رک گیا تھا قافلہ موجِ رواں تو نے کیا
دم الجھتا کارواں، فخرِ جہاں تو نے کیا
بت پرستوں نے ہماری زندگی کو ڈس لیا
تھی اجیرن زندگی ، زیر عِناں تو نے کیا
بربریت کی فضا میں گُھٹ رہی تھی زندگی
لا الہ کی موج سے سیلِ رواں تو نے کیا
جب جہاں میں بے نشاں تھی امتِ فخرِ رسل
نظریہ اجداد کا سب پر عیاں تو نے کیا
زندگی کو ریشمی دے کر تبسم کی ادا
ولولہ سب کے دلوں میں پھر جواں تو نے کیا
دم بخود تھی زندگی جس میں نہیں تھی نغمگی
زمزمے “حبدار” دے کر پھر رواں تو نے کیا
سید حبدار قائم آف غریبوال اٹک