نو بال
کہانی کار:۔ سید حبدار قائم
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اٹک کے نواحی گاؤں غریب وال میں المعصوم کرکٹ ٹورنامنٹ ہو رہا تھا اس ٹورنامنٹ کا نام گاؤں میں موجود مشہور ولی کی زیارت معصوم بادشاہؒ کے نام سے موسوم تھا سارے لڑکے اکٹھے ہو چکے تھے گاؤں کا شاہد نامی لڑکا ایمپائر کے فرائض سر انجام دیتا تھا اسی گاؤں کا ایک لڑکا ذکی بہت تیز بالنگ کراتا تھا لیکن اس کا بالنگ کراتے وقت پاؤں کریز سے آگے نکل جاتا تھا اور اکثر نو بال ہو جایا کرتی تھی سارے گاؤں کے لڑکوں نے شاہد امپائر کو ایک طرف کر کے سمجھایا کہ آج آپ نے ”نو بال“ نہیں دینی اگر آپ نے نو بال نہیں دی اور ہمیں میچ جتوا دیا تو آپ کو چکن کڑاہی کھلائی جائے گی ایمپائر شاہد غریب ضرور تھا لیکن بہت ایماندار تھا اسے ماں نے بتایا تھا کہ بیٹا جب بھی کھیلو ہمیشہ ایمانداری سے کھیلو اور سچ کا دامن کبھی بھی نہ چھوڑو
شاہد کو ایمپائری کرتے ہوئے کافی عرصہ گزر چکا تھا جب میچ شروع ہوا تو سارے گاؤں کے لڑکوں نے اسے ایک بار پھر بتایا کہ ذکی کی نو بال ہو جائے تو اس کو نظر انداز کرنا ہے اور بال کو درست شمار کرنا ہے اس کو نو بال نہیں دینا لیکن ذکی ایک ایماندار بچہ تھا اور وہ ہمیشہ سچے فیصلے کرتا تھا اسے کسی دوست سے کوئی لالچ نہیں تھا ماں کا دیا ہوا سبق ہمیشہ یاد رکھتا تھا
جب میچ آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا اور تیز ترین بولنگ جاری تھی دو رنز رہتے تھے اور مخالفین کی ٹیم ان کے گاؤں سے جیتنے والی تھی آخری بال کے اوپر فیصلہ ہونا تھا جوں ہی بولر بولنگ کے لیے دوڑا تو سارے گاؤں کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے جب بالر نے بال کرائی تو اس کا ایک پاؤں کریز سے آگے نکل گیا اور بیٹس مین کلین بولڈ ہو گیا لیکن اس سے پہلے امپائر کی انگلی نو بال کے لیے اٹھ چکی تھی اور بیٹس مین ناٹ آؤٹ قرار پایا اسی بال کے اوپر فیصلہ تھا دو رنز رہتے تھے تو اگلے بال کے اوپر بیٹسمین نے ایک زوردار چوکا لگا کر اپنی ٹیم کو میچ جتوا دیا جس کا گاؤں والوں کو بہت دکھ ہوا اور انہوں نے امپائر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا چونکہ یہ فائنل میچ تھا اس میچ کے بعد گولڈ میڈل ملنے تھے اور جیتنے والی ٹیم کو ٹرافی ملنی تھی اس لیے گاؤں کے مہمانِ خصوصی ملک طارق صاحب آئے ہوئے تھے جب انہوں نے ایمپائر کی ایمانداری دیکھی تو انہوں نے میچ کے بعد جب انعامات دیے تو یہ اعلان کیا کہ امپائر کو آئندہ تحصیل لیول کے ٹورنامنٹ میں امپائری کے فرائض سونپے جائیں گے گاؤں والی ٹیم ناراض تھی جب کہ ایمپائر کی ایمانداری اس کو تحصیل لیول پر لے گئی جب تحصیل لیول کے مقابلے ہوئے تو اس کو ایمانداری کے بل بوتے پر ضلع کے ٹورنامنٹ کے لیے چن لیا گیا اس طریقے سے وہ ترقی کرتے کرتے صوبائی لیول تک اور قومی لیول تک پہنچ گیا اس امپائر کو پوری دنیا نے دیکھا کہ اس کے فیصلے ایمانداری پر مبنی ہوتے ہیں تو اس کو انٹرنیشنل ایمپائر بنا دیا گیا اور اس سے کئی مقابلے کرائے گئے جس میں اس نے انتہائی اچھے فیصلے کیے
پیارے بچو! سچ ہے کہ ہمیشہ سچ بولنے سے اللہ تعالٰی منزل آسان فرما دیتا ہے اور بڑی سے بڑی کامیابی عطا کرتا ہے اگر وہ گاؤں میں جھوٹ بولتا اور ”نو بال“ دے کر ایک لڑکے کو آؤٹ قرار دے دیتا تو آج اس کا مقام اتنا بلند نہ ہوتا اور وہ گاؤں کے لیول پر پڑا رہتا آج شاہد کے پاس دنیا کی ہر نعمت ہے سچ بولنے سے رب نے اس کی غریبی دو کر دی
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |