سفرنامہ جاپان

پروفیسر انور جلال صاحب مرحوم و مغفور کا یہ سفرنامہ شمارہ سہ ماہی مجلہ ذوق میں شائع ہوا تھا۔ مدیر اعلی جناب نصرت بخاری صاحب نے سوچا کہ اسے آن لائن بھی شائع کیا جائے۔ہمارے اس میگزین کے لئے پروفیسر صاحب نے چونکہ پہلے بھی لکھا تھا تو ان کا اکاؤنٹ بنا ہوا ہے ، لھذا ان ہی کے نام سے اسے شائع کیا جا رہا ہے۔

آغا جہانگیر بخاری

روداد
7۔اگست2019
میں اپنے تمام جگر فروشوں کو یادوں میں سنائے سینے سے لپیٹا کر(جاپان) لایا ہوں۔۔جیسے شاعر نے کہا” جب کبھی گردن جھکائی دیکھ لی۔”کبھی ملک اشرف،کبھی عبدالرحمن رحمان سے سرگوشی کر لی،کبھی نثار صدیقی اور کبھی طاہر جاوید کو دیدار کرلیا۔یونہی سارے” لوگ” “آتے گئے اور کارواں بنتا گیا”۔ہو گئی دل کو تیری یاد سے اک نسبت خاص ۔’’اب شاید ہی میسر کبھی تنہائی ہو‘‘
12اگست2019
سائی تامہ اور ٹوکیو کی گلیوں، سڑکوں پہ پھر رہے ہیں۔ہر شے چمکتی دمکتی،خواہ ریل گاڑیاں ہوں، سرکاری بسیں، پرائیویٹ ٹیکسیاں، موٹر سائیکلیں سائیکل۔سڑکیں، گلیاں، راستے نہایت خوشنما ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ، کسی کو کسی سے مطلب نہیں۔ دوسرے کی طرف دیکھتا تک نہیں ایک نے ہاتھ میں موبائل فون تھاما ہوا ہے اور اتنی پریکٹس ہے کہ نگاہ موبائل سکرین پر ہے لیکن تیز رفتاری سے بلکہ بھاگتے ہوئے منزل مقصود کی جانب گامزن ہیں۔مجھے یاد آیا کہ ہمارے بچے سلفیاں لیتے ہوئے ریل گاڑی کے نیچے آجاتے ہیں یا دریا میں گر جاتے ہیں۔کسی دکان پہ چلے جاو، لگتا ہے، عاجزی،اعلی ترین اخلاق اور خوشی سے پھولے نہ سامنے کی سی کیفیت سے آپ کا استقبال ہو رہا ہے۔تمام بڑی سڑکیں گاڑیوں سے بھری ہوئی ہیں لیکن ہمارے ایسی حکومتی چمکتی بسیں کیوں نظر نہیں آتیں۔جگہ جگہ زیبرا کراسنگ،ہمارے ہاں کی طرح بنے ہو ہوئے ہیں۔لیکن افسوس ہمارے گاڑیوں والے،زہرا کراسنگ کے اوپر گاڑی کھڑی کرتے ہیں۔جبکہ ان کی نظروں میں عام آدمی کی بہت اہمیت ہے۔ چنانچہ انہوں نے گاڑیوں کے سرخ اور سبز سگنل کی طرح پیدل چلنے والوں کے لئے سبز اور سرخ سگنل لگا دئیے ہیں یعنی گاڑیوں کے سبز سگنل سے پہلے پیدل لوگوں کے لئے سبز سگنل ہوتا ہے اور زہرا کراسنگ والے پورے اطمینان سے اس تک گزرتے رہتے ہیں ،حتی کہ پیدل والوں کے لئے سرخ سگنل ہو جاتا ہے۔اب ذرا بتائیے،پاکستان میں یہ سب کرنا کتنا مشکل ہے ؟

ٹوکیو – Image by Terzoni from Pixabay


14۔اگست 2019
ٹوکیو اور سائی تامہ کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے،میں نے محسوس کیا کہ اگر عوام مردوں کی طرح سست اور ڈھیلے نہ پڑے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائل دائمی طور، نہ حل ہوں۔جس طرح شہباز شریف ، اپنے بد دیانت ٹھیکداروں سے کام کراتا ہے،برسات میں بڑی سڑکوں اور گلیوں میں پانی ہمیشہ بھرا رہے گا ۔ دوسرے اصل مسئلہ اداروں، کی بددیانتی ہے۔ میونسپل کمیٹیوں سے لے کر، ایل ڈی اے،سی ڈی اے اور کنٹونمنٹ سب بدمعاشوں سے بھرے ہوئے ہیں۔۔۔ان میں خوف خدا کیسے آئے گا اور رزق حلال کمانے کا جذبہ کس طرح پیدا ہو گا۔ایک ہی طریقہ ہے خوفناک سزائیں۔ سچ پر مبنی تیز رفتار انصاف ہو اور تین پیشوں کے بعد نوکری سے فارغ۔میں سائی تامہ کی ایک ایک گلی میں اس نکتہ نظر سے پھرا ہوں کہ کہیں کوئی نقص نظر آجائے۔خدا کی قسم ذرا سا بھی جھول کسی کام میں نظر آیا ہو۔فلیٹو ں کے سلسلے دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔کہیں کہیں گھر بھی ہیں،جن کے اندر گاڑی کھڑی ہے۔باقی ہر گھر کے باہر خوب صورت کھلی پارکنگ ہے،گاڑی پارکنگ کے لئیے، ماہانہ کرایہ وصول کیا جاتاہے۔چھوٹے بچوں کے اور بڑوں کے لئے علیحدہ سائیکلوں کے رکھنے کی جگہ بنی ہوئی ہے۔بارش سے بچاؤ کے لئے،دو مضبوط لوہے 4×6 انچ کے پلر پر خوب صورت سٹیل کی چادر ایسے سنگل سے ڈالی گئی ہے کہ میں خود برستی بارش میں گیا،ایک قطرہ بھی بارش کا نہیں پڑا تھا۔اکثر لڑکے اور لڑکیاں سائیکل چلاتے ہیں ساری سڑکوں کے ایک طرف گھنے درختوں کے پرلی طرف سات یا آٹھ فٹ،جگہ بنی ہوئی ہے بائیں طرف پیدل چلتے ہیں اور دائیں طرف سائیکل سوار۔زمین کا کو ئی نشان نہیں خود رو گھاس نے ہر انچ کو ڈھانپ رکھا ہے۔ درختوں کے تنوں میں کھاد ڈال کر،اوپر باریک بجری ڈالی گئ ہے، اس پر پورےگھیرے کے برابر لوہے کی خوب صورت جا نما شیٹ لگی ہے۔لیکن اکا دکا درختوں پر،پتہ نہیں وہ درخت نادر ہیں اور یہ انہیں محفوظ رکھنے کا عمل ہے۔ایک شے جو مجھے بہت اچھی لگی،وہ سائی تامہ سے لے کر ٹوکیو تک( 60 کلومیٹر) نابینا کے لئے آٹھ چوڑی زمین سےآدھ انچ زمین سے اوپر اٹھی ہوئی چار لائینیں، جن پر زرد رنگ کیا گیا ہے،عام لوگوں کو اس سے ہٹ کر چلنے کی ہدایت ہے۔ نابینا لوگ اپنی اسٹک کی مدد سےچلتے ہوئے بآسانی راستہ طے کرتے ہیں۔

Saitama

سفرنامہ جاپان
سائی تامہ – By Many On wikipedia, CC BY-SA 4.0, Link


16۔اگست2019
آج سائی تامہ کا سرکاری ہسپتال دیکھا۔یہ کیسے لوگ ہیں،جنہوں نے اپنے مریضوں کو عزت سے بیٹھنے کے لئے ، بہت بڑ ے ہال میں شاندارصوبے سیٹ ڈال رکھے ہیں۔ سارے ہسپتال میں پھر کر دیکھا ہر راہداری میں یکھا،ہر ڈاکٹر کے کمرہ کے آگے صوفے پر وہ لوگ بیٹھے تھے جو ہال میں متعلقہ لوگوں سے مل کر، اپنے مطلوبہ ٹیسٹ کروا چکے تھے۔۔یا سامنےدرجنوں نرسوں کا سٹاف بیٹھا تھا،جن کے پاس پرانے مریضوں کا ریکارڈ موجود تھا۔میرے کیس میں ایک نرم چہرے والی،کوئی چالیس عمر والی خاتون مسکراہٹ،چہرے پر سجائے آئی۔یہ تو افسوس ہوا کہ زبان سمجھ نہیں آتی لیکن میرے بیٹے ڈاکٹر عدنان نے کچھ گزارا کر لیا۔اس نے مسکراتے ہوئے ساری بات سمجھ لی آور ایک کمرے میں چلی گئی۔چند منٹ بعد آئی اور ہمیں ساتھ لے گئی۔میرا ایکسرے لیاگیا۔پھر E C G لی اور آخر میں بلڈ پریشر لیا۔ہم اپنی سیٹوں پر بیٹھے کہ دس منٹ بعد ہی مسکراتا چہرہ نمودار ہوا اور ہمیں آگے لے چلا۔صرف چند قدم۔۔۔نوجوان جاپانی ڈاکٹر نے ہم سے آٹھ کا مصحافہ کیا میرا ایکسرے سامنے لائٹ والی مشین پر لگا تھااس نے کہا Mild Pneumoniaہے۔اس نے دوائیاں لکھ دیں اور کہا کہ اس حالت میں لمبا ائیر سفر نہیں کر سکتے۔ہماری ⁶ بجے فلایٹ تھی۔ اس نے دس منٹ انتظار کرنے کو کہا۔۔ہم باہر آ کے اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔وہی مسکراتا چہرہ ہمیں آ کر کاغذ دے گیا۔اب ہم نے ویزہ سیکشن جانا تھا۔۔ اتنی دیر میں ممتاز شاہ جی آ گئے۔وہ 1982 میں میرے نہایت قریب رہے تھے، میں انچارج سٹوڈنٹس یونین تھا اور شاہ جی جنرل سیکڑیڑی منتخب ہوئے تھے۔سو ہر وقت کا ساتھ !،7 2 سال سے جاپان میں تھے۔میرا ان کا میسنجر پر رابطہ تھا وہ بھی سائی تامہ میں رہتے ہیں انہوں نے پوری فمیلی کو پرتکلف کھانا کھلایا مونس رضا جی کا خاص ذکر ہوا۔۔انہیں ہمارے سارے پروگرام کا علم تھا۔جب عدنان کی زبانی میری بیماری کا معلوم ہوا تو بھاگتے آئے،یہی ہمارے علاقوں کی شان ہے۔ہمارے ساتھ ویزہ آفس آئے اور ان کے جاپانی بولنے نے بہت مدد کی۔ آخر کار ویزہ آفس نے دو ہفتے کا ویزہ بڑھا دیا۔میں سمجھتا ہوں اگر ہم اپنے لوگوں کی عزت افزائی کریں تو پوری قوم میں پیارومحبتبڑھے۔کسی کا کام مسکراتے ہوئے اور دوڑ کر کرنے سے آپ دوسرے کے دل میں مستقل جگہ بنا لیتے ہیں۔اگر آپ کبھی میو ہسپتال یا جناح یا کسی بڑے ہسپتال گئے ہیں تو وہاں جو حال ہے۔اللہ معافی ! ۔میرا تجربہ ہے کہ اگر ایم ایس، بندے کا پتر ہو تو پیار و محبت کا یہ بیج بویا جا سکتا ہے۔

Website | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ایم بی راشد کا مجموعہ "اٹھواں رنگ"

جمعہ نومبر 18 , 2022
لیہ کے معروف سرائیکی شاعر ایم بی راشد کا سرائیکی شعری مجموعہ “اٹھواں رنگ” منصئہ شہود پر آگیا ہے
ایم بی راشد کا  مجموعہ “اٹھواں رنگ”

مزید دلچسپ تحریریں