مظلوم فلسطینیوں ہم سے امید مت رکھنا

مظلوم فلسطینیوں ہم سے امید مت رکھنا


ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا

اس وقت اگر دنیا میں کوئی خبر ہے تو وہ ایک ہی ہے مظلوم فلسطینیوں اور درندے اسرائیلیوں کے درمیان ہونے والی جنگ اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسئلہ فلسطین کتنا پرانا ہے اور اس کا آغاز کب ہوا یا حالیہ جنگ کس نے شروع کی اس میں حماس کی غلطی تھی یا نہیں اس نے طاقت کا اندازہ کیے بغیر ہی حملہ کر دیا اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا فلسطینی اس وقت زندگی گزار رہے ہیں اس سے تو موت کروڑوں درجے بہتر ہے ان کی اپنی زمین کا بھی 40 فیصد سے کم ان کے پاس رہ گیا ہے کچھ عرصہ قبل ناچیز نے ایک کالم لکھا تھا کہ آج دو قومی نظریہ جس میں یہ سوال اٹھایا کہ آخر سر سید احمد خان اور علامہ اقبال کے دماغ میں دو قومی نظریہ کیسے آگیا حاصل بحث یہ تھا کہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب قرآن کریم نے یہ وضاحت کی ہے کہ دنیا میں قومیں ہمیشہ سے ہی دو رہی ہیں ایک مسلمان اور ایک غیر مسلمان۔ اسی اصول کو بنیاد بنا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ اسلامی ملک حاصل کیا یہ الگ بات ہے کہ اسلام کے نام پر بنی ریاست میں آج اسلام نام کی کوئی چیز نہیں آج بھی اگر موجودہ حالات میں آپ دیکھیں عالم کفر سب یکجا ہیں تمام کے تمام اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہیں برطانیہ نے اپنے جہاز بھیج دیے ہیں امریکہ نے کہا ہے جب تک امریکہ ہے اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا فرانس نے بھی حمایت کا اعلان کیا تمام غیر ملکی کافر اقوام ہیں وہ اسرائیل کی حمایت کے لیے کھڑے ہیں جبکہ کہنے کے لیے 57 اسلامی ملک اور سوا ارب مسلمانوں کے حکمران صرف ابھی تک یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم فلسطین کی حمایت کریں یا صرف جنگ بندی کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھیں مسلمان کبھی بھی تنگ نظر نہیں ہوتا سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہوتے ہیں اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا بھی اس کو محسوس کرتا ہے جبکہ یہاں فلسطینی خون سے نہائے جا رہے ہیں اور تمام اسلامی ممالک کے حکمران سوئے پڑھے ہیں فلسطینی مظلوموں پاکستان سے بہت امید تھی کیونکہ دنیا کی واحد اسلامی قوت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک اسلامی قوت ضرور ہے۔ لیکن ہم ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں اب لبرل تائید کریں گے کہ واقعی پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ یہاں کے اپنے لوگوں کی زندگی اجیرن ہے بنیادی ضروریات کی بھی کمی ہے لیکن یہ وجہ نہیں کہ ہم مظلوم فلسطینیوں کی مدد نہیں کر سکتے مسلمان کبھی بھی معاشی حالات پر منحصر نہیں ہوتا اگر اسلام کے ابتدائی دور کو دیکھیں اس وقت بھی مسلمانوں کے پاس لڑنے کے لیے اسلحہ اور سواری جیسی بنیادی ضروریات بھی نہیں ہوتی تھی پھر بھی اس وقت کی سپر پاورز کو للکارا اور ان کا غرور خاک میں ملایا عرب سے اسلام کو پوری دنیا میں پہنچایا اول مسلہ مضبوط قیادت کا ہے۔
پاکستان اس وقت حقیقی قیادت سے محروم ہے جو برائے نام کی قیادت موجود ہے وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے در پہ ہے ۔ عالم اسلام میں کیا ہو رہا ہے مظلوم فلسطینی مر رہے ہیں ہماری خود ساختہ قیادت کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ ۔ انفرادی طور ہر مسلمان اور پاکستانی کا دل فلسطین کے ساتھ دھڑکتا ہے وہ فلسطین پہ ہونے والے ظلم کے خلاف ہے لیکن اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے کچھ کر نہیں سکتا حقیقت میں اگر پاکستانی چاہیں متحد ہو جائیں کیونکہ قیادت کے سر پہ سینگ نہیں ہوتے وہ صرف عوام کو ایک راستہ دکھاتے ہیں اگر اج بھی پاکستان کے 25 کروڑ عوام اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں تو یہ بہت مفید ثابت ہوگا اور اجتماعی طور پر اگر ہم اپنی آواز اٹھائیں جس میں کسی پارٹی کی انفرادیت نہ ہو نہ ہی پارٹی کے جھنڈے نہ ہوں، کسی تنظیم کا ذکر نہ ہو صرف مسلمان ہو اور مظلوم فلسطینیوں کے لیے دل سے مخلص ہو کر باہر نکلے آواز اٹھائیں دنیا کو بتائیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں اور آخر میں ہم سب کو مخلص ہو کر فلسطین کے لیے دعا کرنی ہے کم سے کم بے حسی کے معیار سے تو اوپر رہیں اللہ غیب سے فلسطین کی مدد فرمائے اور عالم کفر کو عبرت ناک شکست دیں اور ہمیں حضرت عمرؓ جیسا نہیں ، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جیسا بھی نہیں ہم ازکم صلاح الدین ایوبیؒ جیسا حکمران عطا فرمائے جس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا بیت المقدس کو کافروں سے آزاد کروانا اور اس نے کروا کے ہی دم لیا۔

Title Image by hosny salah from Pixabay

تحریریں

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

العین کا "بک فیئر" اور "بھوت بنگلہ"

پیر نومبر 20 , 2023
یہ مرگھام نامی جگہ تھی اور ہم سنگل روڈ پر سفر کر رہے تھے، ادھر ادھر اندھیرا تھا، کہیں کہیں روڈ کے دونوں جانب بڑے بڑے بنگلے نظر آتے تھے
العین کا “بک فیئر” اور “بھوت بنگلہ”

مزید دلچسپ تحریریں