فرہاد احمد فگار کے اشعار میں روحانی فغاں اور نجات کی تڑپ
یہ روز و شب ہیں گناہوں میں تر بہ تر اپنے
اسی لیے تو مسلسل یہ اشک بہتے ہیں
نجات کی کوئی صورت دکھائی دیتی نہیں
حضور آپ کے بس آسرے پہ رہتے ہیں
حضور آپ پہ قربان ہےیہ تن، من، دھن
زبان ہی سے نہیں، دل سے ہم یہ کہتے ہیں
فرہاد احمد فگار
فرہاد احمد فگار کے یہ اشعار انسان کے گناہوں میں لپٹے ہوئے وجود کی ایک ایسی داخلی پکار ہیں جو گناہوں کی شدت اور توبہ کی گہرائی کو بیک وقت ظاہر کرتے ہیں۔ شاعر نے "روز و شب گناہوں میں تر بہ تر” ہونے کے بیان سے انسانی بے بسی اور روحانی آلودگی کو ایک سچے احساس کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہاں "اشک بہتے ہیں” کا ذکر صرف آنسو نہیں، بل کہ ندامت کی ایک مستقل کیفیت ہے جو دل کی گہرائیوں سے پھوٹتی ہے۔ یہ کیفیت نہ صرف اعترافِ گناہ ہے بل کہ ایک مسلسل التجا بھی ہے جو قدرتی طور پر نجات کی راہوں کی تلاش میں مگن ہے۔
"نجات کی کوئی صورت دکھائی دیتی نہیں” کی سطر ایک گہری بےبسی اور روحانی اندھیرے کا اظہار ہے، جس میں شاعر اپنے گناہوں کے بوجھ تلے دبا ہوا محسوس کرتا ہے۔ لیکن یہی کیفیت ایک روحانی تمنا میں بدل جاتی ہے جب وہ "حضور آپ کے بس آسرے پہ رہتے ہیں” کہہ کر اپنی تمام امیدیں ایک نجات دہندہ ہستی سے وابستہ کرتا ہے۔ یہاں "حضور” کا ذکر ایک بلند روحانی مقام کی جانب اشارہ ہے، جہاں امید کی آخری شمع روشن ہے۔
فرہاد احمد فگار کے ان اشعار میں نجات کی تمنا کے ساتھ ساتھ، ایک قربانی کا جذبہ بھی پوری شدت سے موجود ہے۔ "حضور آپ پہ قربان ہے یہ تن، من، دھن” کا بیان صرف جذباتی وابستگی نہیں بل کہ ایثار اور اطاعت کی انتہا ہے۔ یہ سطر شاعر کے مکمل سپردگی کی نمائندہ ہے، جس میں وہ اپنی ہر شے لٹا دینے کو تیار ہے۔ اس طرح یہ اشعار محض دعویٰ نہیں بل کہ عملی اخلاص کا بیان ہیں۔
"زبان ہی سے نہیں، دل سے ہم یہ کہتے ہیں” کا جملہ ان اشعار کو مزید گہرائی عطا کرتا ہے۔ یہاں محض زبانی عقیدت کا انکار اور دل کی سچائی کی گواہی ہے۔ شاعر زبان کے فریب سے نکل کر دل کی صداقت کو بیان کرتا ہے جو سچے ایمان کی پہچان ہے۔ اس اسلوب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاعر روحانی منزل کی تلاش میں محض رسوم کا پابند نہیں بل کہ ایک گہری باطنی کیفیت کا راہی ہے۔
ان اشعار میں نہ صرف توبہ اور عقیدت کی کیفیت ملتی ہے بل کہ زبان کی نرمی اور اندرونی سوز کا ایک حسین امتزاج بھی نظر آتا ہے۔ فرہاد کا اسلوب سادہ مگر اثر انگیز ہے۔ انھوں نے کوئی پیچیدہ استعارات یا تلمیحات کا سہارا لیے بغیر جذبات کو ایسے سلیقے سے پیش کیا ہے کہ ہر مصرع ایک الگ تجربے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اشعار میں تسلسل، داخلی ربط اور موضوعاتی وحدت نمایاں ہے جو ایک مکمل فکری وحدت فراہم کرتی ہے۔
فرہاد کے اس شعری اسلوب کی خاص بات یہی ہے کہ وہ پیچیدگی سے دور رہتے ہوئے بھی دل میں اتر جاتے ہیں۔ ان کا لہجہ عاجزی، ندامت اور سچی عقیدت سے لبریز ہوتا ہے۔ وہ فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھے بغیر زندگی کی حقیقتوں کو روحانی زاویے سے بیان کرتے ہیں۔ ان کا یہ انداز نہ صرف فکری بلندی کا حامل ہے بل کہ قاری کے دل میں نرمی، جھکاؤ اور روحانی بیداری پیدا کرتا ہے، جو کسی بھی بڑے شاعر کی پہچان ہے۔
Image by Anke Sundermeier from Pixabay

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |