پاکستان: دنیا کا سب سے زیادہ قدرتی آفات سے متاثرہ ملک
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ بن چکی ہے جو انسانی زندگی، معیشت، صحت، زراعت اور مستقبل کے سماجی ڈھانچوں کو جڑ سے ہلا رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جو ان تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، باوجود اس کے کہ اس کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور موسمیاتی تنوع اسے قدرتی آفات کی زد میں رکھنے والے عوامل میں شامل کرتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے پاکستان میں قدرتی آفات جیسے کہ سیلاب، قحط، اور ہیٹ ویوز میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم 2010 اور 2022 کے سیلابوں نے جو تباہی مچائی وہ پاکستان کی ماحولیاتی تاریخ میں ایک سنگین موڑ ثابت ہوئی۔
جرمن واچ کی جاری کردہ Climate Risk Index 2025 کی رپورٹ میں پاکستان کو سال 2022 میں دنیا کا سب سے زیادہ ماحولیاتی آفات سے متاثرہ ملک قرار دیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق33 ملین افراد براہ راست متاثر ہوئے۔ ایک تہائی پاکستان پانی میں ڈوب گیا۔ 22 لاکھ مکانات تباہ یا شدید متاثر ہوئے۔ 81 لاکھ افراد بے گھر ہوئے – یہ عالمی سطح پر سب سے بڑی داخلی نقل مکانی تھی۔ 1700 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں۔معاشی نقصان 15 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ زراعت، صحت، انفراسٹرکچر اور تعلیم کے شعبے بری طرح متاثر ہوئے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں مون سون کی بارشوں میں 50 فیصد تک اضافہ موسمیاتی تبدیلی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اسی طرح، گرمی کی لہر کی شدت اور اس کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے۔ پانی سے پھیلنے والی بیماریاں، جیسے ہیضہ، ڈینگی، اور ملیریا میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن ماحولیاتی تباہی کا سب سے زیادہ بوجھ اسی ملک پر پڑ رہا ہے۔ یہ ایک ماحولیاتی ناانصافی ہے جس پر عالمی برادری کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
2022 کے سیلابوں کے بعد پاکستان کے نقصانات کا تخمینہ تقریباً 30 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ کئی ترقی یافتہ ممالک نے مالی امداد کے وعدے کیے، لیکن ان وعدوں کی تکمیل کی رفتار انتہائی سست ہے۔ کلائمیٹ رسک انڈیکس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کو فوری ماحولیاتی مالی امداد دی جائے تاکہ وہ نہ صرف متاثرہ علاقوں کی بحالی کر سکے بلکہ مستقبل کے خطرات سے بچاؤ کے لیے مضبوط حکمت عملی بھی ترتیب دے سکے۔
پاکستان کو اس وقت درج ذیل اقدامات کی فوری ضرورت ہے جن میں سرفہرست ماحولیاتی آگاہی ہے، عوام میں شعور پیدا کرنا کہ یہ مسئلہ محض ماحولیاتی نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ماحولیاتی تحفظ کے قوانین کو سختی سے نافذ کیا جائے۔متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو میں مقامی ماحولیاتی حالات کو مدنظر رکھا جائے۔پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک سے ماحولیاتی انصاف کے لیے زوردار آواز اٹھانی ہوگی۔
پاکستان کا ماحولیاتی بحران محض ایک قدرتی سانحہ نہیں بلکہ ایک گلوبل ماحولیاتی ناانصافی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسے ملک کو جو ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ میں شریک نہیں، دنیا کی سب سے زیادہ ماحولیاتی آفات کا سامنا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اپنے وعدوں کو عملی شکل دے اور پاکستان جیسے ممالک کی مالی، تکنیکی اور انسانی بنیادوں پر مدد کرے تاکہ وہ اس بحران کا سامنا کر سکیں۔
ہمیں بحیثیت قوم بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا اور ہر ممکن طریقے سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے متحرک ہونا ہوگا کیونکہ آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
Title Image by Heiko Behn from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |