پاکستان کی زرعی معیشت: اصلاحات، چیلنجز اور امیدیں
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں کی معیشت کی بنیاد کسان کی ہل سے جڑی ہوئی ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک زراعت ملک کی معیشت کا اہم ستون رہی ہے۔ آج بھی اگرچہ صنعتی اور سروس سیکٹرز میں کچھ ترقی ہوئی ہے، مگر دیہی آبادی کی اکثریت کا ذریعہ معاش اب بھی زراعت ہی ہے۔ زراعت نہ صرف غذائی تحفظ کی ضمانت دیتی ہے بلکہ برآمدات، روزگار، اور ملکی خام قومی پیداوار (GDP) میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں اس شعبے کو بہتربنانے کے لیے مختلف پالیسی اقدامات کرتی رہی ہیں۔
پاکستان کا زرعی نظام برصغیر کے نوآبادیاتی دور کی دین ہے۔ انگریزوں نے نہری نظام متعارف کروا کر زرخیز زمینوں کو آباد کیا، مگر زمینداری نظام نے کسان کو جاگیردار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد زرعی اصلاحات کی کوششیں ہوئیں، مثلاً ایوب خان کے دور میں محدود زرعی اصلاحات متعارف ہوئیں، جن کا مقصد بڑی جاگیروں کو محدود کرنا اور زرعی پیداوار میں اضافہ تھا، لیکن یہ اصلاحات مکمل کامیاب نہ ہو سکیں۔ بھٹو دور میں مزید اصلاحات ہوئیں، تاہم زمین کی تقسیم، چھوٹے کاشتکار کی خود مختاری اور جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی جیسے اہم مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے حالیہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے وہ زراعت کو پائیدار خطوط پر استوار کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر کھاد اور زرعی ادویات پر ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کسان دوست اقدام ہے۔ اس کے علاوہ فارم میکنائزیشن کو فروغ دینے، زرعی مشینری پر ٹیکس میں بتدریج کمی اور زرعی اجناس کی اسٹوریج صلاحیت میں اضافہ جیسے فیصلے بھی زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے اہم ہیں۔
بلوچستان، جہاں پانی کی قلت ایک مستقل چیلنج ہے، وہاں ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن ایک انقلابی اقدام ہے۔ اس سے ایک طرف توانائی کی بچت ہوگی اور دوسری طرف زرعی پیداوار میں بھی نمایاں بہتری آئے گی۔ وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ پسماندہ علاقوں کو مرکزی دھارے میں لانے کی عملی کوشش قرار دی جا سکتی ہے۔
تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسانوں کی توقعات محض حکومتی اعلانات سے پوری نہیں ہوتیں۔ آج بھی لاکھوں کسان قرضوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ زرعی قرضوں تک آسان رسائی، فصلوں کی مناسب قیمت، منڈیوں تک رسائی، جدید تحقیق کی منتقلی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے تحفظ جیسے بنیادی مسائل بدستور موجود ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فیصلوں سے پہلے زمینی سطح پر کسان تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے۔
زرعی شعبے کے مسائل میں سرفہرست واٹر مینجمنٹ کا فقدان ہے۔ نہری نظام کی بوسیدگی، واٹر کورسز کی عدم صفائی اور پانی کے ضیاع نے زرعی کارکردگی کو متاثر کیا ہے۔ زرعی تحقیقی ادارے، جن کا کام نئی اقسام، کیڑوں کے تدارک اور پیداوار بڑھانے کی تکنیک متعارف کرانا ہے، اکثر فنڈز اور توجہ سے محروم رہتے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو جدید طریقۂ کاشت، فصلوں کے تحفظ اور مارکیٹنگ کی تعلیم نہیں دی جاتی۔کسان کو فصل کا کم معاوضہ ملتا ہے جب کہ مڈل مین اور ذخیرہ اندوز زیادہ منافع کماتے ہیں۔
زرعی پالیسی میں تسلسل لایا جائے۔ ہر نئی حکومت اپنی ترجیحات لے کر آتی ہے، جس سے پالیسیوں میں عدم تسلسل پیدا ہوتا ہے۔ زراعت کے لیے طویل مدتی قومی پالیسی ہونی چاہیے۔ کسان کارڈ اور سبسڈی اسکیموں کا شفاف نفاذ کیا جائے۔ ماضی میں متعدد اسکیمیں شروع ہوئیں مگر کرپشن اور ناقص عملدرآمد کے باعث ناکام ہوئیں۔ دیہی علاقوں میں زرعی کالجز اور ٹریننگ سنٹرز کا قیام ناگزیر ہے۔ کسانوں کو شمسی توانائی سے بجلی کی فراہمیکو یقینی بنایا جائے۔ نہ صرف بلوچستان بلکہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی سولر ٹیوب ویلز کا دائرہ کار وسیع ہونا چاہیے۔
پاکستان کی معاشی خود کفالت کا خواب زرعی خود کفالت سے جڑا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کے زرعی شعبے کے لیے حالیہ اقدامات یقیناً حوصلہ افزا ہیں، مگر ان کی کامیابی نفاذ کے مؤثر نظام، کسان کی مشاورت اور بدعنوانی کے خاتمے سے مشروط ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زراعت کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھا جائے اور کسان کو معیشت کا ہیرو تسلیم کیا جائے، نہ کہ صرف الیکشن سے پہلے کا نعرہ لگاکرکسان کو جھوٹی تسلی دی جائے۔ جب تک حقیقی زرعی اصلاحات زمینی سطح پر لاگو نہیں ہوں گی، اس وقت تک خوشحالی محض اعلانات کی حد تک محدود رہے گی۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |