سکینہؑ، باپ کے غم میں پگھلتی رہتی ہے
سکینہؑ، باپ کے غم میں پگھلتی رہتی ہے
حنائے خوں، کفِ صحرا پہ ملتی رہتی ہے
یہ بات سبطِ پیمبرؑ کو کَھلتی رہتی ہے
کہ خیمہ گاہ میں اب پیاس پلتی رہتی ہے
یہ خون، خونِ شہیداں ہے، رنگ لاتا ہے
یہ شاخ، شاخِ ثمرور ہے، پھلتی رہتی ہے
یہ سوز، سوزِ حسینی ہے، کم نہیں ہوتا
یہ شمع، شمعِ مودّت ہے، جلتی رہتی ہے
یہ سبط، سبطِ پیمبرؑ ہے، رُک نہیں سکتا
یہ تیغ، تیغِ علیؑ ہے، سو چلتی رہتی ہے
ہم اپنے ہاتھ اٹھاتے ہیں، جب بھی ماتم کو
یزیدیت، کفِ افسوس ملتی رہتی ہے
وُجوبِ کرب و بلا ہے، ازل سے تا بہ ابد
یہ ایک زندہ روایت ہے، چلتی رہتی ہے
میں جب بھی جاتا ہوں، اہلِ عزا کی مجلس میں
نئے سلام کی صورت نکلتی رہتی ہے
زرِ ملال کی پروا نہ کیجیے یاور!
کہ یہ زمین تو سونا اگلتی رہتی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |