ایٹمی جنگ اور اس کے مابعد مہلک اثرات
انڈین مفکر ارون دھتی رائے کہتی ہیں کہ پہلے دور میں جنگیں لڑنے کے لیئے ہتھیار بنائے جاتے تھے اور اب ہتھیار بیچنے کے لیئے جنگیں تخلیق کی جاتی ہیں۔ مئی 2025ء کی پاک بھارت جنگ کے پس و پیش کا باریک بینی پر مبنی جائزہ بتاتا ہے کہ اس جنگ کو بھی اسلحہ بیچنے کے لیئے دونوں ملکوں پر مسلط کیا گیا۔ پنجابی محاورے کی طرح شائد پاکستان اور بھارت تو امن و شانتی سے بستے رہتے مگر اسلحہ فروش اچکے انہیں بسنے نہیں دے رہے ہیں۔ ہمارے نصاب میں لکھا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر جھگڑے کی جڑ (Bone Of Contention) ہے۔ تقسیم ہند 1947ء کے وقت برطانوی سامراج نے مسئلہ کشمیر کو استصواب رائے کے لیئے چھوڑا تھا مگر بھارت نے سری نگر میں فوجیں اتار کر کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ پاک بھارت 1948ء کی پہلی جنگ کی وجہ بھی "مسئلہ کشمیر” تھا، اور بعد کی تمام جنگیں بشمول 7مئی تا 10مئی کی حالیہ جنگ بھی مقبوضہ کشمیر (پہلگام) میں دہشت گردی اور بھارت کے پاکستان (بہاولپور) پر حملے کے باعث ہوئی۔ اس 3روزہ مختصر جنگ کے بعد نہ صرف پاکستان اور انڈیا کے درمیان اسلحہ خریدنے کی نئی دوڑ لگ گئی ہے، بلکہ مشرق وسطی کے ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے بھی امریکہ سے اسلحہ خریدنے کے تاریخ ساز معاہدے کیئے ہیں۔
ایک جنگی مقولہ ہے کہ امن قائم کرنے کے لیئے طاقت کا توازن (Balance of Power) قائم کرنا ناگزیر ہے۔ پاک بھارت کی اس جنگ میں یہ فلسفہ غلط ثابت ہو گیا ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان روایتی جنگ نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ ایٹم بم ایک رکاوٹ (Deterrent) کے طور پر کام کرتا ہے۔ اب اگر پاکستان اور بھارت وقت کے کسی موڑ پر دوبارہ روایتی جنگ میں الجھتے ہیں تو کسی ملک (پاکستان یا انڈیا) سے ایٹمی ہتھیار استعمال ہو جانا بعید از قیاس نہیں رہا ہے۔ پاک بھارت موجودہ جنگ کے بعد یہ خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ جنگ کے دوران بھارت اور پاکستان کی دو جگہوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے اثرات محسوس کیئے گئے ہیں۔
بھارتی پنجاب کے براموس میزائل ڈپو پر خطرناک ریڈی ایشن (Radiation) کو رپورٹ کیا گیا، جبکہ پاکستان سرگودھا میں کیرانہ کی پہاڑیوں کے گردونواح میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے پیدا ہونے والے اسی طرح کے اثرات کو نمایاں کوریج دی گئی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بعد "حالیہ تناو”، جنگ بندی (Cease Fire) کے باوجود دونوں ممالک کی طرف سے اسلحہ خریداری کی بناء پر کم نہیں ہوا بلکہ مزید بڑھا ہے، جس وجہ سے ساوتھ ایشیاء میں نیوکلیئر سیفٹی (Nuclear Safety) کے حوالے سے دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ پاک بھارت جنگ گو کہ بڑے دورانیہ کی نہیں تھی مگر اس کے علاقائی، سیکورٹی اور ماحولیاتی اثرات کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ جب بھارت نے پاکستان کے سٹریٹیجک ایٹمی اثاثے رکھنے والے مقام پر حملہ کیا تو میڈیا پر کیمیائی اخراج اور اثرات کے پھیلاو’ کی چہ می گوئیاں ہوئیں۔ اس حوالے سے اطلاعات میں اس وقت شدت دیکھنے میں آئی جب سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ پاکستان کے اس علاقے میں ایک امریکی اٹامک ایمرجنسی ایئرکرافٹ کو اڑتے دیکھا گیا تھا، حالانکہ پاکستان نے اس خبر کی سختی سے تردید کی تھی، جبکہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے تصدیق کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ پاکستان کے کسی علاقے میں کیمیائی ریڈی ایشن (Radiation) نہیں ہوئی ہے۔ اس مد میں انڈیا کو بھی بیان جاری کرنا پڑا کہ اس نے پاکستان کے کسی نیوکلیائی ہتھیار رکھنے والے ٹھکانے پر حملہ نہیں کیا تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی ایک وضاحتی بیانیہ جاری کیا کہ اس قسم کی منفی افواہ (Disinformation) پاکستان کو بدنام کرنے کے لیئے بھارتی میڈیا نے پھیلائی ہے۔ اس نوع کے معمولی کیمیائی اخراج کے اثرات بھی انتہائی مہلک ہوتے ہیں جس کا احاطہ ہوا کے رخ میں 2000 کلومیٹر کی دوری تک ہو سکتا ہے۔ خدا ناخواستہ اس قسم کے ایٹمی اثرات ماحول میں پھیل جائیں اور پلوٹونیم 239، آئیوڈین 131 اور سیسئیم 137 کے ریڈیو ایکٹو آئزوٹوپس (Radioactive Isotopes) بننے لگیں تو یہ انسانوں میں کینسر، اغضاء کی بندش اور اموات کا باعث بنیں گے۔ جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ جہاں یہ کیمیائی اخراج ظاہر ہو گا وہاں کی زمین ایک مدت تک فصلیں اگانے سے بھی قاصر ہو جائے گی۔
ان خبروں اور افواہوں کے دوران جنہیں خود بھارتی میڈیا نے پھیلایا تھا، انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے مطالبہ کیا کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی جانچ پڑتال کرے۔ بھارتی وزیر دفاع کے اس بیان سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی، فوجی اور جنگی عدم اعتماد کی خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔ بھارت کی اس بدنیتی کے ہولناک اثرات ساوتھ ایشیاء کے علاوہ انسانی بداعتمادی، معیشت اور ماحولیات کے اعتبار سے عالمی سطح پر بھی نمایاں ہوں گے۔
بھارت میں امکانی طور پر ظاہر ہونے والے ایٹمی ہتھیاروں کے اس اخراج (Radiation) کی جھوٹی خبر بنیادی طور پر بھارتی براموس (BrahMos) میزائل ٹھکانے پر پاکستان کے ہوائی حملے کے بعد پھیلائی گئی جس کے تحت انڈیا کے اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ (AERB) نے آن لائن دعوی کیا کہ اس حملے سے بھارت کے ان علاقوں میں کیمیائی اخراج ہوا ہے کیونکہ وہاں کچھ کیمیائی ہتھیار چلائے گئے تھے جس کے بعد انڈیا کے ان علاقوں کو عوام سے خالی بھی کروایا گیا تھا اور انہیں اس سے بچاؤ کے لیئے احتیاطی تجاویز بھی دی گئیں تھیں۔ لیکن بعد میں بھارتی سرکار اپنے ان بیانات سے مکر گئی اور ان خبروں کی سرکاری طور پر تردید کر دی۔
تاہم اس واقعہ سے عالمی سطح پر اس بات کی کھل کر تصدیق ہو گئی ہے کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان اگر روایتی ہتھیاروں سے بھی جنگ ہوتی ہے تو وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے کتنی قریب پہنچ جاتی ہے جس سے پوری دنیا تباہی کے کنارے پر آن کھڑی ہوتی ہے۔ جنگ عظیم دوم میں جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر پانچ کلو وزنی ایٹم بم استعمال کیئے گئے تھے جس سے پہلے ہی دن لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جبکہ پاکستان اور انڈیا کے پاس ان ایٹم بموں سے دس گنا زیادہ وزنی اور مہلک ایٹم بم موجود ہیں۔ ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کا کچھ حفاظتی پروٹوکول اور کرسٹل قسم کی شفافیت ہوتی ہے، جو پاک انڈیا کی موجودہ جنگ میں بگڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے، جسے دوبارہ قائم نہ گیا گیا تو کچھ بعید نہیں کہ دو ہمسایہ اٹامک پاورز امکانی طور پر تباہی کے کنارے پر ہیں۔ اس سے غربت کے ستائے ہوئے یہ دونوں ملک تو تباہ ہوں گے، مگر اس کے ساتھ باقی دنیا کی بقا اور امن بھی شدید خطرے میں پڑ جائے گا۔
اگر اسلحہ کی فروخت کے لیئے جنگیں ہی تخلیق کرنی ہیں تو اب وقت ہے کہ تخفیف اسلحہ کے لیئے دنیا کو آگاہی فراہم کی جائے۔ خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان چوبیس گھنٹے کے ایسے فوری باہمی روابط ہونے چایئے جس سے آئیندہ روایتی جنگ کا بھی امکان پیدا نہ ہو سکے۔ لھذا ایٹمی جنگ ہونے کے امکان کو امن کے دنوں میں یاد رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس قسم کی فوجی چالوں کو دنیا اب قبول کرنے کے لیئے تیار نہیں ہے۔ اس کا ذمہ دار بھارت یا پاکستان، جو بھی ملک ہو اس کا دیگر ممالک کو مل کر محاسبہ کرنا چایئے تاکہ دنیا کو ایٹمی جنگ سے محفوظ، امن کا گہوارہ بنایا جا سکے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |