فروٹ فروشی پر بہیمانہ مگر سبق آموز قتل
یہ واقعہ ہماری انتہائی عدم برداشت، متشددانہ رویوں اور "جہالت” کا مظہر ہے۔ محض چند درجن کیلوں کی خریداری اور پھر ریزگاری کی بحث پر دو بھائیوں کو قتل کر دینے کے واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ لاہور میں پیش آیا اور یہ دو بھائی سرگودھا کے بتائے جا رہے ہیں۔ ایک بھائی کی موت کی تصدیق ہو گئی ہے اور کچھ میڈیا خبروں کے مطابق دوسرا بھائی بھی جاں بحق ہو گیا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ مقتولین نے کچھ کیلے خریدے جن کی کل قیمت میں صرف 30روپے کم تھے اور فروٹ فروش جاہل کو غلطی سے انہوں نے 5ہزار روپے کا نوٹ پکڑا دیا، کیونکہ ان کے پاس کھلا نہیں تھا، جس پر مجوزہ قاتل نے کہا کہ چینچ لے کر آو’ تو دونوں بھائیوں نے کہا کہ یہ آپ کا کام ہے آپ لے کر آئیں۔ اسی بات پر بحث و تکرار ہوئی۔ پھر دونوں بھائیوں نے کہا کہ چینچ نہیں ہے تو فروٹ واپس لے لو جس پر فروٹ فروش نے کیلے واپس لینے سے انکار کر دیا۔ اس پر مزید گرمی سردی ہوئی تو ایک بھائی نے سہوا یہ کہہ دیا کہ، "فروٹ تمھارا باپ بھی واپس لے گا۔” بس فروٹ فروش کا یہ سننا تھا کہ اس نے فون پر اپنے کچھ ساتھی بلائے اور پھر کرکٹ بیٹ سے ان دونوں بھائیوں کی پٹائی کرنے لگا جس پر ایک بھائی کو سر پر بلا لگا تو وہ خون میں لت پت ہو کر نیچے گر گیا۔ دوسرا بھائی مار کھاتے کھاتے آگے بڑھا اور اپنے بھائی کا سر اپنی گود میں لے کر بیٹھ گیا۔ اسی دوران قاتل فروٹ فروش نے زور سے وہ بلا اس کے سر پر بھی دے مارا۔
اطلاعات کے مطابق مقتول سرگودھا کے تھے جو لاہور سے واپس گھر جا رہے تھے۔ اب تک پولیس نے قاتل کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ میڈیا پر قاتل کی تصویر کو سلاخوں کے پیچھے دکھایا گیا ہے۔ ایک یہ تصویر اور ویڈیو بھی فیس بک پر گردش کر رہی ہے کہ جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ دہرا قتل درجنوں افراد کی موجودگی میں ہوا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ لوگوں کی اس کثیر تعداد میں موجود قاتل کرکٹ کا بیٹ پکڑے حملہ کرنے کے لیئے تیار کھڑا ہے مگر ہمارا معاشرہ اتنا ظالم اور بے حس ہو گیا ہے کہ کوئی ایک بھی تماشائی قاتل کو روکنے کے لیئے آگے نہیں بڑھتا ہے۔ ویڈیو میں یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ لڑائی ختم ہو گئی ہے اور ایک بھائی نزع کی حالت میں اپنے زخمی بھائی کو گود میں لے کر نیچے بیٹھ گیا ہے مگر جنونی قاتل کا حوصلہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہو رہا ہے۔
یہ واقعہ ہمارے معاشرے کی مجموعی بے رحمانہ نفسیات کا آئینہ دار ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ دوسروں کے معاملات میں یا ان کی لڑائی میں نہیں پڑنا ہے یعنی ان کے معاملات میں خواہ مخوا ٹانگ نہیں اڑانی ہے، حالانکہ ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنے والا بھی اتنا ہے ظالم ہوتا ہے کہ جتنا ظالم اور سفاک ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔
اب ہر دو طرح کے جو تبصرے آ رہے ہیں ان میں کوئی قاتل کو اور کوئی مقتولین کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے۔ "قہر خدا کا۔” یہاں ہماری نفسیات جاہل سے جاہل معاشروں اور جنگل کے جانوروں سے بھی بدتر دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف ایک بیچارہ خون میں لت پت اپنے مرے ہوئے بھائی کا سر گود میں لے کر غمزدہ حالت میں آنسو بہا رہا ہے تو دوسری طرف نسل یزید سے ایک ظالم آتا ہے اور بلا مار کر اسے بھی ڈھیر کر دیتا ہے۔ نجانے ہمارے ملک میں ایسی بہیمانہ سوچ اور متشدد رویئے کیوں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں یا کیا وجہ ہے کہ ایسے وحشی لوگ ہمارے درمیان روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں؟ سوال یہ نہیں ہے کہ بحث اور لڑائی جھگڑے میں قصور کس کا تھا؟ ممکن ہے قصور دونوں بھائیوں کا تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں قتل کر دیا جاتا۔ یہاں کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مقتولوں نے یہ کیوں کہا تھا کہ کیلے تمھارا باپ بھی واپس کرے گا۔ شائد اسی ایک بات نے اور وہاں موجود ان افراد نے جن کو اس نے لڑنے کے لیئے بلایا تھا قاتل کا حوصلہ بڑھایا اور اس نے قتل جیسا گھناونا فعل انجام دے دیا۔
اس پر مستزاد ہمارے معاشرے میں ہجوم کی نفسیات اس بھی گھناونی ہے کہ جو اچھے اچھوں کی سوچ کو مسلوب کر دیتی ہے اور اس سے کسی بھی طرح سے خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ جھگڑے والی جگہ پر تو ہجوم ایسے اکٹھا ہوتا ہے جیسے یہاں کوئی مفت میں کوئی سنسنی خیز ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے۔ یہاں پہنچ کر ہجوم کی نفسیات اتنا کمینہ پن دکھاتی ہے کہ اس میں شامل لوگوں کے ہمدردانہ جذبات بھی گھاس چرنے نکل جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک تو تعلیمی تناسب کم ہے اور اوپر سے عوام کی اخلاقی اور ذہنی تربیت کا بھی کوئی خاطر خواہ نظام موجود نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے اخلاقی سوشل ورکر یا مخصوص ادارے تو بلکل ہی نہیں ہیں کہ جو ہمارے اندر کردار سازی کریں اور ہمیں برداشت اور صبر و تحمل کرنا سکھائیں۔ ہماری جو اخلاقی تربیت مدرسوں یا سکولوں میں کی جاتی ہے وہ بھی "بنیاد پرستانہ” اور "دقیانوسی” قسم کی ہے۔ یوں ہمارے ذہنوں میں بچپن ہی سے گالی گلوچ، انتقام، بدلہ لو، مار دو، گرا دو اور آگ لگا دو وغیرہ کا کلچر بھرا ہوا ہوتا ہے۔ لوگ ایک دوسروں کو سننے یا برداشت کرنے کے لیئے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔ جس وجہ سے آئے روز ہم ایک "جذباتی قوم” میں بدلتے جا رہے ہیں۔ ایسے مواقع پر تو بس ہجوم کو آگ کے الاو’ میں بدلنے کے لیئے بس ایک چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
خدا را، ملک و قوم اور اپنا مستقبل بچائیں۔ بے مقصد اور منفی جذبات تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتے۔ یہ فروٹ فروش بھی کوئی لینڈ لارڈ نہیں تھا، بلکہ محض ایک دہاڑی دار غریب آدمی تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے ماں باپ، بہن بھائی یا بیوی بچے بھی ہوں گے۔ اگر ایک لمحہ کے لیئے وہ یہ سوچ لیتا کہ یہ محض 30 روپے ہی کا تو فرق ہے، وہ میرے دشمن نہیں ہیں بلکہ میرے گاہک ہیں، وہ میرا رزق لے کر آئے ہیں۔ میرا ان سے کوئی ذاتی لین دین یا جھگڑا نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے غصے میں آ کر مجھے زخمی وغیرہ کیا ہے، تو شاید وہ اتنا طیش میں نہ آتا اور نہ ہی قاتل کے طور سلاخوں کے پیچھے جاتا۔ اب اسے تو قتل کی سزا ملے ہی گی اور فوری طور پر ملنی بھی چایئے تاکہ اس سے دوسرے لوگ نصیحت پکڑیں اور لواحقین کو بھی انصاف ملے۔ لیکن درحقیقت ان مقتولین کے ساتھ مر تو وہ گئے ہیں جن بہن بھائیوں، والدین یا بچوں کے لیئے وہ فروٹ کی ریڑھی یا ٹھڑا لگاتا تھا۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |