خسارے کی اجازت
۱
خسارے کی اجازت
مصنفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عندلیب بھٹی
’’وہ گھر کا بارہواں کھلاڑی تھی ضرروت پڑی ،بلا لیا۔۔ورنہ چھوڑ دیا ۔۔وردی کے علاوہ اور کوئی مماثلت ،قطعئی نہیں ۔ایک وقت گزرا ،حکم ملا، وہ اپنے ہونے کی یاد دہانی کے لیے سامنے رہا کرے ۔۔اور اُس نے من وعن ویسا ہی کِیا۔۔تا کہ اُنھیں بھول نا جائے کہ اُسے استعمال کرنا ہے۔جب تک غور کرنے کی اجازت ملی ، تقدیر میدان ِعمل تبدیل کرنے جا رہی تھی۔ تفکّر بے سود ٹھہرا۔۔۔اور پھر جانے والے لوٹ مار کر کے دل کی دنیا کے ساتھ ساتھ نئے میدان بھی لے گئے۔۔اپنے نا ہوتے وجود کو سمیٹ کر پہلے دھوکے کی فریاد کرنا۔۔اور پھر اکیلے ہونے کی بھیانک سچائی کا سامنا۔۔اُس کا دل چاہتا ۔۔آنکھ بند کرے اور کبھی نا کھولے ۔۔اِس کے برعکس وہ اپنی دنیا نئی ۔۔کیسے کرتی۔‘‘
۲
ندا حمید نے مصنفہ ارنیب مصدق کے ناول’’بارہواں کھلاڑی ‘‘ کے درمیان میں شہادت انگلی رکھ کے اُسے اپنے سینے پہ دھر لِیا۔
’’کوئی اتنا مکمل بھی لکھ سکتا ؟‘‘
قدموں کی آہٹ اور صبا جلیل کی آواز۔۔ جیسے پچھلے زمانے کا کوئی خواب تھا۔
’’آں۔۔اوں ۔۔کک کیا ہوا ۔۔کون ۔۔کیا ۔۔‘‘
’’تم !روز ایک جیسی قسط نشر کرتے تھکتی ۔۔کیوں نہیں۔۔؟‘‘
صباء نے اپنا بیگ اُس کے قریب پھینکتے ہوئے برگد کے پیڑ کومحفل بخشی ۔
ندا نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے صباء کو با آوازِ بلند چپس کھاتے دیکھ کر چارو ناچار ’’بارہواں کھلاڑی ‘‘ کو ملائمت سے بند کر کے اپنے بیگ میں رکھا۔اُس کے ذہن میں اپنے نئے مضمون کا خاکہ چکر پھیریاں لینے لگا۔
’’تُم کبھی کبھی اِس کو چھٹی پر بھی جانے دیا کرو۔‘‘ صبا ءنے ایک بے ہنگم آواز کے ساتھ چپس کا نیا پیکٹ کھولا۔انگلی پر لگی مرچ پھونک سےمار کے اُڑائی۔
’’مجھے اللہ نے دماغ استعمال کرنے کے لیے دیا ہے۔تمھارا کُل وقتی چھٹی پر رہتا ہے ۔۔یہ کافی ہے۔‘‘
’’ویسے تُم ارینب مصدق کو اور کتنا گھول کر پی جانے والی ہو‘‘
’’میں اِس کے لیے قسم کھانے کو تیّار ہوں۔۔کہ اُن کی پہلے سے پڑھی ہوئی تحریر اگلی بار مجھ پر ایک اور آہنگ سے دو چار ہوتی ہے۔ایک نیا باب۔۔ایک نئی وجہ۔۔ایک نیا رنگ۔۔ایک نئی۔۔۔‘‘
’’میں تمھیں کیسے بتاؤں۔۔لفظ۔۔لفظ نا ۔۔جیسے کوئی لفظوں کی مجلس ہو اور وہ سب بڑی حسرت
۳
سے۔۔ قلم کو تک رہےہوں، کہ اُن میں سے کب کوئی اُس شہزادی کو بھا ئے گا۔ارنیب جی کی تحریر اتنی
کشادہ ۔۔ایسی بامعنی۔۔دنیا کے رنگوں کے سات وہ پوشیدہ راز آشکار کرتی ہے۔۔گویا انٹارٹیکا کی گہرائیوں میں سرکتا پانی کا ایک قطرہ بھی اُن کی دسترس میں ہو۔۔اور وہ کیوں ہلا۔۔کیسے ہلا۔۔کتنا ہلا۔۔اور کسقدر ہلنا چاہیے تھا۔۔سب دو لائنوں میں سامنے لا کھڑا کرتی ہیں۔‘‘
’’منہ بند کرو۔‘‘
ندا نے جھلا کر کہا تھا مگر صباء نے تمتماتے چہرے کے ساتھ پرجوش آواز میں کہا۔
’’کس طرح زبانی وروانی سے کہہ جاتی ہو۔ تمھارے لفظ ادھر اُدھر نہیں ہوتے۔ ضرور ایک روز ارینب کا دوسرا پارٹ بن جاؤ گی۔۔۔ ‘‘
صبا ءکی بات پر ندا کا چہرہ جھلملا اُٹھا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔کیا کہہ دیا ؟کون سے خواب دکھا رہی ہو۔‘‘
’’ہاں !ادب پڑھنے کا حق تم ادا کرتی ہو۔۔ہم تو بس۔۔‘‘
صبا نے اٹھتے ہوئے کپڑے جھاڑے ، اطمینان سے گزرتے ہوئے کہا۔
’’ویسے وہ ۔۔سر ابراہیم مجلّہ کے مضامین کو حتمی کرتے ہوئے سب کو بلا رہا تھا۔مَیں تمھیں یہی بتانے آئی تھی۔‘‘
’’کیااااا۔اور تم اب ارشاد فرما رہی ہو۔‘‘
’’تُم خوا ہ ،سارا دن نا جاؤ۔سب جانتے ہیں۔مجّلہ کی آخری تیّاری تو وہ تمھارے پہنچنے پر ہی کریں گے۔مس ایڈیٹر صاحبہ۔۔‘‘
۴
’’سو تو ہے۔‘‘
ندا نے بھرپور مسکراہٹ صبا کی جانب روانہ کی۔
دونوں جنّات والے برگد کے پیڑ سے ڈھلوان اترائی، لڑھکتے لڑکھاتے اترتے ہوئے آڈیٹوریم کی طرف قدم اٹھانے لگیں۔
’’ویسے ارنیب مصدق کا قصّہ بھی اپنی نوعیّت کا عجیب وغریب ہے۔وہ کہاں ہوں گی؟دو برس ہو گئے۔لوگ ابھی تک بھولے بھی تو نہیں۔۔آج بھی گاہے بہ گاہے اُن کا ذکر سنائی دے جاتا ہے۔‘‘
’’یہ بات تو ہے۔اتنی شہرت اور بلندی چھوڑی کیسے جا سکتی ہے؟‘‘
’’خیر !چھوڑی تو نہیں تھی۔چھڑوائی گئی تھی۔اب اگر اُن میں ہمت ہوتی تو یوں روپوش نا ہو جاتیں۔سبھی باتوں ، سوالوں کا سامنا کرتیں۔‘‘صباء نے بے نیازی سے کہا۔
ندا ڈھیلے قدموں سے صبا کے سامنے سے ہٹ کر ایک طرف کو آئی۔
’’اب جو ہوا۔تمھارے سامنے ہی ہے۔۔کیسی عجیب بات ہے۔ایک روز پہلے ہی تو ہم اُن سے ملے تھے۔۔۔اور پھر وہ خبریں۔۔اور اُن کا اچانک چھپ جانا۔۔ایسے میں کوئی کیا کہے۔۔‘‘
ندا کا چہرہ تاریک سا ہونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندا حمید ہفتم جماعت کی طالبہ تھی۔امّاں کہتیں۔۔کہ یہ بڑی ہو کے ادیبہ بنے گی تو وہ فوراً تصیح کرتی۔۔’’امّی بہت بڑی ادیبہ۔۔‘‘
۵
بارہویں جماعت تک پہنچتے ارنیب کی تحریر سے متعارف ہوئی۔۔۔اور یوں اُس نے اپنی پہلی کہانی لکھی
۔۔مگر صبا ءجلیل کے علاوہ کسی کو اِس بات کی خبر نہیں تھی۔۔کیونکہ اُسے اپنی کہانی ارنیب مصدق کو ہی پیش کرنی تھی۔۔ اور پھر ارنیب سے ملنے کی جو لَو لگی تھی ،تو اُس نے ایک روز یہ ملاقات اپنے نصیب میں لکھوا ہی لی۔
ارینب کو دیکھ کر اُس کے منہ سے ادا ہونے والا پہلا جملہ۔۔بے اختیاری تھا۔
’’آپ۔۔آپ تو بہت حسین ہیں۔‘‘
’’اچھا!تو جو حسین ہوتا ہے، وہ قابل نہیں ہو سکتا؟۔۔۔بیٹھو ‘‘
صباء کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔حُسن۔۔قابلیت ، برجستگی۔۔اور اِس کے ساتھ ساتھ بے انتہا سادگی۔۔اور اُس پر پُرکاری۔۔
’’کیا !کوئی اتنا مکمل بھی ہو سکتا ہے؟‘‘
صباء نے سرگوشی کی تو ایک لمحے کے لیے ندا اُسے دیکھ کر رہ گئی۔۔دوسری نگاہ ارنیب پر جو ٹھہری تو گویا وہیں قیام ہو گیا۔
’’ہاں! تو کہیے۔۔‘‘
’’آپ کے پاس بہت قابلیت ہے۔‘‘
ندا نے مدھم لہجے میں کہا۔۔تو ارنیب دھیرے سے مسکرائی، شربت کا گلاس اُس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔
’’آپ مجھے میرے بارے میں بتا رہی ہیں۔۔جب کہ آپ کو اپنا تعارف مکمل کرنا چاہیے۔‘‘
۶
’’آپ کو اچھا نہیں لگا۔‘‘
صبا نے گڑ بڑا کے کہا تو ارنیب نے پھر ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
’’بات اچھے یا برے کی نہیں۔۔ اصول کی ہے۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ میں گھر کی آرائش کرنے کے بعد، انتظار کروں، کب کو ئی آکے مجھےبتائے، میں نے بہت محنت کی۔۔اور سہی کی یا غلط۔۔اور اگر مجھے اپنے ہی اثاثوں کی نوعیّت اور قدروقیمت کا علم نہیں تو گویا میں کھلے عام پارس لیے بیٹھی ہوں۔‘‘
ارنیب مصدق کی بات پر صباء خجل ہوئی ، مگر ندا کے کان کے قریب پسینے کی لکیر تھی۔۔بہرحال ندا نے جانے کَیا ترکیب کی ا،س ملاقات کے بعد۔۔ ارنیب اُسے اچھا وقت دینے لگیں۔۔ہاتھ پکڑ کے ندا کو راستہ دکھایا۔۔فن کی الف بے سے روشناس کرایا۔پہلی ملاقات کے بعد ندا ارنیب کے پاس صبا ءکے ساتھ کبھی نہیں گئی۔صباء کی علم کے مطابق ندا نے دو برسوں ،تقریباََمیں ہر ہفتے ارنیب سے سبق لیا ہی ہو گا۔
اُس روز وہ دونوں ساتھ تھیں۔۔اور وہی ارنیب کے ساتھ اُن کی آخری ملاقات ثابت ہوئی۔۔اِس کے بعد،پھر کِسی کو پتا نا چلا کہ وہ کیوں اور کہاں چلی گئیں۔
صبا کو بھی اکثر اُس ملاقات میں ارنیب سے کیے سوال یاد آتے۔
’’۔۔ارنیب جی آپ میں اتنی صلاحیت کیسے پیدا ہوئی ۔۔؟آپ کو ہر بات کی اصلیّت کا علم کیسےہوجاتا ہے؟۔۔اُس پر لفظ جیسے آپ کے سامنے قطار میں سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں۔۔خیال ، ترکیب، تمحید اور اُس بات کی تقدیر آپ پر مکمل عیاں ہو جاتی ہے۔۔اور پل کے پل آپ اُس کا خلاصہ سامنے والے کو پکڑا دیتی ہیں۔اتنی برق رفتاری۔۔اتنی آمد۔۔کیسے ۔۔کیسے ۔۔؟‘‘
۷
’’ریاضت سے۔۔‘‘
صباء طویل جملے کا جواب مختصر تھا۔
اُس روز ندا کو بات کرنے کا موقع نا ملا۔ صبا ءکا شوق دورانِ گفتگو ،پہلی بات کو دوسری سے جوڑ دیتا۔
’’۔۔تو ارنیب جی اگر ایک روز آپ سو کر اُٹھیں اور پتا چلے کہ سب شہرت ختم ہو چکی۔آپ کو کوئی نہیں جانتا۔‘‘
ارنیب نے چونکے بنا بلا تاخیر جواب دیا۔
’’میں تو اب بھی صرف لکھتی ہوں۔۔ادبی محافل کا حصّہ نہیں ہوں۔میرا لوگوں سے تعارف میری تحریر کے توسط سے ہے۔۔اور اِس کے علاوہ میں چاہتی بھی نہیں۔۔۔دوسری بات ۔۔یہ کہ چھن جانے سے پہلے چھوڑ دینا ہی معراج ہے۔‘‘
صبا اور ندا چونک گئیں۔صبا ءکا ایک بار پھر منہ کھل گیا۔ندا نے چہرے کو صاف کِیا ، اِس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، صبا پھر بول اٹھی۔
’’مطلب۔۔‘‘
’’چھوڑیں گے نہیں تو چھوڑے ہوئے کی قیمت اور اپنی صلاحیت کا اندازہ کیسے ہو گا۔‘‘
’’مطلب۔۔؟‘‘
اب کہ ندا کے منہ سے ’مطلب‘ پھسلا۔
’’ہمم۔پا لینا۔۔اور بات پائے رکھنا اور بات۔۔‘‘
’’کیاااااا۔؟‘‘
۸
ندا اور صباء دونوں کا منہ کھل چکا تھا۔
’’۔۔۔اور بات تو اِس سے آگے کی بھی ہے۔۔۔‘‘
’’کیااااا؟‘‘
صباء نے بوکھلا کر کہا تو ارنیب ۔۔جو نا سنجیدہ تھی ۔۔اور نا ہی مزاح میں ۔۔ایسے جیسے بس پانی ہلکے
آہنگ سے بہہ رہا ہو۔نا جواب کی طغیانی ۔۔نا ہی آنے والے اجنبی سوال کی الجھن۔۔
’’وہ یہ کہ پانا اور بات ۔۔حاصل کرنا اور بات ۔۔پایا ہوا ، پائے رکھنا ایک بات ۔۔۔مسلسل جہد۔۔اور حاصل کیے ہوئے کو تیاگ دینا ایک بات ۔۔اور بات تو اِس سے آگے کی بھی ہے۔ــ‘‘
۔۔۔۔ندا اور صباء نے یک لخت بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔دونوں کا ’’بات تو اِس سے آگے کی بھی ۔۔آگے لے جانے کا ارادہ سسکیاں لے رہا تھا۔۔
پہلا رستہ نڈھال کر رہا تھا ،ارنیب کو جانے کیوں سامنے والے کے دماغ تک رسائی تھی۔۔؟’’خیر یہ بے معنی سوال ہے۔۔انھیں خبر ہوتی ہے کہ دوسرا کیا کہے گا ۔۔اور پھر کیا کہے گا۔۔اور پھر ۔۔پھر کیا کہے گا۔‘‘
صباء رو دینے کو تھی۔۔جب کہ ندا کا چہرہ جانے کیوں زرد پتے کا سا ہو رہا تھا۔ارنیب نے ایک دو لمحے انتظار کیا۔۔جب سامنے سے کِسی ’’کیا‘‘ کا ظہور نا ہوا ،تو بولیں۔
’’۔۔چھوڑ دینے کے بعد ’’ اطمینان‘‘ کی ریاضت بتاتی ہے کہ پائے رکھنا تھا۔۔یا حاصل کیے رہنا تھا۔۔اور بات تو ۔۔۔‘‘
اِس سے پہلے کہ ارنیب کہتی کہ ’’بات تو اِس سے آگے کی بھی ہے‘‘ صباء نے یک دم ہاتھ جوڑ
۹
کر پھر دونوں کان پکڑ لیے۔۔
’’نا کریں۔۔جان لیں گی کیا۔۔؟‘‘
ارنیب مسکرادی۔۔وہ سامنے تصویر بنی بیٹھی تھیں ۔۔مانو۔۔ایک بار پھر مدھم سروں جیسے بہتا پانی ہو۔۔جب کہ اُن دونوں کو ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی فوجی سزا میں میدان کا دسواں چکر لگا چکی ہیں۔
’’۔۔ٹھیک ہے،آپ کی مرضی ۔۔مگر بات اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچی۔۔ایک چکر پورا ہو گا تو نئی بات
ہو گی۔نئی ریاضت ۔۔اور۔۔۔۔کیا میں نے کچھ غلط کہا؟‘‘
آخر کار ارنیب نے اپنے رنگروٹوں کو مدھم مسکراہٹ سے نوازا ، دوڑ رکوا کر سانس بحال کروایا۔
’’۔۔۔۔نہیں ۔۔کچھ زیادہ صحیح فرمایا دیا۔۔‘‘
’’اچھا لو۔۔شربت پیو!‘‘
ارنیب نے صباء کے جواب سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
’’۔۔گویا ! صباء انٹرویو ختم شُد۔۔‘‘
’’جی بس ایک سوال۔۔‘‘
صبا نے ندا کی طرف دیکھا۔۔مگر وہاں ایک بھی نہیں تھا۔۔بس گہری چُپ ڈفلی بجا رہی تھی۔
’’۔۔۔لیکن ملے ہوئے کو چھوڑ دینا ہی کیوں۔۔مانو۔۔نعمت کو ٹھکرانا۔۔؟‘‘
’’ٹھیک ہے ،مگر ملے ہوئے کے ساتھ چھن جانے کا خوف لپٹا ہے۔۔جو جذبے کمزور سے کمزور کرتا ہے
۱۰
۔۔اور اکثر دغا کی پہلی دستک ہے۔۔اور۔۔‘‘
’’اور ۔۔۔‘‘صبا نے اب کے ندا کو ناموجود تصوّر کیا۔
’’۔۔۔اور ۔۔حاصل لہو گرم رکھتا ہے۔۔دغا بازی پر چھپٹنے کے لیے ۔۔حاصل تحرک کی نمو جاری رکھتا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’صدقے جاؤں۔۔چہرہ پُر رونق سوا بارہ کیوں بجا رہا ہے؟‘‘
’’تُم ،نا ادھر بیٹھو۔۔صدقے جاؤں کی بچی۔۔پہلی بار تُم میرے ساتھ ارنیب مصدق سے ملی تھیں اور آج دو برس بعد بھی میرے ساتھ ۔۔‘‘
’’ہاں ! تو۔۔‘‘
صباء نے معصومیت سے کہا تو ندا کا چہرہ تمتمانے لگا۔
’’۔۔تو۔۔تو یہ کہ ایسا لگا رہا تھا ، جیسے میں موجود ہی نہیں تھی۔۔۔جب کہ گذشتہ چار برسکے دوران میں اُن سے رابطے میں ہوں۔۔‘‘
’’۔۔اور پھر بھی ناموجود دکھائی دیں۔۔؟‘‘
صبا کھلکھلاتے ہوئے سیڑھیاں پھلانگنے لگے۔
’’صباء ۔۔رکو ذرا تُم۔۔یہ انٹرویو ہم دونوں نے کرنا تھا۔‘‘
صباء یک دم رُک گئی۔ندا اُس کے قریب پھولی سانس کے ساتھ استفسار میں کھڑی تھی۔۔کیونکہ صباء کے منہ سے نکلا جملہ قطعئی غیر متوقع تھا۔
۱۱
’’کیااا۔۔تم نے کہا کہ نہیں دونوں کا نہیں ۔۔۔نام صرف ایک کا ہو گا۔۔کیوں۔۔؟‘‘
’’ہاں!ایک کا ۔۔یعنی تمھارا۔۔میں تو بس یونہی گئی تھی۔‘‘
’’ارے بھئی۔۔میں نے ۔۔نا ارنیب جی کی ریاضت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ دیا ہے ۔۔یہ لو۔۔چھوڑ دیا۔۔پایا ہوا ۔۔نہیں حاصل کیا ہوا ۔۔نہیں پایا ہوا۔۔‘‘
صباء نے اگلی سیڑھی پر دھپ سے زور دار آواز سے قدم رکھتے ہوئے گڑبڑا کر کہا۔
’’ارے بھئی یہ انٹرویو۔۔پایا ہوا ہے یا حاصل کیا ہوا یا ۔۔ملا ہوا ۔۔اُف ۔۔‘‘
ندا نے ایک قہقہہ لگایا تو صباء جھنجھلا کے بولی ۔
’’بتاؤ بھئی۔۔مجھے تیاگ ،میرا مطلب ۔۔چھوڑنا ہے ۔۔جلدی بولو۔۔میں اگلی سیڑھی پر قدم رکھوں پھر ۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یونہی سیڑھیاں اترتے چڑھتے اگلا سال گزر گیا۔اُس ایک برس میں ندا کے تبصرے ،مضامین اور افسانوں کا چرچا ہو گیا۔لوگوں نے اُسے ارنیب مصدق کی غائبانہ طالبہ تک کہہ دیا ۔۔ کِسی نے ارنیب مصدق کی دوسری تصویر کہہ دیا اور پھر ایک روز۔۔خوب ہی لکھ دیاگیا۔
۔۔۔۔ ندا حمید نے بر جستگی میں ارنیب مصدق کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔۔اور بات نکلی تو ہم نواؤں کی باد صباء اُڑاتی چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٍ ۱۲
آج ندا کی چوتھی کتاب کی رونمائی تھی۔دو برسوں میں بہت کچھ ہو گیا ۔ سر ابراہیم نے ندا کی تحریر کو ارنیب سے بہتر کہا تو ایک دل جلے صحافی نے اپنی کِسی محرومی کا بدلہ لیا۔
’’آ پ تو ارنیب مصدق کے منگیتر تھے۔۔آپ نے کبھی اُنھیں تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔۔اور ایک بار آپ نے ہی فرمایا تھا کہ ارنیب مصدق مصنفہ نہیں۔۔ایک اسکالر ہیں۔اُن کی تحریر میں آنے والے دو سو سال کی دستک سنائی دیتی ہے۔۔اور یہ کہ ارنیب مصدق کی تحریر ہر وقت ، ہر زمانے کی ہے۔۔وہ کبھی پرانی نہیں ہو گی۔۔وہ ہر عمر کے انسان کا فلسفہ ، نفسیات اور ہر معاشرے کی طبیبہ ہے۔۔۔۔۔۔یہ جی۔۔ آپ نے کہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔اِس کے بعد ہال میں یک دم سناٹا چھا گیا۔۔وہ ایک اول جلول حلیے والا سر ابراہیم کے الفاظ کے شواہد اپنے بیگ سے نکال نکال کر پیش کر رہا تھا۔
’’آپ کو کیا لگتا ہے۔۔ابراہیم نے اُنھیں چھوڑا تھا ۔۔ویسے تو یہ دو لوگوں کا ذاتی فعل تھا ۔۔مگر اِس کے باوجود آپ جلد بازی سے کام نا لیتے تو دیکھتے کہ میں یہی اعلان اور وعدہ کرنے جارہی تھی کہ بہت جلد میں اپنی روحانی اتالیق کو تلاش کر کے آپ کے سامنے لے کر آؤں گی ۔۔باقی رہ گئی تحریر کی بات تو میں نے کبھی کِسی سے مقابلے کے لیے نہیں کہا۔۔ارنیب مصدق تو یوں بھی میرے لیے ایک مینار روشنی ہیں ۔۔اور رہیں گی۔میں ہمیشہ تنقید کا سامنا کرنے کے لیے موجود ہوں۔‘‘
ہال تالیوں سے گونجنے لگا۔ندا نے ارنیب کی ایک بڑی سی تصویر پر پھولوں کی پتیاں نثار کیں جو کچھ دیر بعد ہی اسٹیج کے پردے کے پیچھے سامنے لائی گئی تھی۔۔جلےبھنے صحافی کی مسلسل ندا سے گفتگو جاری تھی۔۔
۱۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صباء کے لاکھ انکار کے باوجود ندا نے نا صرف اُسے بلکہ کچھ اور یونیورسٹی کے دوستوں کو اپنے ساتھ گھسیٹ لیا۔الوداعی عشائیہ بھی شہر بڑےروساء کی طرف سے دیا گیا تھا۔
’’آپ مس ندا حمید کی پرانی دوست ہیں۔۔ایک فلاحی تنظیم چلا رہی ہیں۔۔آپ کوکبھی لکھنے کا شوق نہیں ہوا۔۔۔جب کہ تبصرے تو آپ کے بھی کبھی کبھار نظر سے گزرتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ۔۔وہ تبصرے نہیں میرے کام کے معلوماتی تجزیے ہوتے ہیں۔۔۔اور رہ گئی لکھنے کی بات تو۔۔میرا یہ ماننا ہے ۔۔کہ ہر انسان کو وہی کرنا چاہیے جو دراصل وہ کر سکتا ہو۔۔سب کی اپنی شناخت ہے۔ہر چٹھی ایک پتے پر نہیں جاتی۔‘‘
صباء کی بات جاری تھی کہ ندا نےآواز دی۔۔آج اُن کا اُس ملک میں آخر دن تھا ۔کام ختم ہو چکا تھا۔۔وہ سب مختلف ٹکڑیوں میں مگر تقریباً ساتھ ساتھ موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سڑکوں پر آوارہ گردی کر رہے تھے۔۔۔
ندا ۔۔یاسر اور صبا ایک ساتھ فُٹ پاتھ پر کچھ چیزیں دیکھ رہے تھے کہ اچانک یاسر نے ساتھ والےاسٹال پر کھڑی ایک خاتون کو دیکھ کر چونکتے ہوئے کہا۔
’’ندا !وہ دیکھو۔۔وہ ۔۔وہ ارنیب مصدق نہیں لگ رہیں۔۔؟ارے ہاں۔۔ہمم۔۔وہی ہیں آؤ۔۔۔‘‘
صباءنے چونک کر ہاتھ میں پکڑے کانچ کے کڑے کو بیگ میں رکھا اور اسٹال پر قیمت رکھتے ہوئے برق رفتاری سے یاسر کے تعاقب میں قدم بڑھائے۔
’’۔۔سنیں۔۔آپ ۔۔ارنیب مصدق ہیں نا۔۔‘‘یاسر کی پرجوش آواز میں سامنے کھڑی خاتون نے
۱۴
پرسکون انداز سے چونکے بنا ہاتھ میں پکڑے دھوپ کے چشمے کو آنکھوں پر لگاتے ہوئے جواب دیا۔
’’نہیں۔۔‘‘
نہیں کی آواز اور جانے والی خاتون کے جاتے جاتے ندا بھی پہنچ چکی تھی۔یاسر کہہ رہا تھا۔
’’کمال ہے۔۔وہی لگ رہی تھیں۔۔مگر وہ ہوتیں تو چونکتیں تو سہی۔۔شاید مماثلت تھی۔‘‘
صبا اور ندا نے دور ہوتی خاتون کو دیکھ کر یاسر کی ہاں میں سر ہلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے چار بجے تھے۔گروپ تھک ہار کے واپس ہوٹل جا چکا تھا ۔ رات آٹھ بجے اُن کی روانگی تھی۔صباء گھنے درخت کے نیچے سنگی بینچ کے ایک کونے پر بیٹھ کر دوسری طرف بیٹھے وجود کو دیکھے بنا بولی۔
’’۔۔۔۔۔تو حاصل کو بھی چھوڑ دینا۔۔چہ معنی دارد۔۔جب کہ ملے ہوئے کو ، ملے نا بھی رہنےدیا جا سکتا تھا۔۔۔یہ میرے جیسے کم فہم انسان کی ترکیب ہے۔‘‘
’’ میں تمھارا ہی انتظار کر رہی تھی۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے کہ آپ کو معلوم ہو جائے گا۔۔‘‘
ارنیب مصدق ہلکے سے اپنے پرسکون بہتے پانی کے انداز مسکرا دی۔
صبا ء نے ایک گہری سانس لے کے کہا۔
’’۔۔تو حیرانی کا دائرہ بھی چھوڑ دینے کے ساتھ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘
’’ریاضت کے پہلے قدم پر۔۔‘‘
۱۵
’’۔۔تو پھر اب۔۔‘‘
صباء نے بے چینی سے کہا۔
’’مجھے پتا تھا، کہ تمھیں پتا ہے۔‘‘
’’۔۔آگے بھی کہیے ۔۔آج۔۔ نا دوڑایئے ۔۔‘‘
’’کچھ نہیں ۔۔چھوڑ دینے کے بعد ’’ قیمت ‘‘ اور ’’ ہمت ‘‘کا علم حاصل ہو گیا۔‘‘
’’۔۔تو بات تو اِس سے آگے کی بھی ہے۔۔‘‘
ارنیب نے مسکرا کے اٹھتے ہوئے صبا کا ہاتھ تھام کر کہا۔
’’وہ فن جس میں ریاضت نا ہو ،بے روح بُت ہے۔‘‘
’’بات تو اِس سے آگے کی بھی ہے۔۔‘‘
صبا نےا یک بار پھر ارنیب کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا تو وہ کھلکھلا دیں۔
’’ہاں! ہے ، بات تو اِس سے آگے کی بھی ہے۔۔‘‘
صباء کی خوشی اور سرشاری کی مقدار نے اُس کا چہرہ سُرخ کر دیا۔۔‘‘
’’کیاااا؟‘‘
’’ردِعمل کی چیخ ۔۔‘‘
’’سچ۔۔‘‘
صبا ءنے بے اختیار ارنیب کو گلے لگا لیا۔دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کے چلنے لگیں۔
صبا ء نے سرگوشی کی۔
۱۶
’’ردِعمل کی چیخ کیا کہے گی۔‘‘
’’وہ کہے گی۔۔اِس تعلق میں ہم دونوں نے خسارہ اُٹھایا۔۔میں نے تمھیں پا کے ۔۔اور تُم نے مجھے گنوا کے۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شُد

ریسرچر علم بشریات۔۔مصنفہ۔۔کاونسلر۔۔رویہ ساز۔۔پرسنیلیٹی میکر۔۔روحانی طبیبہ
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |