آج بھی دو قومی نظریہ زندہ ہے
تحریر: محمد ذیشان بٹ
اگست کا مہینہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جشنِ آزادی کے چراغاں، جلسے، جھنڈیاں اور بینرز اپنی جگہ، لیکن سوال یہ ہے کہ 78 برس بعد بھی کیا ہم واقعی آزادی کے اصل مقصد کو سمجھ پائے ہیں؟ پاکستان صرف ایک خطۂ زمین کے لیے حاصل کیا گیا تھا یا پھر "لا الہ الا اللہ” کی سربلندی کے لیے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج بھی ہمارے گلے میں ہڈی بن کر پھنسا ہوا ہے۔
دو قومی نظریہ سنتے ہی ذہن میں برصغیر کا وہ منظرنامہ آ جاتا ہے جہاں ہندو اکثریت اپنی مکاری کے جال بُن رہی تھی اور مسلمان رہنما یہ فیصلہ کر رہے تھے کہ اگر علیحدہ وطن نہ لیا تو آنے والی نسلیں غلامی میں زندگی گزاریں گی۔ قائداعظم اور مسلم لیگ نے کروڑوں مسلمانوں کو قائل کیا کہ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ!” اور نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔
یہ نظریہ نیا نہ تھا۔ قرآن نے پہلے ہی بتا دیا تھا: "فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ” یعنی انسان یا تو مومن ہے یا کافر۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی واضح کر دیا کہ قومیت اور ملت کی بنیاد دین ہے۔ آپؐ نے ابو جہل جیسے قریبی قبیلے دار سے جنگ کی لیکن بلال حبشیؓ، صہیب رومیؓ اور سلمان فارسیؓ کو سینے سے لگایا۔ مطلب صاف ہے کہ ملت ایک ہے: ملتِ اسلامیہ۔
پاکستان اسی نظریے پر بنا تھا لیکن آج 2025 میں بھی ہمیں عجیب صورت حال کا سامنا ہے۔ دنیا بھر کے کفار آج بھی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ فلسطین ہو یا کشمیر، افغانستان ہو یا برما—ہر جگہ خون ہی خون ہے۔ لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہی ایک طبقہ موجود ہے جو خود کو "لبرل” کہلاتا ہے۔ جی ہاں، وہی "لبرل منافقین” جو ہر وقت اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ان کے کاموں کی فہرست دیکھیے:
پاکستانی نصاب سے اسلامی مواد کم کرنا،
اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بیانیہ پھیلانا،
ہندوستانی ثقافت کو ہمارے گھروں میں داخل کرنا،
سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت کو ہوا دینا،
اور نوجوان نسل کو بے حیائی کی طرف مائل کرنا۔
محرم کے دنوں میں یہ "لبرل برانڈ” پوری طرح ایکٹیو ہو جاتے ہیں۔ باہر کی دنیا سوشل میڈیا کو تعلیم، کاروبار اور ترقی کے لیے استعمال کرتی ہے، اور ہم اسے کافر، مشرک اور گستاخ کے فتوے لگانے کے لیے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ ان لبرلوں کے ساتھ کچھ مذہبی "موم بتی بردار” بھی ہیں جو چند روپے اور تھوڑے سے مفاد کے لیے ان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں۔
ذرا سوچیے! ایک طرف وہ طبقہ ہے جو مسجدوں میں دعائیں مانگتا ہے، غریبوں کو کھانا کھلاتا ہے، ملک کے لیے قربانیاں دیتا ہے۔ دوسری طرف یہ لبرل برگیڈ ہے جو ہمیشہ پاکستان کو بدنام کرنے، اسلام کے قوانین پر انگلیاں اٹھانے اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے میں لگا رہتا ہے۔ یہ خود عملی طور پر کچھ نہیں کرتے، بس سوشل میڈیا پر "پاکستان فیلڈ” اور "اسلام ریگریسِو” جیسے نعرے مار کر اپنی ڈیوٹی پوری کرتے ہیں۔
اگر پاکستان کو بچانا ہے تو ہمیں دوبارہ دو قومی نظریے کی اصل روح کو زندہ کرنا ہوگا۔ والدین، اساتذہ اور علمائے حق کو مل کر نوجوان نسل کو سمجھانا ہوگا کہ یہ ملک کھیل تماشے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے نفاذ کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ انہیں بتانا ہوگا کہ لاکھوں شہداء نے اپنی جانیں اس لیے نہیں دیں کہ آج کوئی ٹوئٹر پر بیٹھ کر "پاکستان نامکمل خواب ہے” کا نعرہ لگائے۔
سچ یہ ہے کہ پاکستان آج بھی دو قوموں پر کھڑا ہے: ایک طرف وہ مخلص مسلمان جو مشکل وقت میں قوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، اور دوسری طرف وہ "لبرل منافق” جو اسلام اور پاکستان کے خلاف ایجنڈے پر چلتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ 1947 میں ہمارے سامنے ہندو کھڑا تھا، آج ہمارے سامنے نقاب پوش "اپنوں” کی شکل میں کھڑے ہیں۔
یقین رکھیے! یہ ملک ان شاءاللہ قیامت تک قائم رہے گا کیونکہ یہ اسلام کے نام پر بنا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اصل نظریے کو سمجھیں، اسے زندہ رکھیں اور آنے والی نسلوں کو یہ سچ بتائیں کہ پاکستان کسی لبرل فیشن شو کے لیے نہیں بلکہ "لا الہ الا اللہ” کے پرچم کو بلند کرنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔
اسلام زندہ باد! پاکستان پائندہ باد!

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |