جنگ بندی کی اصل کہانی
بغیر سیکورٹی کے ہیلی کاپٹر کی طرف جاتے ہوئے امریکی صدر نے اپنے 59 سیکنڈز کے لاسٹ سیکنڈ میسج میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، "ایران نے سیز فائر کی خلاف ورزی کی ہے مگر اسرائیل نے بھی کی ہے۔ انہوں نے ڈیل کے بعد اس صبح وہ بم گرائے ہیں جو ہم نے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ میں اسرائیل سے بالکل خوش نہیں ہوں، نہ ہی میں ایران سے خوش ہوں۔ دونوں ملک اتنی دیر سے سخت جنگ لڑ رہے ہیں۔” جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بارے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ مختصر پیغام وائٹ ہاؤس کے سرسبز ہیلی پیڈ کی طرف جاتے ہوئے دیا جہاں ایک محفوظ ہیلی کاپٹر ان کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی ہے۔ امریکی صدر اکیلے تھے اور انہوں نے کسی دفتری فائل کی بجائے اپنے دائیں ہاتھ میں ایک پلاسٹک ٹائپ سا کوئی لفافہ پکڑا ہوا تھا۔
جنگ بندی کے بارے ڈونلڈ ٹرمپ کا تاحال آخری ٹویٹ اس سے بھی زیادہ مختصر اور دلچسپ ہے۔ یہ ایک ون لائنر میسج ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ جس نے بھی بم گرایا وہ ‘گے’ ہو گا۔ اردو زبان میں انگریزی لفظ "گے” کا ترجمہ تھوڑا غیر مہذب ہے مگر یہ فقرہ بہت معنی خیز ہے جس کا مفہوم ایک لائن میں یہ بھی بنتا ہے کہ اب جس فریق نے بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی بم گرایا، اٹھا کر وہی بم اس کی پشت پر مارا جائے گا۔
قصہ مختصر کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کے باوجود امریکہ کے جنگ میں براہ راست شامل ہو چکنے کے بعد، اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنگ بند کروانے میں واقعی سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ اس سے قبل ٹرمپ نے روس اور یوکرین کی جنگ بند کروانے کی کوشش کی، بھارت اور پاکستان کی خطرناک ترین جنگ بند کروائی اور اب تیسری بار انہوں نے ایران اسرائیل جنگ کو بند کروانے کی ایک انتہائی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اس سے ایک تو دنیا بھر میں ان کے اس کردار کو سراہا گیا۔ دوم امریکی صدر سے پاکستان کے فیلڈ مارشل کی ملاقات کے بارے جو وسوسے اور خدشات ابھرے تھے کہ شائد پاکستان نے امریکہ کو ایران کے خلاف اڈے دینے کا وعدہ کیا ہے یا امریکی صدر کو پاکستان نے "نوبل انعام” کے لیئے غلط تجویز کیا تھا، وہ سارے داغ نہ صرف ختم ہوئے ہیں، بلکہ پاکستانی فوج اور فیلڈ مارشل کی، پاکستانی عوام میں ایک بار پھر بہجا بہجا ہو گئی ہے۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا تو خیال ہے کہ یہ جنگ شروع بھی ٹرمپ نے کروائی تھی۔ اگر جنگ بندی مستقل ہو گئی تو اس کا سارا کریڈٹ بھی ٹرمپ کو ہی جائے گا۔ امریکی صدر یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ اچھا نہیں لگا کہ جنگ بندی پر رضامندی کے فوراً بعد اسرائیل نے شدید حملے کئے۔ صدر ٹرمپ کی رائے میں امریکہ نے ایران کی جن تین اٹامک سائٹس پر حملے کیئے اس کے بعد ایران کبھی جوہری پروگرام بحال نہیں کر سکتا، کیونکہ موصوف سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایران کی جوہری صلاحیت حملہ کر کے ختم کر دی ہے۔ اس سے ایک طرف جہاں اسرائیل کو جنگ بندی کے لیئے "فیس سیونگ” ملی تو دوسری طرف جب ایران نے قطر میں امریکی اڈے پر حملہ کیا تو اس کا بھی جنگ بندی کی طرف جانے کے لئے مکمل بھرم قائم ہو گیا۔
امریکی صدر کے اس قابل ستائش کردار کے باوجود اسرائیل نے اپنا روایتی صیہونی کردار دہرایا جسے اگر منافقانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، جب اسرائیل کے صدر نیتن یاہو اور اس کے کاٹز نامی وزیر دفاع دو متضاد سمتوں میں چلتے دکھائی دیئے اور اسرائیلی وزیر دفاع جنگ بندی معاہدہ کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ اس نے ببانگ کہا کہ ایران پر حملے جاری رکھیں گے جس کے بعد اسرائیل نے ایران پر سارا دن بمباری جاری رکھی۔ ایک طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جنگ بندی کے اعلان پر خوش تھے تو دوسری طرف ان کے ہی ایک وزیر نے جنگ بندی کے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے ایران پر حملے تیز کر دیئے جس سے یہ دونوں اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار "گڈ مین، بیڈ مین” کا روایتی یہودی کردار ادا کرتے دکھائی دیئے۔
ایران پر اسرائیل نے حملوں کا آغاز فوجی قیادت اور نیوکلیئر سائنسدانوں پر حملوں سے کیا تھا تاہم اسے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے میں بظاہر ناکامی ہوئی تو اسرائیل کی عملی مدد کے لیئے بلآخر امریکہ میدان میں آیا اور ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر بمباری کر کے اسرائیلی وزیراعظم سے منوایا کہ امریکہ کے بغیر یہ کام ناممکن تھا۔
عارضی 12 روزہ جنگ بندی تک اگرچہ ایران کا زیادہ نقصان ہوا، خاص طور پر اسے اپنے فوجی جرنیلوں اور کم و بیش درجن بھر ایٹمی سائنس دانوں کی شہادت کا نقصان اٹھانا پڑا، لیکن ایران کے آخری جوابی حملوں میں 28 اسرائیلی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے، تل ابیب اور حیفہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے تھے، جسے غیر جانبدار عالمی میڈیا نے لائیو دکھایا۔ ایران اور اسرائیل دونوں نے اس جنگ کو اپنی فتح قرار دیا۔ جب جنگ بندی کا پہلا اعلان ہوا تو ایران میں جشن منایا گیا، ایرانی پرچم لہراتے ہوئے ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور فتح کی خوشی میں رقص کرتے رہے۔
یہ جنگ بندی قائم رہے یا کچھ عرصے کے بعد جنگ دوبارہ شروع ہو جائے، یہ بات دنیا پر واضح ہو گئی ہے، اور خود اسرائیل کو بھی شدت سے احساس ہوا ہے کہ اس کے دفاعی نظام میں بہت زیادہ خلا موجود ہے اور وہ قابل تسخیر ہونے کی وجہ سے اسے مستقبل میں دھوکہ دے سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایران اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے روس اور چین سے تعلقات کس قدر مضبوط کرتا ہے۔ ایران کا فضائی نظام انتہائی کمزور ہے۔ اس کو اپنی ایئرفورس کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ایران اپنے اتحادیوں سے کس طرح کے نئے مراسم تعمیر کرتا ہے اور کس نوعیت کی ڈیلز کرتا ہے، شاید یہ طے کرے کہ اگلی ممکنہ جنگ میں اصل فاتح کون ہو گا۔
Title Image by NVD from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |