العین کا “بک فیئر” اور “بھوت بنگلہ”
علم اور طاقت کو کتابوں میں ڈھونڈنے کا آج ایک اور مصروف ترین دن گزرا۔سرمد خان صاحب نے صبح گیارہ بجے فون کیا اور حکم دیا کہ تیار ہو جائیں العین کے “بک فیئر” پر جانا ہے۔ میں کچھ مصروفیت کی وجہ سے کنی کترانا چاہتا تھا، اور انہیں بتایا کہ میں تھوڑی دیر میں آگاہ کرتا ہوں۔ لیکن آدھے گھنٹے کے بعد وٹس ایپ دیکھا تو میسج آیا تھا کہ “ہم باہر کھڑے ہیں”۔ سرمد خان صاحب خود ایک پیچیدہ ترین کتاب ہیں۔ میرے اور سرمد صاحب کے تعلق کو کم و بیش 6ماہ ہو گئے ہیں، میں انہیں جتنی بار ملا ہوں مجھ پر ہر دفعہ ان کی شخصیت کی ایک نئی پرت کھلتی ہے۔ طاہر بندیشہ صاحب گاڑی چلا رہے تھے اور سرمد خان صاحب فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے۔ گزشتہ رات ایک خصوصی اسائنمنٹ کی وجہ سے میں صرف 2گھنٹے سویا تھا، پھر اتوار کی وجہ سے لڑکوں نے مجھے ویسے بھی بہت جلدی جگا دیا تھا۔ جب عقبی نشت پر مجھے اکیلے بیٹھنے کا موقعہ ملا تو میں نے آلتی پالتی مار کر کچھ دیر آرام کرنے کی کوشش کی۔ ہم بہت جلد اومان اور العین جانے والی ہتہ روڑ پر فراٹے بھر رہے تھے۔ میں کچھ دیر اونگھتا رہا مگر سرمد خان صاحب کو پڑھنے کے میرے شوق نے مجھے سونے نہیں دیا۔ غور سے بات کرنے اور سننے سے بھی کئی کتابوں جتنا علم حاصل ہوتا ہے۔ ہم گپ شپ لگاتے لگاتے ایک بجے العین سکوئیر میں لگے “بک فیئر” پر پہنچ گئے۔
ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بک فیئر کھلا تھا مگر وہاں کوئی وزٹر تھا اور نہ ہی کسی بک سٹال پر کوئی سیل مین تھا۔ ہم نے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں پورا کتاب میلہ چھان مارا۔ اس کتاب میلے میں صرف لوکل پبلشرز، کتاب فروشوں، لائبریریوں اور لکھاریوں وغیرہ کی شرکت کو ممکن بنایا گیا تھا۔ اس کے باوجود چند بک سٹالز پر عالمی معیار کی کتب دیکھنے کو ملیں۔ چند بک سٹال لگانے والوں میں “ٹرینڈز ریسرچ اینڈ ایڈوائزری”، “عرب بیورو آف پبلیکیشن”، “نیشنل لائبریری اینڈ آرکائیوز”، “ابوظہبی یونیورسٹی” اور “القاسمی پبلیکیشنز” وغیرہ سرفہرست ہیں۔ ایک بک سٹال پر 80سالہ امریکی صدر جوبائڈن پر لکھی انگریزی زبان کی کتاب دیکھی جس کا عربی ترجمہ بھی موجود تھا۔ اس کے علاوہ آرٹیفیشئل انٹیلیجنس، ادب، مزہب، آرٹ اور سیاست کے موضوع پر کتابیں دیکھنے کو ملیں۔ یہاں عربی اور انگریزی زبان میں اخوان المسلمین، سلطان صلاح الدین ایوبی اور الف لیلوی داستانوں وغیرہ جیسی کتابیں تو نظر آئیں مگر بسیار کوشش کے باوجود مجھے سائنس پر کوئی کتاب نہیں ملی۔ شارجہ بک فیئر کے مقابلے میں یہاں مجھے “بک کیبنز” بہت پسند آئے جو ہارڈ بورڈ اور لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ ماحول انتہائی صاف ستھرا تھا۔ چونکہ میلے میں رش نہیں تھا تو ہم نے بہت سارے بک سٹالز پر کتابوں کی ورق گردانی بھی کی اور جی بھر کر فوٹو گرافی بھی کی۔ جب ہم نے سیکورٹی گارڈ سے سٹالز پر سیلزمینوں کی عدم موجودگی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ ایک بجے سے لے کر پانچ بجے تک “بریک” ہے۔ لھذا کسی بھی سیلز مین کا کاونٹر پر بیٹھنا غیر قانونی ہے۔”الوفٹ” فور سٹار ہوٹل کے بلکل سامنے بہت خوبصورت
“ھزاں بن زاید” فٹ بال سٹیڈیم تھا، ہم اسے دیکھنے اور تصاویر بنانے کے لئے اس کے اندر چلے گئے۔ سٹیڈیم کی بلڈنگ کے اندر ہی سیکنڈ فلور پر صحافیوں کا فورم تھا۔ شارجہ بک فیئر میں “اردو بکس ورلڈ” کی شرکت کے بعد یہاں وزٹ کرنے کا ایک بنیادی مقصد پاکستان کی طرف سے اردو بکس کی نمائندگی کرنے کے لئے معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ لیکن چونکہ یہ لوکل کتاب میلہ تھا اس لیئے ہمارا یہ مقصد تو پورا نہ ہوا مگر ساتھ ہی دوسری بلڈنگ میں موجود کتاب میلے کی انتظامیہ نے بتایا کہ ہم دیگر شہروں میں لگنے والے کتاب میلوں میں کیسے “مفت” شرکت کر سکتے ہیں اور 4ہزار درہم تک کی “سبسڈی” بھی لے سکتے ہیں۔
شام چار بجے کتاب میلہ بھرنا شروع ہو گیا اور ہم نے دیکھا کہ عربی فیملیاں بچوں سمیت جوق در جوق میلے میں داخل ہو رہی ہیں۔ ایک جگہ ہم نے کالے رنگ کا بنا ہوا ایک کمرہ دیکھا جس کو آپ “بلیک ہاوس” کہہ سکتے ہیں۔ اس کے اندر اور باہر کی دیواریں گہرے سیاہ رنگ کی تھیں، اس کے دو دروازے تھے ایک داخلی اور ایک خارجی، ان دونوں دروازوں پر پردے لگے تھے، اور ان کا رنگ بھی گہرا ڈارک بلیک تھا۔ اس کمرے کے اندر پرتجسس قسم کے دو قطاروں میں لگے چبوترے تھے جن کے درمیان پیدل گزرنے کا راستہ تھا۔ ان چبوتروں پر عجیب و غریب غریب قسم کے سفید رنگ کے مجسمے رکھے تھے۔ اس کمرے کے باہر عربی زبان میں لکھا تھا جس کا ترجمہ ہے، “بارش کا موسم” اس کمرے کے بارے میں کافی لوکلز سے بھی پوچھا مگر انہوں نے بھی کچھ نہیں بتایا، اور صرف یہ کہا کہ یہ کوئی “روایتی” چیز ہے۔ میں اس کمرے سے دو بار گزرا اور مجھ پر عجیب و غریب سی کیفیت طاری ہو گئی۔ سرمد خان نے کہا، “یہ بھوت بنگلہ” ہے۔ اسی دوران ہم اس کمرے کے سامنے ایک بک سٹال کی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور میں یونہی سوچنے لگا:
You never know in such situations, where to go and what to do? Just think about it when you are alone. Which bridge to burn and which bridge to cross.
شائد ہماری زندگی بھی ایک تاریک کمرہ ہے جس کے اندر اور باہر تاریکی ہے، اور اس میں کچھ روشنی کے چبوترے ہیں، ہم انہی چبوتروں کے درمیان کسی ایک “موڑ” (Cross Road) پر کھڑے ہیں اور ہمیں کسی ایک دروازے سے نکلنے کا فیصلہ کرنا ہے۔
ہم نے واقعی زندگی میں ایک ہی راستہ چننا ہوتا ہے، تاریکی کا یا روشنی کا!
شام پانچ بجے کے قریب عربی لباس میں ملبوس مقامی لوگوں کا ایک گروہ میلے کے وسط میں ایک چھوٹے سے پارک میں اکٹھا ہونا شروع ہو گیا جنہوں نے ہاتھوں میں طبلے، تمبورے، ڈفیں اور چھڑیاں وغیرہ اٹھا رکھی تھیں۔ بندیشہ صاحب کو عربی آتی ہے۔ ہم نے بعض کے ساتھ گپ شپ لگانا شروع کر دی۔ ہم نے ان کے ساتھ سیلفیاں بنائیں۔ کچھ دیر بعد اس گروپ نے تین قطاروں میں کھڑے ہو کر اور ہلکا پھلکا ڈانس کرتے ہوئے ایک عربی گیت گانا شروع کر دیا۔ یہ کتاب میلے کا بہترین لمحہ تھا۔ یہ عرب کلچر کا کوئی روایتی گیت تھا۔ ان عربوں کی آواز اتنی معصوم، سادہ اور سریلی تھی کہ ہم پر ایک سا وجد طاری ہونے لگا۔ میں پرانی موسیقی بہت پسند کرتا ہوں۔ مجھ پر ایک پراسرار سی کیفیت طاری ہو گئی جو بعد میں ایک خوشگوار حیرت میں بدل گئی کہ میں ایسی کیفیت میں عموما تخلیقی قسم کے خیالات محسوس کرتا ہوں۔ شام 6بجے واپسی کے لئے جب ہم دوبارہ ہتہ روڈ پر چڑھے تو سرمد خان صاحب نے طاہر بندیشہ صاحب کو ایک انجان روڈ پر یہ کہہ کر چڑھنے کو کہا کہ انہوں نے ایک جگہ ایک “سائن بورڈ” کی تصویر اتارنی ہے۔ یہ مرگھام نامی جگہ تھی اور ہم سنگل روڈ پر سفر کر رہے تھے، ادھر ادھر اندھیرا تھا، کہیں کہیں روڈ کے دونوں جانب بڑے بڑے بنگلے نظر آتے تھے۔ ایک جگہ “ڈیزرٹ سفاری” کا ایک جگمگاتا کیمپ بھی نظر آیا۔ 20منٹ کی مسافت کے بعد ہم ایک یوٹرن لے کر دوبارہ ہتہ روڈ پر چڑھ گئے۔ دس پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہم مدام روڈ پر قصبہ “لہباب” پہچ گئے جہاں “ہائیزین فرائڈ چکن ریسٹورنٹ اینڈ کیفٹیریا”، پر ہم نے کھانے کا آرڈر کیا۔ اس ریسٹورنٹ کا مالک پاکستان گجرات سے تعلق رکھنے والا 21سالہ لڑکا شاہ زیب احمد تھا جس نے یہ ریسٹورنٹ 2ماہ قبل کھولا تھا۔ سرمد خان کی اس لڑکے سے پہلے کی جان پہچان تھی۔ شاہ زیب نے بتایا کہ اس نے ایک سال کسی ریسٹورنٹ میں “ویٹر” کا کام کیا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ اپنا کاروبار شروع کرے، اس نے مکمل کام سیکھا، جانچ پڑتال کی اور پھر یہ ریسٹورنٹ کھول لیا جو بہت اچھا بزنس کر رہا تھا۔
میں نے شاہ زیب سے پوچھا آپکی کامیابی کا کیا راز ہے تو اس نے بتایا کہ وہ محنت کرتا ہے اور گاہکوں کو ڈیل کرنے کے لئے پورا وقت خود وہاں موجود رہتا ہے۔ شاہ زیب ہمارا کھانا تیار کروانے چلا گیا۔ میں نے سرمد خان صاحب سے پوچھا آپ اسے کیسے جانتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس کیفٹیریا کے بارے میں ایک وٹس ایپ گروپ میں ایک اشتہار پڑھا تھا۔ اس کیفٹیریا کے مالک کا اخلاق بے مثال تھا۔ اس کیفٹیریا کے سامنے سڑک پار شرطہ خانہ تھا، اسے لہباب، شارجہ اور عجمان سے آن لائن آرڈر بھی آتے تھے۔
کاروبار میں کامیابی کا راز کام سے لگن اور اخلاص ہے۔ سرمد کھانا صاحب نے بل ادا کیا اور لڑکے سے کہا اگلے ہفتے ہم سب دوست دو تین گاڑیوں میں آپکے ریسٹورنٹ پر ناشتہ کرنے آئیں گے۔ لڑکے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور ہم دبئی جانے کے لئے دوبارہ ہتہ روڑ پر چڑھ گئے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔