قربانی دکھاوے سے تقوی تک کا سفر
تحریر محمد ذیشان بٹ
قربانی ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف اللہ کے حکم کی تعمیل ہے بلکہ ہمارے ایمان، اخلاص، نیت اور طرزِ عبادت کا آئینہ دار بھی ہے۔ یہ محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ نفس پر قابو پانے، دنیاوی دکھاوے سے بچنے اور خالص اللہ کی رضا کے لیے عمل کرنے کا عملی مظاہرہ ہے۔ صدیاں گزر گئیں مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ ادا آج بھی اللہ کو پسند ہے کہ انہوں نے بغیر چون و چرا، بغیر کسی سوال، بغیر کسی تاخیر کے اللہ کے حکم کو بجا لانے میں اپنی سب سے قیمتی شے، یعنی بیٹے کو قربان کرنے کا عزم کر لیا۔ یہ وہی بیٹا تھا جسے بڑھاپے میں بڑی دعاؤں کے بعد پایا، مگر قربان کر دینے میں ایک لمحے کو بھی تردد نہیں کیا۔
یہی جذبہ آج کے دور میں بھی مطلوب ہے۔ مگر افسوس کہ آج ہم نے قربانی کو صرف ایک تہوار، دکھاوا، اور سوشل میڈیا کے مواد کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ جانور کی قیمت، وزن، نسل اور شکل و صورت کو اصل عبادت پر ترجیح دے دی گئی ہے۔ گویا ہماری نیت اللہ کا قرب پانے کے بجائے لوگوں کی داد پانے کی بن چکی ہے۔ ہر سال عید کے موقع پر جانوروں کی خریداری کے مناظر، ان کی تصاویر، ویڈیوز، اور محلے میں دکھاوے کے مقابلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم نے تقویٰ کے بجائے نمود و نمائش کو مقصد بنا لیا ہے۔
قربانی کے جانور کو گلی کے بیچ میں باندھ کر راستے بند کر دینا، تنگ گلیوں میں ٹریفک جام کرنا، بچوں، بزرگوں اور نمازیوں کے لیے پریشانی پیدا کرنا — کیا یہی ہے وہ عبادت جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ادا کی؟ اور تو اور، جانوروں کو موٹا تازہ اور خوبصورت دکھانے کے لیے مختلف دوائیں، انجکشنز، خوراکیں دی جاتی ہیں جو ان کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہوتی ہیں اور ہماری نیتوں پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہیں۔ پھر ان جانوروں کو چوک چوراہوں میں لا کر ذبح کرنا، ان کی "ماڈلنگ” کروانا، مہنگے بلب اور چراغاں کرنا—یہ سب اس عبادت کی روح کے خلاف ہے۔
قربانی کو تجارت یا فیشن کا رنگ دے دینا نہ صرف عبادت کی اصل روح کو مجروح کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی رکاوٹ بنتا ہے جو محدود وسائل کے باعث یہ عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ منڈی کے مہنگے دام، مارکیٹ میں پیدا ہونے والی مصنوعی مہنگائی اور طبقاتی فرق صرف اور صرف اس اسراف اور دکھاوے کی پیداوار ہیں۔ اگر قربانی کا مقصد اللہ کی رضا ہو، تو نہ ہمیں مہنگا جانور لانے کی فکر ہو، نہ کسی کو نیچا دکھانے کی خواہش۔
اصل قربانی تو وہی ہے جو دل کی ہو، نیت کی ہو، اور خالص اللہ کے لیے ہو۔ جو جانور ہم قربان کرتے ہیں، اللہ تک نہ تو اس کا گوشت جاتا ہے، نہ خون، بلکہ صرف ہماری نیت اور ہمارا تقویٰ اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے۔ اگر دل میں ریا ہو، دکھاوا ہو، خود نمائی ہو، تو چاہے ہم کتنا بھی قیمتی جانور قربان کر لیں، وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں۔
قربانی صرف جانور کی نہیں، بلکہ نفس کی، خواہشات کی، غرور کی، اور دنیا داری کی بھی ہونی چاہیے۔ ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ قربانی کے گوشت کا اصل حق دار کون ہے؟ کیا ہمارا ہمسایہ بھوکا تو نہیں؟ کیا کوئی یتیم یا بیوہ ہے جو عید کے دن گوشت کو ترس رہی ہو؟ اگر ہم نے قربانی کے گوشت کو صرف اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں بانٹ دیا جو پہلے سے ہر سہولت رکھتے ہیں، تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟ قربانی کا ایک بڑا مقصد معاشرے میں خوشی، برابری اور محبت بانٹنا بھی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس عبادت کو اس کی اصل روح کے مطابق ادا کریں۔ قربانی کے دن صرف جانور پر چھری نہ چلائیں، بلکہ اپنے دل میں بسنے والے تکبر، حسد، ریاکاری اور نافرمانی پر بھی چھری پھیر دیں۔ کیونکہ جو عمل اللہ کے حکم اور نبی کریم ﷺ کے طریقے کے مطابق نہ ہو، وہ عمل چاہے جتنا بھی بڑا دکھائی دے، اللہ کے نزدیک بے وقعت ہے۔
آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قربانی قبول ہو، تو ہمیں اخلاص کے ساتھ ساتھ شعور بھی لانا ہوگا۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ عبادات اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں، نہ کہ سوشل میڈیا پر نام کمانے کا۔ عبادات کو ایسے ادا کرنا ہوگا جیسے کہ وہ ہمارے لیے آخری موقع ہوں۔ کیونکہ کل روزِ محشر ہمیں اپنے عمل کا حساب دینا ہے، اور وہاں دکھاوے کی کوئی قیمت نہیں۔ اگر ہم نے قربانی کو فقط ایک رسم بنالیا اور اس کی اصل روح کو فراموش کر دیا، تو ہمیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ وقت نہ آجائے جب ہم یہ سنیں کہ "تمہاری قربانی تمہارے منہ پر مار دی گئی۔”
لہٰذا، اس عید الاضحیٰ پر یہ عہد کریں کہ ہم صرف جانور نہیں، بلکہ اپنے نفس کو بھی قربان کریں گے۔ ہم اپنے دل کی نیت کو درست کریں گے، اپنے عمل کو سادہ اور خالص رکھیں گے، اور ہر وہ کام چھوڑ دیں گے جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو۔ تبھی ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہماری قربانی قبول ہو گی اور ہم بھی اللہ کے ان محبوب بندوں میں شامل ہو سکیں گے جن کے بارے میں فرمایا گیا: "بے شک اللہ پرہیزگاروں سے ہی قبول فرماتا ہے۔””

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |