےاب عطاآباد جھیل ایک سیاحتی مقام ھے یہاں پر 4 سٹار ھوٹل اور واٹر سپورٹس کی سہولیات موجود ہیں چند دن ھنزہ میں قیام کے بعد ھم لوگ صبح آٹھ بجے سکردو کے لئے روانہ ھوئے موسم بہترین اور روڈ نیٹ ورک اچھی حالت میں ھونے کی وجہ سے ھمیں سفر میں کوئی دشواری نہیں ھوئی البتہ دو مواقع پر ھمیں Road works کی وجہ سے 30 منٹ رکنا پڑا۔3 بجے سہ پہر ھم شنگریلا ریسورٹ پہنچے پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ ریسورٹ اپنی مثال آپ ھے دل کی مشابہت رکھنے والی ایک جھیل کے کنارے پھلوں سے لدے ھوئے خوبصورت باغات اور چینی طرز تعمیر کے بنے خوبصورت ریسٹورنٹ اور ھوٹلز ایک دلفریب نظارہ پیش کرتے ھیں یہ مقام اتنا خوبصورت ھے کہ انسان کا دل موہ لیتا ھے دل پر پتھر رکھ کر شام 7 بجے ھم سکردو کے لئے روانہ ھوئے اور میرے پیارے دوست حسین بلتی کی فیملی نے سکردو میں ھمارا استقبال کیا سکردو میں حسین نے اپنے وسیع و عریض گھر میں ھمارے قیام کا شاندار بندوبست کیا ھوا تھا

Gilgt

دوسری صبح ناشتے کے بعد 8 بجے سکردو اور اس کے گردونواح میں سیاحتی مقامات دیکھنے کا آغاز ھوا جو رات 9 بجے تک جاری رھا اس دوران ھم نے آبشار۔تاریخی قلعے اور کولڈ ڈیزرٹ میں جیپ سفاری کے ساتھ ساتھ سکردو میں ھائیکنگ سے بھی لطف اندوز ھوئے جب کہ ایک بہترین دوست اور میزبان ھونے کے ناطے حسین بلتی ھمیں روایتی گلگت بلتستان کے کھانوں سے لطف اندوز ھونے کا موقع بھی فراہم کرتے رہے۔6 ستمبر کو صبح 8 بجے ھم نے اپنے میزبان دوست حسین بلتی کو الوداع کہا اور ایک دوسرے روٹ سے حضرو کے لئے روانہ ھوئے مقصد یہ تھا کہ ھم استور اور دیوسائی نیشنل پارک کے خوبصورت وادیوں سے گزر کو واپسی کریں ان خوبصورت وادیوں کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ھے شاید تصاویر سے کچھ اندازہ کیا جا سکتا ھے تاہم آبشاروں جھیلوں خوبصورت وادیوں اور جنگلی حیات دیکھتے دیکھتے کوئی 1800 کلومیٹر گلگت بلتستان میں محو سفر رھنے کے بعد 19 گھنٹے کی مسافت کے بعد صبح 3 بجے 7 ستمبر کو ھمارا یہ یادگار سفر حضرو پہنچ کر اختتام پذیر ھوا گلگت بلتستان بلاشبہ پاکستان کی ٹورازم اور سیاحت کا مستقبل ھے
پاکستان زندہ باد

Asif UK

آصف خان 

انگلینڈ

مدیرہ | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اور ملکہ برطانیہ انتقال کرگئیں

ہفتہ ستمبر 10 , 2022
لندن کی فٹ پاتھوں پر سونے والے بے گھر افراد ہوں یا شاہی محل میں رھنے والی ملکہ ، سب کو ایک جیسے انجام سے دو چار ہونا ہے اور یہی ہوا
اور ملکہ برطانیہ انتقال کرگئیں

مزید دلچسپ تحریریں