نادر شاہ یہ ہیرا لے کر ضلع اٹک سے گزرتا ہوا واپس چلا گیا۔شہرۂ آفاق”تخت ِطاؤس”بھی اٹک سے گزر کر ایران پہنچا۔
پیسا، شہرت، اور دیگر وقتی مفادات حاصل کرنے کے لیے مشاہیر کے نام سے جعلی خطوط لکھ کر دنیا کے سامنے پیش کیے گئے لیکن ناقدین کی نظروں سے بچ نہ سکے
ایک سال کی قلیل مدت میں ہم اپنی شاخت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ہمیں رسائل کے اس ہجوم میں اپنی شناخت بنانے کے لیے انفرادیت مطلوب تھی۔
آپ کااصل نام محمد انور ملک ہے۔انور جلال کےقلمی نام سے پہچانے جاتے ہیں۔1944 میں کیمبل پور (حال : اٹک ) میں ملک عطا محمد کے گھرپیدا ہوئے
وہ بوڑھا لوہار تو 1975میں [رابطے] پر آیا تھا جب کہ شاہین پاکستان 1998میں آیا تھا۔گویا گوجرانوالہ کے لوہار اور شاہین میں 23۔برسوں کی دوری ہے
ضلع اٹک میں سب سے زیادہ فعال،مفید،کارآمد اور سب سے زیادہ عمر پانے والی ادبی تنظیم ہے۔اس وقت اٹک کے ہر چھوٹے بڑے ادیب پر اس تنظیم کے اثرات ہیں
آج کل عام تاثر یہی ہے کہ رسالے کی اشاعت گھاٹے کا سودا ہے۔لیکن یہ رائے قائم کرنے والوں کو عشق کی وہ کہکشاں دکھائی نہیں دیتی جو رسالہ چھاپنے والا دیکھ رہا ہوتا ہے
2013 کا سال ادبی تاریخ مرتب کرنے والوں کے لیے اس لیے اہم ہے کہ یہاں اٹک سے یکے بعد دیگرے دو رسائل نعتیہ ادب کی ترویج و فروغ کے لیے میدانِ عمل میں نکلے ۔
عورت بہت حساس مخلوق ہے ۔ اس کی دنیا محبت و تقدس کے نرم و نازک اور ریشمی دھاگوں سے بنی ہوتی ہے۔جب کو ئی ان دھاگوںکو توڑ دیتا ہے ت