چیمپئنز وینس اور سرینا کا عظیم باپ
کہتے ہیں کہ خواب سچے ہوں تو ضرور پورے ہوتے ہیں۔ امریکی سیاہ فام رچرڈ نامی شخص نے اپنے ایک طاقتور خواب کے ذریعے ٹینس کی دو ورلڈ چیمپئن بیٹیوں کو جنم دیا۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیئے اس نے نہ صرف دن رات محنت کی بلکہ اسے اس وقت تک اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا جب تک کہ یہ خواب پورا نہیں ہو گیا۔ اس نے یہ خواب سنہ 1980ء میں اس وقت دیکھا جب وہ بے روزگار ہونے کی وجہ سے غربت کی چکی میں پس رہا تھا۔ ایک دن مایوسی کے عالم میں وہ ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھا تھا جب اس نے دیکھا کہ رومانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک ٹینس کی خاتون کھلاڑی ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد ایک بڑی رقم کا چیک وصول کر رہی تھی۔ یہی وہ منظر تھا جس نے رچرڈ کی دنیا بدل دی اور اس میں ایک ایسے سچے خواب کی ذہنی کیفیت پیدا ہوئی کہ وہ اگلے کئی سالوں تک اس سے باہر نہ آ سکا۔
رچرڈ اسی خواب کی گرفت میں تھا کہ وقفے وقفے سے اس کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان دونوں کو ٹینس کھیلنا سکھائے گا۔ رچرڈ خود ٹینس کا کھلاڑی نہیں تھا مگر ایک دن اس نے دوبارہ ٹیلی ویژن آن کیا تو ایک اور ٹینس میچ لگا ہوا تھا۔ اس دوران وہ ایک ایسی انجانی اور بے خودی کی کیفیت سے گزارا کہ وہ خود کو سنبھال نہیں پایا۔ اس نے ٹیلی ویژن بند کیا اور اپنا خواب پورا کرنے کے لیئے کم و بیش 100 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز لکھ ڈالی۔ اس میں رچرڈ نے اپنی دو جوان بیٹیوں کو ٹینس سٹارز بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کا رہائشی علاقہ بدنام زمانہ سیاہ فام گینگسٹرز کے تشدد کے لئے مشہور تھا۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور وہ ان کے سامنے چٹان بن کر کھڑا ہو گیا۔
اب اس کے لیئے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ رچرڈ ٹینس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، اس کے پاس اپنی بیٹیوں کو اس مہنگے کھیل کی ٹریننگ کی ادائیگی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ لیکن رچڑڈ کے سامنے جتنی بھی رکاوٹیں تھیں وہ خود کو اتنا ہی زیادہ مضبوط کرنے لگا۔ وہ آنے والے کئی سالوں تک ٹینس کے متعلق میگزین اور ویڈیوز وغیرہ جمع کرتا رہا، اور ساتھ ہی ساتھ گزارے لائق خود بھی ٹینس کھیلنا سیکھتا رہا۔
جونہی رچرڈ کی یہ دونوں بیٹیاں تھوڑی بڑی ہوئیں اس نے اپنے پلان کے مطابق، اپنی دونوں بیٹیوں کے ہاتھ میں ٹینس کا ریکٹ، وہی رسالے، وڈیوز اور ان سے جو کچھ اس نے سیکھا تھا اپنی دونوں بیٹیوں کو تھما دیا۔ اب وہ ان کم سن بچیوں کا باپ بھی تھا اور کوچ بھی، اس نے انہیں ٹینس کا کھیل سکھانا شروع کر دیا۔ رچرڈ غریب تھا اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ کھیلنے کی بنیادی اشیا کو خرید سکے۔ رچرڈ مقامی کنٹری کلبوں میں جاتا اور وہاں سے وہ استعمال شدہ ٹینس گیندوں کو ڈبوں اور شاپروں میں بھر کر اپنے گھر لے آتا، تاکہ اس کی بیٹیاں ان استعمال شدہ گیندوں کے ساتھ پریکٹس کر سکیں۔
چونکہ رچرڈ کی بیٹیوں کو ٹینس کھیلنے کے لیئے پھٹے پرانے گیند ملتے تھے اور وہ ان گیندوں کو بڑی احتیاط سے کھیلتی تھیں کہ گیندیں کہیں پھٹ نہ جائیں۔ یہیں سے ان دونوں بہنوں نے اپنے باپ کے سوا اور بغیر کسی استاد کے ‘ڈراپ شارٹس’ کھیلنا سیکھے۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ "ضرورت ایجاد کی ماں ہے” یہ دونوں بہنیں ٹینس کھیلتے کھیلتے ماہر کھلاڑی بن گئیں۔
رچرڈ اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرنے والا ایک مضبوط جسم کا مالک باپ تھا۔ مقامی غنڈے اس کی بیٹیوں کو ہراساں کرتے تھے۔ ٹینس کی تربیت کے دوران اسے کئی بار گینگ کے اوباشوں نے مارا پیٹا مگر وہ ان کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا رہا۔ ایک موقع پر جب اس نے بیٹیوں سمیت پریکٹس کورٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اس کی ناک، جبڑے اور انگلیاں توڑ دیں اور اس کے کچھ دانتوں کو بھی مکے مار کر نکال دیا۔ ایک دن رچرڈ نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ، "آج کے بعد تاریخ دانتوں کے بغیر ایک شخص کی ہمت کو ہمیشہ یاد رکھے گی
چونکہ اس وقت ٹینس بنیادی طور پر سفید فام کھیل تھا، اس لئے لوگ اس وقت اس سیاہ فام خاندان کو سرعام گھورتے اور آوازیں کستے تھے۔ جب رچرڈ اور اس کی بیٹیاں جونیئر ٹورنامنٹس مقابلوں کے لئے مختلف ٹینس کورٹس کا سفر کرتیں تو انہیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایک دن بیٹیوں نے باپ سے پوچھا، "ڈیڈی، لوگ ہمیں اس بری طرح کیوں گھورتے ہیں؟” اس پر رچرڈ نے جواب دیا، "کیونکہ اس سے قبل وہ اتنے خوبصورت لوگوں کو دیکھنے کے عادی نہیں تھے۔”
وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا اور سنہ 2000ء آن پہنچا، جب ایک دبلی پتلی مگر دراز قد سیاہ فام لڑکی ومبلڈن ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے کے سفر پر رواں دواں تھی۔ تب وہ لمحہ بھی آیا جب رچرڈ اپنی آبائی بستی سے ہزاروں میل دور، اپنی بڑی بیٹی کو لندن کی اشرافیہ، مشہور شخصیات اور شاہی خاندان کے سامنے گھاس کے میدان میں، اسی پرانے ٹیلی ویژن پر بجلی کی سی سرعت سے کھیلتے دیکھ رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب کسی نے بھی ٹینس کے کسی کھلاڑی کو اس قدر طاقتور سروس اور تیز فٹ ورک کے ساتھ نہیں دیکھا تھا، اور نہ ہی انہوں نے کبھی شاٹس کی اتنی اونچی آوازیں سنی تھیں جیسے ہر گیند کو پیٹا جا رہا ہو اور ہر ضرب پر گیند درد سے کراہ رہی ہو، اور نہ ہی کسی تماشائی نے اتنی خوبصورت اور ماہرانہ ڈراپ شارٹس دیکھی تھیں، جو اس نے اپنے باپ کی غربت میں سیکھی تھیں۔
اسی دوران جب رچرڈ کی بڑی بیٹی ایسے مرحلے پر پہنچی جہاں ڈر کے آگے جیت تھی، تو اس نے اسٹینڈ میں کھڑے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو فائنل جیتنے کے لیئے چلا چلا کر اس کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ رچرڈ ہمیشہ اپنی بیٹیوں کو کہتا آ رہا تھا کہ، "ایک دن ہم ومبلڈن جیتنے والے ہیں۔” اب رچرڈ کا یہ 20 سال طویل خواب تاریخ کے نازک موڑ پر پہنچ چکا تھا۔ اس دوران جیسے ہی حریف کی گیند نیٹ سے ٹکرائی، کیمروں نے آنسوؤں سے تر چہرے والے رچرڈ کو دیوانہ وار رقص کرتے دیکھا جب اس نے اپنی مشہور زمانہ بیٹی وینس ولیمز کو اپنے سات گرینڈ سلام ٹائٹلز میں سے پہلا ٹائٹل جیتتے دیکھا، جس کے بعد اگلے کئی برسوں میں، رچرڈ نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی سرینا کو بھی 23 بڑے ٹورنامنٹ جیتتے اور ٹینس میں اب تک کی سب سے عظیم ترین کھلاڑی قرار پاتے دیکھا۔
ایک عام انسان کو خاص بننے کے سفر میں کسی بھی مقام پر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایک تنہا شخص جس کا دنیا میں خدا کے سوا کوئی نہ ہو، وہ شخص جب تن تنہا کسی مقصد کو پانے کے لئے جاگتے کا خواب دیکھے اور پھر مصمم ارادے کے ساتھ اسے حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ جائے تو پھر یہ خواب پورا کرنے کے لیئے پوری کائنات اس کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ آپ کو بس اپنے مقصد اور اس کے حصول کے لیئے اپنے راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، پھر اپنے عزم کو مضبوط رکھا جائے، جدوجہد جاری رکھی جائے اور خدا پر بھروسہ بھی برقرار رکھا جائے تو ایک دن کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔ کامیابی ایک مخفی راز ہے جو اسی کو ملتی ہے جس کی نیت صاف ہو، جدوجہد اور حوصلہ کامل ہو، پھر انسان ہر کٹھن گھاٹی کو عبور کر لیتا ہے چاہے وہ کتنی ہی گہری اور مشکل کیوں نہ ہو۔
بڑی تاریخ انسان خود لکھتا ہے جس کا بڑا سبب اس کے نامساعد حالات بنتے ہیں۔ ہر کمزور انسان کے اندر ایک طاقتور رچرڈ چھپا ہوتا ہے۔ اگر رچرڈ غنڈوں کے ہاتھوں اپنے ٹوٹے ہوئے دانتوں کو اپنی طاقت میں نہ بدلتا تو اس کی دونوں بیٹیاں کبھی ٹینس کی تاریخ لکھتیں اور نہ ہی آج ہم رچرڈ کو یاد کرتے۔ سچے خواب ہی انسان کی اصل طاقت ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |