مثالی استاد
تحریر محمد ذیشان بٹ
دنیا میں اگر کوئی سب سے مشکل کام چننا ہو تو وہ استاد کو "پڑھانا” ہوگا۔ یہ بات شاید سننے میں عجیب لگے، مگر سچ یہی ہے کہ جو شخص دوسروں کو سکھانے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہو، اسے خود سیکھنے کے عمل میں رکھنا، اسے بہتر بنانے کی کوشش کرنا، اور اس کے اندر نیا جذبہ پیدا کرنا ایک نہایت مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ استاد محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے، اور اس طرزِ زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا کسی کارنامے سے کم نہیں۔
یہی بیڑا حال ہی میں ڈی پی ایس کالج راولپنڈی کی پرنسپل، ہماری ہر دل عزیز محترمہ ثمینہ خان نے اٹھایا۔ وہ نہ صرف ایک تجربہ کار ماہر تعلیم ہیں بلکہ پاکستان اور بیرونِ ملک تعلیم کے میدان میں دو دہائیوں سے زائد خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کے اندازِ تعلیم، گفتگو کا سلیقہ اور تربیت کا انداز ہمیشہ سے مثالی رہا ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور سیدھی دل میں اترتی ہے۔
حال ہی میں انہوں نے کالج کے تمام اساتذہ کے لیے ایک خصوصی ٹریننگ سیشن کا انعقاد کیا۔ اس سیشن کی سب سے بڑی خوبی اس کا "منفرد” ہونا تھا۔ ایسا سیشن جس میں نہ کوئی بوریت تھی، نہ روایتی لیکچر بازی، بلکہ ابتداء ہی میں انہوں نے دلچسپ مائنڈ گیمز کے ذریعے سب کو ذہنی طور پر بیدار کر دیا۔ ایسی گیمز جنہوں نے صرف ذہن کو ہی نہیں، دل کو بھی متحرک کیا اور حاضرین کو یہ احساس دلایا کہ کچھ نیا سیکھنے جا رہے ہیں۔
اس سیشن کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے حصے میں جس موضوع پر گفتگو ہوئی وہ کچھ ایسا تھا جسے عموماً تربیت کے ان سیشنز میں کم ہی چھیڑا جاتا ہے، یعنی "استاد کی صحت”۔ جی ہاں! یہ ایک حیران کن مگر انتہائی اہم پہلو ہے جسے نظرانداز کیا جانا کسی سانحے سے کم نہیں۔ میڈم ثمینہ خان نے زور دے کر فرمایا کہ ایک مثالی استاد کا جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہونا نہایت ضروری ہے۔ اگر استاد خود بیمار ہو، ذہنی دباؤ کا شکار ہو یا تھکن سے چُور ہو تو وہ طالب علموں کو کیا خاک زندگی کے اصول سکھائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک استاد کے لیے کم از کم سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند نہایت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نیند کو فضول خرچی سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ انسانی جسم اور دماغ کی مرمت کا وقت ہوتا ہے۔ اچھی نیند کے ساتھ متوازن غذا بھی لازمی ہے۔ استاد کو اپنی خوراک میں وہ تمام عناصر شامل کرنے چاہئیں جو توانائی بخش ہوں، تاکہ وہ پورے دن کی تدریسی سرگرمیوں کو خوش دلی سے نبھا سکے۔ باقاعدہ ورزش بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روزانہ بیس منٹ کی تیز چہل قدمی یا ہلکی پھلکی ورزش ایک استاد کو تازہ دم رکھتی ہے۔
ذہنی صحت پر بات کرتے ہوئے میڈم نے کچھ ایسے مشورے دیے جو سادہ مگر انمول تھے۔ مثلاً یہ کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو منانا سیکھیں۔ کسی طالب علم کی کامیابی پر مسکرانا، چائے کے وقفے میں کسی دوست کے ساتھ دل لگا کر بات کرنا، دفتر میں کسی ساتھی کی مدد کرنا، یہ سب چھوٹی خوشیاں انسان کے اندر کی الجھنیں سلجھا دیتی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ منفی سوچوں، منفی لوگوں اور مایوسی کی فضا سے خود کو دور رکھیں۔ سب سے اہم بات جو انہوں نے کہی وہ یہ تھی کہ: "دوسروں کی مدد کیجئے، اس سے آپ کو حقیقی خوشی ملے گی۔ اور یاد رکھیے، ہمارا شعبہ پیغمبرانہ ہے، اور یہی اعزاز ہمارے لیے کافی ہے کہ ہمارے محبوب نبی ﷺ نے اپنا تعارف معلم کے طور پر کرایا۔”
سیشن کا ماحول سنجیدہ ضرور تھا، مگر اس میں ہنسی مزاح کے پہلو بھی تھے جو شرکاء کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔ ایسی خوشگوار فضا میں سیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ کوئی خشک تربیتی نشست نہیں تھی بلکہ ایک زندہ دل اجتماع تھا جہاں استاد نے استاد کو سمجھایا، سنوارا اور جگایا۔
سیشن کے دوسرے حصے میں بات ہوئی "کلاس روم مینجمنٹ” پر، جو موجودہ دور میں سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں بارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں کو پڑھانا ایک فن سے کم نہیں۔ بچے ذہین ہو چکے ہیں، معلومات سے بھرے ہوئے ہیں، مگر توجہ کی کمی کا شکار ہیں۔ ایسے میں محض اچھا لیکچر دینا کافی نہیں، استاد کو چاہیے کہ وہ بچے کا "دل” جیتے، اس کے ذہن کو چھوئے، اور اسے اس انداز سے متاثر کرے کہ وہ سننا چاہے، سمجھنا چاہے۔
میڈم ثمینہ خان نے کہا کہ مثالی استاد سب سے پہلے خود کو قابلِ احترام بناتا ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک کشش ہوتی ہے، ایک جاذبیت جو طلبہ کو خود بخود کھینچتی ہے۔ اگر استاد جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہو تو وہ طلبہ کی تربیت میں زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے، ان کی نفسیات کو سمجھ سکتا ہے، اور ان کی صلاحیتوں کو پہچان کر نکھار سکتا ہے۔
ایک مثالی استاد کی کلاس روم میں اصول واضح ہوتے ہیں۔ وہ صرف نصاب ختم کرنے کا مشن لے کر نہیں آتا بلکہ اس کا ویژن بڑا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بچے کو سلیبس کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی سکھانا ہے۔ وقت کی پابندی، ایمانداری، باہمی احترام، سوال پوچھنے کی ہمت، تنقیدی سوچ، یہ سب وہ اوزار ہیں جو ایک استاد اپنی کلاس روم میں طلبہ کو دیتا ہے۔
میڈم نے ایک اور اہم نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ مثالی استاد کا کام محض علم دینا نہیں بلکہ کردار سازی بھی ہے۔ اور کردار سازی کے لیے سب سے مؤثر ذریعہ استاد کا اپنا کردار ہوتا ہے۔ طلبہ کتابیں تو سال کے آخر میں بھول جاتے ہیں، مگر استاد کا لہجہ، اس کی شفقت، اس کی ڈانٹ، اس کا اندازِ بات، یہ ساری چیزیں عمر بھر یاد رہتی ہیں۔ لہٰذا استاد کو خود اپنے رویے، الفاظ اور انداز پر مسلسل کام کرتے رہنا چاہیے۔
آخر میں میڈم ثمینہ خان نے دعا کے انداز میں کہا: "دعا ہے کہ مجھ سمیت آپ سب اس مثالی استاد کا کردار ادا کریں، جو صرف بچوں کو نہیں بلکہ ایک پورے معاشرے کو بہتر بناتا ہے۔ جو صرف علم نہیں دیتا بلکہ تہذیب سکھاتا ہے۔ جو صرف سبق نہیں پڑھاتا بلکہ زندگی جینا سکھاتا ہے۔”
یہ سیشن محض ایک تربیتی اجلاس نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا لمحہ تھا جہاں ایک استاد نے دوسرے اساتذہ کو ان کی اصل عظمت کا احساس دلایا۔ وہ عظمت جو کسی کتاب کے صفحے پر نہیں لکھی جا سکتی، جو صرف کردار، اخلاص اور محبت سے جنم لیتی ہے۔ اور یہی تو مثالی استاد کی اصل پہچان ہے۔
Title Image by Gerd Altmann from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |