جبار مرزا بنام نصرت بخاری

جبار مرزا
3۔مئی 2019
اسلام آباد
سید نصرت بخاری صاحب السلام علیکم۔مزاجِ گرامی؟
جناب آپ نے اپنے مکتوب میں یو ٹیوب پر ایک ایسی وڈیو کی جانب توجہ مبذول فرمائی ہے جس میں کوئی گوجرانوالہ کا لوہار دعویٰ کر رہا ہے کہ 1970یا 1975میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوکہوٹہ ایٹمی پلانٹ میں مشکلات درپیش تھیں تو وہ گوجرانوالہ کے ایک ناخواندہ لوہار سے مشکل کی[کے] حل میں مدد کے لیے بہ نفسِ نفیس تشریف لے گئے تھے۔’’بابے کی مشین‘‘نامی اردو لائنز کی وہ بےہدہ[بے ہودہ] وڈیو میں نے بھی آپ کی نشان دہی پر دیکھی،جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ شاہین میزائل کی تیاری میں آنے والی رکاوٹ کو اُسی بوڑھے لوہار نے ٹھیک کیا تھا۔آپ نے دیکھا کہ اُس لوہار نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو دیکھ کر کہا کہ’’آئو جی آئو درانتیاں بنوانی ہیں[؟] ‘‘۔یعنی وہ کوئی درانتیاں اور کھرپے بنانے والا معمولی بھٹی لگائے بیٹھا تھا۔یقیناََ اُس کے پاس پھونکنی بھی ہو گی۔آپ خود جہاں دیدہ ہیں،ذرا سوچیں،دنیاکی سب سے مہلک اور بڑی ایجادچھوٹی موٹی بھٹیوں کی محتاج ہے؟پہلی بات یہ کہ یہ وڈیو اس قابل نہیں کہ اس کے بارے [میں] لکھ کر اسے اہمیت دی جائے۔لیکن چونکہ آپ کا منشا ہے کہ اس پراظہارِ خیال کروں کہ یہ وڈیو بنانے والا ،اس کا سکرپٹ لکھنے والاپاکستان کے ایٹمی پروگرام ،اُس کی تاریخ سے بالکل ہی نابلد ہے۔
شاہین پاکستان کا نہیں چین کا بنا ہوا ہے۔وہ بوڑھا لوہار تو 1975میں [رابطے] پر آیا تھا جب کہ شاہین پاکستان 1998میں آیا تھا۔گویا گوجرانوالہ کے لوہار اور شاہین میں 23۔برسوں کی دوری ہے۔دوسری بات یہ کہ شاہین پاکستان اٹامک انرجی کی عمل داری میں بنا تھا ،اس کا ڈاکٹر عبدالقدیر سے کوئی واسطہ نہ تھا۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے دو ادارے ہیں ۔ اور دونوں خود مختار ہیں۔ایک پاکستان اٹامک انرجی کمشن جس کا تعلق نیلور سے ہے اور دوسرا ادارہ ہے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری جس کا تعلق اُس کے نام سے ظاہر ہےکہ وہ کہوٹہ میں ہے۔اُس کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔جس کے لیے زمین 1976میں خریدی گئی اور گوجرانوالہ کا لوہار 1974یا1975کون سا پنکھا کہاں ٹھیک کرنے آیا تھا۔1975میں چکلالہ ائر پورٹ کے قریب ایک فوجی بیرک میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہدایت پر اور ڈاکٹر بشیر الدین محمود کی سربراہی میں چھوٹے پیمانے کی ایک سینٹری فیوج مشین لگائی گئی تھی مگر اس کی کارکردگی اس لیے صحیح نہیں تھی کہ وہ ائرپورٹ پر ہونے کی وجہ سے جہازوں کی آمد سے لرز جاتی تھی،[یہ] پاکستان کےایٹمی پروگرام کے خلاف پہلی سازش تھی۔چونکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ابھی پوری طرح پاکستان نہیں آئے تھے ،وہ جب دسمبر میں چھٹیوں پر آیا کرتے تھے تو ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش پر پاکستانی ایٹمی سائنس دانوں کی راہ نمائی کر جایا کرتے تھے مگر ملک میں موجود قادیانی لابی اس سلسلے میں کامیابیوں کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے درپے تھی۔بابے کی مشین ہو یا کراچی کا ڈاکٹر عبدالقادر یا منیر احمد خان اور ثمر مبارک مند[،] یہ سارےکے سارے سازشی امریکی مہرے ،قادیانی اور گمراہ لوگ ہیں۔اس حوالے سے میرے کئی کالم چھپ چکے ہیں۔فروری 2018میں چھپنے والی میری کتاب’’نشانِ امتیاز‘‘آپ کے پاس ہے جس میں پوری دنیا کے ایٹمی نیٹ ورک کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لمحے لمحے کی روداد ہے جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے میری 34برسوں کی یادوں پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ ریفرنس بک اور پاکستان کی ایٹمی تاریخ ہے۔جسے [جو] ملک بھر کے پڑھے لکھے طبقے کے علاوہ بھارت اور اسرائیل میں بھی زیرِ بحث آ چکی ہے۔میرے خیال میں اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
اجازت!!
جبار مرزا
2107مین روڈ سیکٹر آئی ٹین ون
اسلام آباد

Jabbar Mirza
تحریریں

ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

شریعت اور روحانیت

بدھ ستمبر 1 , 2021
مذہبی پیشہ ور اور خود غرض لوگ جنکی روزی مذہبی رسومات کے عمل پر منحصر ہے معصوم سادہ لوگوں کو طرح طرح کے توہمات میں پھنسا کر سچی روحانیت سے گمراہ کر دیتے ہیں
Masjid

مزید دلچسپ تحریریں