“قصیدہ نور کا” (حصہ اول)

عشقِ مصطفٰی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دھنک رنگ جب موجِ ادراک کے صحیفے کو گلریز کرتے ہیں تو الہام کا ریشمی تبسم الفاظ کی صوتی ترنگ میں ڈھل کر قرطاس کے سینہ پر بکھر جاتا ہے اور نعتیہ رنگ میں برجستگی اور روانی پیدا کرتا ہے اور اس میں لفظ لفظ کرن بنتا ہے ، مہک بنتا ہے ،گلرنگ سویرا بنتا ہے اردو کی کلاسیکی روایات کا گلریز اظہار قاری کے سینے میں اترتا چلا جاتا ہے

“قصیدہ نور کا “نہ صرف شفیق رائے پوری کے عشق و وجدان کا مظہر بن کر ان کے حسیں جذبات کا عکاس ہے  بلکہ ان کے فنی، تکنیکی جہتوں اور نزاکتوں کا آئینہ دار بھی ہے۔ شفیق رائے پوری کا لکھا ہر لفظ ان کی فکری عفت اور بالیدگیءفکر کا آئینہ دار ہے میں نے جب ان کے نگار خانہء شعر میں ڈھلی صوتی ترنگ کو روح کے ساز پر پرکھا تو دل کے سارے تار رقصِ جمیل کرنے  لگے کیونکہ دل و نظر میں عشقِ حسنِ بیکراں ،انیس بے کساں، راحتِ قلب و جسم جاں، راحتِ رفتگاں،چارہ گرِ آزردگاں ، سکونِ درد منداں ،غمسازِ غریباں، نگاہِ بے نگاہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم موجزن ہے

 شفیق رائےپوری  کی بالیدگیء افکار پر الفاظ کی صوتی ترنگ جب دستک دیتی ہے تو مخزنِ اسرارِ ربانی، مرکزِ انوارِ رحمانی آقا پاک کے عشق سے مخمور قلبی راحت پا کر حمد کے ایسے فرخندہ بخت اشعار فکر و شعور پر برستے ییں:۔

تجھے حمد زیبا  خدائے محمدؐ
تو   بے مثل و یکتا خدائے محمدؐ
تو    روزِ جزا کا ہے مالک خدایا
تِرا سب پہ  قبضہ خدائے  محمدؐ

زندگی کے آئینہ خانے میں عشقِ رسولؐ رنگ بکھیرتا چلا جاتا ہے جب آپ قلم ، اللہ ستارالعیوب کے حبیبؐ کی مدحت کے لیے اٹھاتے ییں تو فکری نظافت اسلوبیاتی صباحت کے ساتھ قلم پر الہامی کیفیت پیدا کرتی ہے  انابیبِ شعری اس وقت آپ پر کھلتے ہیں جب نوکِ قلم کو مشک و عنبر میں ڈبو کر لکھتے ہیں کیونکہ آقا محبوبِ ربِ دوجہاں، قاسمِ علم و عرفاں ،راحتِ قلوبِ عاشقاں، سرورِ کشوراں، راہبرِ انس و جاں،قرارِ بے قراراں، اور غم گسارِ دلفگاراں نعت گوئی میں خیالات کی منفرد فکر و ندرت کی سبیلیں تقسیم کرتے ہیں فکرِ رسا اس پاکیزہ سوچ اور مخمور رعنائی ء رسولؐ کو قلم پر ایسے آشکار کرتی ہے:۔

نبی کے شایانِ شان کر لوں تو نعت لکھوں
قلم کو میں عطر دان کرلوں تو نعت لکھوں
درودِ اقدس کے پھول  اُن پر نثار کر کے
معطر اپنی  زبان کر لوں تو  نعت لکھوں

زیارتِ شاہِ جناں،جانِ جاناں،قبلہء زہراں، کعبہءقدسیاں، ہمدمِ نوحؑ، رہبرِ خضرؑ، ہادی ء عیسیٰؑ، عفتِ مریمؑ، حسنِ مجرد، دولتِ سرمد، ساقی ء کوثر، شافع ء محشر، روحِ مصوّر، مرسل داور اور زلفِ معنبر کرنے والی آنکھیں بتاتی ہیں کہ آج بھی خوشبو خضریٰ کا طواف کرتی ہے آج بھی حضورؐ کی زلفوں کی خوشبو مدینے کی فضاوں میں گھلی آپؐ کی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے آج بھی غار حرا کے ذروں میں آپ کے قدموں کی حلاوت محسوس ہوتی ہے۔ آج بھی روشنی خضریٰ کے سامنے دست بستہ ہے۔

قرآن میں “ورفعنا لک ذکرک “کی سندِ مبین عظیم نعت گوئی کو ظاہر کرتی ہے آپؐ کا ذکرِ مبین کتنا بلند ہے اس کی کوئی حد نہیں بتائی گئی خواہ یہ ذکر ممبر پر ہو یا فرشِ زمین پر ہو ،قاری کے لبوں پر درود و سلام کی صورت میں ہو ،نعت گوئی میں ہو یا نعت خوانی کی صورت میں ہو شفیق رائے پوری کا یہی گلرنگ اظہار ان کے اشعار کو عنبر کر رہا ہے :

جب جب بھی حاضری ہوئی مہکا مشامِ جاں
دربارِ مصطفیٰؐ میں ہے نکہت کمال کی
نعتِ نبی کے  واسطے پڑھئے کلامِ پاک
قرآں کی آیتوں میں ہے مدحت کمال کی

ہمارے شہر میں نعت کے حوالے سے نذر صابری رحمتہ اللہ بہت بڑی شخصیت ہیں جنہوں نے فروغ نعت اور نعت آشنائی کے لیے اٹک میں ایک ادبی تنظیم ” محفل شعر و ادب ” بنائی اور آخر دم تک نعت کے لیے کام کیا ہے وہ سچے عاشقِ رسولؐ تھے ایک دفعہ جب حاجی مدینہ شریف کی تیاری کر رہے تھے تو آپ نے ایک حاجی صاحب سے نم دیدہ ہو کر کہا کہ حج سے واپسی پر مدینے کی گلیوں سے میرے لیے تھوڑی سی مٹی لے آنا اُس زمانے میں مدینے کی گلیاں کچی تھیں اس لیے واپسی پر خاکِ مدینہ نذر صابری  کو دی گئی تو آپ نے کانپتے ہاتھوں سے شیشی کھولی اور خاکِ مدینہ نکال کر بوسہ دیا آنکھوں سے لگائی اور آپ کے آنسو جاری ہو گئے ایک سال تک خاکِ مدینہ کی زیارت کرتے رہے دوبارہ جب حاجی حج کے لیے جانے لگے تو نذر صابری ؒ نے پھر ایک حاجی صاحب کو خاکِ مدینہ والی شیشی دی اور کہا کہ یار اس مقدس مٹی کو رکھنے کے لیے میرے پاس ایسی مقدس جگہ نہیں ہے اس کو مدینے پاک کی گلیوں میں پھر رکھ دینا۔ آپ نے مٹی واپس کی تو پھر آنسووں پر قابو نہ رکھ سکے اور آبدیدہ ہو گئے۔

آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مودت ہو اور مدینے سے نہ ہو یہ ناممکن ہے شہرِ مدینہ کی چاہت شفیق رائے پوری کے دل میں ہے اس کی آنکھیں بھی دیدار مصطفیٰؐ کی کوثر سے مستفید ہونا چاہتی ہیں تب ہی تو ان کے سخن میں ایسا اظہاریہ قاری کی نظروں میں حلاوت پیدا کرتا ہے:۔

اضطراب کی رُت ہے  بے کلی کا موسم ہے
شہرِ مصطفیٰؐ میں پھر حاضری کا موسم ہے
یا نبیؐ  پلا  دیجے    اپنی  دید  کا شربت
میری خشک آنکھوں میں تشنگی کا موسم ہے

بحر نعت میں مسلسل رہنا عطائے رب العزت ہے ناعت اگر غزل کی کوشش بھی کرے گا تو اس کی غزل باوضو ہو گی یعنی اُس میں سارا ذکر آقائے دو جہاں کا ہو گا لیکن یہاں تو  شفیق رائے پوری کا عشق آفتاب نو بہار، شافع یوم قرار، انجمنِ لیل و نہار، محبوب ستار، خاصہء کردگار، حبیبِ غفار ، احمد مختار، مدنی تاجدار، سیدِ  ابرار حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ غزل دامن پھیلائے کھڑی ہے کہ مجھے بھی قلم کی زینت بناو اور ادبی جریدے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں کہ قرطاس کے گوشہ ء داماں کو الفاظ کے گوہر آ کر سجا دیں لیکن عشق بحر نعت سے گوہر نایاب کا متلاشی ہے اور حضورؐ کے معنبر پسینے کے خوشبو سے فیضِ خیر کا طالب ہے شعر کی نزاکت فصاحت کے قرینے سے کس طرح مملو ہے دیکھیے:۔

شہرِ نعتِ شہِ کونین میں ہوں میں جب سے
ڈھونڈتے رہتےہیں غزلوں کے رسالے مجھ کو
 جسمِ آقا کے پسینے کا بدل  نا ممکن
آپ دیتے رہیں خوشبو  کے حوالے مجھ کو

صبحِ درخشاں،فخرِ جہاں،نیرِ رخشاں، انجمِ تاباں ، ماہِ فیروزاں، نورِ بداماں، جلوہ ء ساماں، مونسِ دلِ شکستگاں، راحتِ قلوب عاشقاں، پشتِ پناہِ رفتگاں، موجبِ ناز عارفاں، فخرِ صادقاں پر جتنے بھی قلم اٹھیں جتنے بھی کاغذ درخشاں سینہ پھیلا کر توصیف مصطفیٰؐ کے لیے دست بستہ ہوں جائیں خامے تھک جائیں گے روشنائی کے سمندر بھی عالمِ تشنگی میں بلک پڑیں گے، کاغذ ختم ہو جائیں گے لیکن ثنائے دانشِ برہانی حضرت محمدؐ کی صفات، فضائل و خصائل مکمل نہیں لکھ پائیں گے کیونکہ اُس مظہرِ انوارِ حق کو کیسے بیاں کیا جا سکتا ہے جس کا عاشق خود اللہ رب العزت ہو۔ جس کے چہرے کی رب “والضحیٰ” کہہ کر قسم کھائے جس کی زلفوں کو ” والیل اذا سجیٰ” کی نوری قسم سے قرآن بیان کرے  شعر میں اس خیال کو ڈھالنا بہت جان جوکھوں کا کام ہے لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے کیونکہ مودت ہو تو لفظ توصیفِ رسولؐ کے لیے خود منتیں کرتے پھرتے ہیں جو لفظ نایاب ہوتے ہیں انہیں شاعر کا قلم بوسے دے کر قرطاس پر پھولوں کی طرح ایسے بکھیرتا ہے :۔

پھر تو لازم ہے تجھے تنگئِ داماں کا ملال
لکھنے بیٹھوں  جو کمالاتِ پیمبؐر، کاغذ
کیا عجب ہے جو لکھوں نامِ نبی ؐپڑھ کے درود
روشنائی  مہک اُٹّھے ہو منور،  کاغذ

شفیق رائے پوری کی اُسلوبیاتی صباحت ان کو سلاست، تنوع ،جدت و ندرت میں ممتاز کر کے ان کے قلم کو جولانیاں بخشتی ہے  جو  دوسرے شعرا کو تموج خیز  کرتی ہے۔  ہمارے حضورؐ جو شفیع امم ہیں ، منیرِ جود و کرم ہیں، شہریارِ حرم ہیں ، سحابِ کرم ہیں ، مہرِ کرم ییں ،گنجِ نعم ہیں بلکہ شاہِ امم ہیں کا سراپا بیان کرتے ہیں تو اس امید پر کہ یوم حشر ہم بھی آقاؐ پاک کا دیدار کر کے سرکار کو سنائیں گے توحضرت حسان ؓہمارے راہنما ہوں گے آنحضورؐ کا سراپا حسن و جمال میں اس لیے بھی یکتا بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کا سایہ نہیں تھا جو کہ تاریخِ انسانی میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے آپ سراجِ منیر ہیں جب آپؐ مجسم روح افزا و خوش ادا ہیں تو آپؐ کا ثانی کون ہو سکتا ہے یہی ادا سخن میں درد آشنائی، لذت آشنائی اور حقائق آشنائی کی خبرِ نور بن کر شعر میں یوں ڈھلتی ہے :۔

سامنے اس پیکر بے مثل کے سب ہیچ ہیں
غیر ممکن ہے نبیؐ کے جیسا پیکر دیکھنا
حشر کے میدان میں بھی اے شفیقِ خوش نوا
ہم   پڑھیں گے شان سے نعتِ پیمبؐر دیکھنا

آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ایمان کا حصہ ہے ماں باپ عظمتوں کی معراج ہوتے ہیں لیکن حضورؐ ماں باپ کی بھی معراج ہیں حضور پر زمانے قربان ہو جائیں تو بھی آپؐ کے ایک مبارک ناخن کی قیمت نہیں ہو سکتے  چاند بھی آپ کے در سے روشنی کی خیرات مانگتا نظر آتا ہے سورج آپ کے ریشمی تبسم سے کرنیں چراتا ہے جس سے زمین پر فصلیں پکتی ہیں۔ صحابہ کرامؓ جب آپ سے متکلم ہوتے تھے تو پہلے یہ لفظ کہتے کہ “میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ”  یہی آج کے مسلمانوں کے لیے ادائے خاص ہے جس کی پیروی کی جانی چاہیے  تاکہ جب حضورؐ کی ناموس کی بات ہو تو ماں باپ اور جان و مال سب قربان کر دیے جائیں یہی عشقِ رسولؐ سکھاتا ہے ۔ عشقِ رسولؐ سے نعت گوئی ملتی ہے اور نعت گوئی ہر کسی کا مقدر نہیں ہے یہ تو فیض رسولؐ ہے مقدر والوں کو ملتا ہے ان اشعار میں اسی اظہاریے کو ملاحظہ فرمائیے:۔

سرکار  ؐ پہ  ہو  جائے  فدا جان  مکمل
تب  جا  کر کہیں ہوتا ہے ایمان  مکمل
ہے   یہ   مِرے  سرکار   کا   فیضان مکمل
رکھتا ہوں ثنا خوانوں میں پہچان مکمل

میدان حشر کی حدت میں جہاں ” نفسی نفسی ” کی صدا ہو گی وہاں رحمت اللعالمین، مظہرِ اولین، حجت آخرین، آبروئے زمین، اکرم الاکرمین، مراد المشتاقین، شمس العارفین، محب الفقرا و الغربا، صادق و امین، مفسرِ قرآن مبین، رخشاں جبین، سلطانِ مبین، سید الثقلین جو مورث کمالاتِ آخرین ہیں اُن کی سجدہ ریز جبیں ہو گی اور کہہ رہے ہوں “امتی امتی ” تو رحمتِ خدا وندی جوش میں آئے گی تو امت کے کوہِ عصیاں ریزہ ریزہ ہوں گے غار حرا میں بہنے والے شگفتہ آنسو ہمارے گناہوں کو بہا کر لے جائیں گے ہم گناہ گار بخش دیے جائیں گے مقامِ محمود کے سلطانؐ ہمیں جہنم میں جاتا ہوا کب گوارا کریں گے بخشش کی سند عطا ہونے پر گناہگاروں کی کالی جبینیں پُر نور سحر کی طرح چمکیں گی فرشتے ان پر رشک کریں گے جنت کی حوریں ان پر فدا ہوں گی جب رحمت اللعالمین ؐ کو اختیار دے دیا جائے گا کہ اپنے خادموں کی شفاعت فرمائیے ۔کیا حسنِ شفاعت ہو گا ؟ کہ دوسری امتیں ترازو پر ہمیں سرخرو دیکھتی ہوں گی اور ہم ہیں کہ لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے جنت میں کوثر  و تسنیم کے مزے لیتے ہوں گے۔ کیا لطف کا عالم ہو گا ان اشعار میں شاعر کے خوب صورت اور رخشاں اظہار کے عکس ہائے جمیل سے نظریں سیراب کیجیے:۔

اُن  کی اُمت اور بن جائے جہنم کی غذا
کب مِرے سرکار کو ہوگا گوارا حشر میں
مجھ پہ جب ہوگی نبی کی چشمِ رحمت دیکھنا
کوہِ عصیاں کیسے ہوگا پارہ پارہ  حشر میں

رخِ انورِ مصطفیٰؐ کی تابانیوں سے گلوں کی پھبن، کلیوں کا بانکپن ،آفتاب سے پھوٹی ہوئی کرن، ماہتاب سے چھلکی ضیا، بلبل کا حسیں غل ، کوئل کی کو کو، حسین کہکشاوں کی ضو، دلآویز جھرنوں کا ترنم، گلرنگ برساتوں کا ریشمی تبسم اور ہر دلربا کی ادا حُسن و رعنائی کی خیرات مانگتی ہے اور جب یہ رعنائیاں در مصطفیٰ سے ضو کشید کرنے کے لیے حاضری نصیب ہوتی ہے تو دل کی دھڑکن رک جاتی ہے چراغِ عشق محمدؐ سے فصاحت و بلاغت کے چراغ جلتے ییں اور وہ نعت کی صورت میں کروڑوں دلوں کو منور کرتے ہیں۔ جب عاشق بھی رخِ انورؐ کو دیکھتے ہیں تو ان کی نظریں بھی نعلینِ پاک سے اوپر نہیں اٹھتیں کیونکہ رخِ انور کے جلوے کی تاب  آنکھوں کے بس میں کہاں۔

شفیق رائے پوری کے ان اشعار کی ضیا پاشی سے بصارت منور کیجیے :۔

بھول جائے ،   شہِ لولاکؐ !  دھڑکنا  در پر
اس  قدر  کیجئے   احسان  دلِ مضطر پر
روز ہم اُنکی عقیدت کے جلاتے ہیں چراغ
روشنی   ہوتی ہے  ہر روز  ہمارے گھر پر
تو نے دیکھا ہے انہیں شمس، بتا دے اتنا
کیا  کبھی ٹھہری نظر تیری رخِ انور  پر
شمس و قمر بھی   آگئے  خیرات   مانگنے  
جب   آمنہ  کے   گھر  رخِ انور چمک  اٹھا
گزرا  نبیؐ  کے  کوچۂِ عنبر  فشاں سے جو
مہکا  سراپا  ،  خاک   کا  پیکر چمک اٹھا

 جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

hubdar qaim

سیّد حبدار قائم

آف غریب وال، اٹک

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

جبار مرزا بنام نصرت بخاری

منگل اگست 31 , 2021
وہ بوڑھا لوہار تو 1975میں [رابطے] پر آیا تھا جب کہ شاہین پاکستان 1998میں آیا تھا۔گویا گوجرانوالہ کے لوہار اور شاہین میں 23۔برسوں کی دوری ہے
Jabbar Mirza

مزید دلچسپ تحریریں