قُرآن مجید فُرقانِ حمید نے عدل کے لیے دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ عدل اور قسط ۔ اور فارسی زبان میں اسی کو ہی انصاف کہا گیا ہے۔
رمضان المبارک اور عیدالفطر ہمیں باہمی محبت، اُلفت، یگانگت اور اخوت کا درس دیتی ہے۔ یہ عید مساواتِ محمدی ﷺ کے عملی مظاہرے کا دن ہے۔
امید کا انحصار عمل پر ہے۔ یعنی عمل بھی امید کے بغیر نہیں ہوتا؛ اور امید عمل کے بغیر جہالت کے سوا کچھ نہیں اور اللہ کی رحمت سے مایوسی کو قُرآن نے کفر قرار دیا ہے
ساری عزت تو اللہ ہی کی ہے اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں (بلند ہو کر) پہنچتی ہیں اور اچھے کاموں کو وہ خود بلند فرماتا ہے
وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحمَۃًلِلعَالَمِین کی امت آئیے سراپا رحمت بن جائیں، قُرآن کے فرمان کے مطابق اُسوہءِ حسنہ کی جُزوی نہیں مکمل پیروی کریں
سردار صاحب فطری طور پر شاعر تھے اور بہت بچپنے میں ہی شعر موزوں کر لیتے تھے میرے خیال میں شاعری ہے ہی خُدا داد صلاحیت کا نام، شاعر ہوتا ہے، شاعر بنا نہیں جا سکتا
قُرآن مجید میں یہ لفظ لعن و نفرین اور بد دعا کے لیے استعمال ہوا ہے یعنی حق و باطل کی تشخیص کی خاطر ایک دوسرے کی ہلاکت کے لیے بد دعا کرنا۔
حضرت عمرؓ کہہ رہے تھے: بخٍ بخٍ لكَ ياعليؑ اصبَحتُ مولاي ومولٰی كُلِّ مؤمنٍ ومؤمنةٍ۔، یعنی مبارک ہو اے علیؑ آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے مولا و سرپرست ہوگئے
علامہ اقبال نے 1929 میں ٹیپو سلطان کی قبر پر حاضری دی , اور ایک گھنٹے تک تنہا بیٹھے روتے رہے اور اور فارسی میں شاہکار نظم لکھی
جب حق عددی قلّت کا شکار تھا اور باطل کثیر تھا ، ہاں مگر حق پر قائم لوگوں کی اُمّیدیں قلیل مگر مقاصد جلیل تھے