دم توڑتی شاعری کا احیاء
آج میں ایک ایسی کتاب کے بارے میں اظہارِ خیال کر رہا ہوں جو کہ اٹک کے عظیم اور نامور شاعر اور ادیب حکیم تائب رضوی مرحوم کی پنجابی شاعری پر مبنی ہے۔ حکیم صاحب نے پنجابی کے ٹکسالی اور کیمبل پوری لہجے میں خُوبصُورت اور لاجواب شاعری کی ہے۔ حکیم تائب رضوی صاحب کیمبل پور کے ایک گاؤں شمس آباد کی ایک ڈھوک شاہ پور میں 24 جنوری 1931 میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل نامِ نامی سید عنایت علی تھا جبکہ قلمی نام حکیم تائب رضوی تھا۔ آپ کے والد کا اسم گرامی سید علی تھا۔ اور آپ کا گھرانہ علم و فضل میں علاقہ بھر میں منفرد مقام رکھتا تھا۔ حکیم صاحب کی پیدائش تو اٹک کی ہے مگر تعلیم لاہور میں مکمل کی۔ پرائمری کے بعد درسِ نظامی مکمل کیا اور 1955 میں ادیب فاضل اور 1956 میں حکمت کا امتحان پاس کیا۔ اور اس کے بعد کیمبل پور(آج کے اٹک) میں اپنا مطب بنایا۔ جلد ہی یہ مطب اٹک کے اہلِ علم و ادب کا مرکز بن گیا۔ حکیم صاحب کو موسیقی اور شاعری سے خاص شغف تھا۔
آپ کی پنجابی شاعری نے جلد ہی پورے پنجاب میں مقبولیت حاصل کر لی۔ مختلف اخبارات اور رسالوں میں چھپا۔ اُن کی بعض نظموں نے تو ملک گیر شہرت حاصل کی۔ حکیم تائب رضوی صاحب کی کچھ نظمیں اور غزلیں گا کر گائیکوں نے خُوب شہرت کمائی مگر افسوس کہ کسی نے اُن کے نام کے ساتھ نہیں گایا۔ مثلاً کیمبل پوری لہجے میں اُن کی نظم
آپڑاں گِراں ہووے۔۔۔ تُوتاں نی چھاں ہووے
وانڑے نی مَنجی ہووے۔ سِرے تلے بانہہ ہووے
آپڑاں گراں ہووے
عوامی سطح پر بے حد مقبول ہوئی اور ریڈیو پاکستان پر نشر ہوئی۔ اسی طرح اُن کی یہ نظم بعض لوگوں نے معمولی تبدیلی کے بعد اپنے نام سے منسوب کی اور جب گائی گئی تو بہت مقبول ہوئی۔
تیرا جیوے کیمبل پور کُڑیے
سِر چُک کے ڈولا لسی دا۔۔۔۔۔
نی اینج نئیں اَڑیے نَسّی دا ۔۔۔۔۔
ذرا ہولی ہولی ٹُر کُڑیے۔۔۔۔
اُنہوں نے انسانی نفسیات اور جذبوں، پنجاب کی ثقافت اور رہن سہن کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ اُن کی غزلوں، نظموں اور گیتوں میں ہجر کا درد، وصل کی خوشی، عشق بیتی اور ملن کی تڑپ پورے جذبات کے ساتھ ملتی ہے۔
تانگھ سجن دی ہر دم رہندی
دنیا میں نُوں کملی کہندی
طعنے دیندیاں نے مُٹیاراں
ماہی وے ہُنڑ موڑ مہاراں
حکیم صاحب کا کلام ادھر اُدھر بکھرا پڑا تھا۔ اُن کے نواسے آغا سید جہانگیر علی بُخاری صاحب نے اس کلام کو یکجا کیا۔ اور طویل کوشش کے بعد اپنے نانا کی اس خُوبصُورت شاعری کو کتابی شکل میں اشاعت آشنا کر کے حکیم تائب رضوی صاحب کے مداحوں کے لیے بہت بڑا کام کیا۔ رضوی صاحب کی وفات کے تقریباً 45 برس بعد اس اعلیٰ درجے کی شاعری کو گُم ہونے سے بچا لیا۔ اس کتاب میں رضوی صاحب کی 87 نظمیں،غزلیں،گیت اور دیگر اصناف شاعری شامل ہیں۔۔ کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے ہے مگر خصوصی رعایت پر دستیاب ہے۔اس کتاب کے لیے ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب نے ,, گیتاں دا ونجارا،، کے عنوان سے تائب رضوی مرحوم کی زندگی، خاندان اور شاعری کے حوالے سے خُوبصُورت ابتدائیہ تحریر کیا ہے۔ رضوی صاحب کے نواسے آغا سید جہانگیر علی بُخاری، سید زادہ سخاوت بُخاری اور طاہر اسیر نے بھی اپنی آراء لکھی ہیں۔ جمالیات پبلیکیشنز اٹک نے اس اعلیٰ معیار کی شاعری کو نہایت جمالیاتی انداز سے اشاعت آشنا کیا۔ اور اسے ,, تیرا جیوے کیمبل پور کُڑیے،، کا عنوان دیا گیا۔ ادب سے محبت رکھنے والوں کی لائبریری میں یہ کتاب یقیناً قابلِ قدر اضافہ ہو گی۔ کتابوں میں محفوظ ادب، ادیب اور ادب کے متلاشیوں کے لیے دائمی زندگی کا مُوجِب قرار پاتا ہے۔ بقول حکیم تائب رضوی مرحوم،
دید وچھوڑا، موت، حیاتی
دو گھڑیاں دے میلے
رُتّاں چُپ چپیتیاں لنگھن
واج نہ مارن ویلے
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |