ایشیا میں نیزہ بازی: ارشد ندیم کی عظیم کامیابی
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
ایشیائی ایتھلیٹکس کی تاریخ میں پاکستان کو نیزہ بازی (جیولن تھرو) کے میدان میں سنہری لمحات نصیب ہوئے، جب 1970 کی دہائی میں محمد نواز جیسے کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے ہنر کا لوہا منوایا۔ تاہم یہ کامیابیاں وقتی ثابت ہوئیں اور وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان اس شعبے میں اپنی ساکھ کھو بیٹھا۔ پچھلے 52 برسوں سے پاکستان کے پاس ایشیائی سطح پر اس ایونٹ میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں تھی۔ یہ خلا نہ صرف قومی کھیلوں کی پالیسی میں سنجیدگی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ایتھلیٹکس جیسے اہم میدان میں حکومتی توجہ کے فقدان کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
ارشد ندیم نے اس سناٹے کو توڑتے ہوئے پاکستان کو ایک بار پھر فخر سے ہمکنار کیا۔ گزشتہ برس پیرس اولمپکس میں 92.97 میٹر کی شاندار تھرو کے ساتھ نہ صرف گولڈ میڈل حاصل کیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے پرچم کو سر بلند کیا۔ یہ صرف ایک انفرادی کامیابی نہیں تھی بلکہ پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز بھی تھا۔
حال ہی میں جنوبی کوریا کے شہر گومی میں منعقدہ ایشیائی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کے آخری روز ارشد ندیم نے 86.40 میٹر کی تھرو کے ساتھ چیمپئن شپ جیت کر پاکستان کے لیے 52 برس بعد دوبارہ اس ایونٹ میں فتح کا پرچم بلند کیا۔
ارشد ندیم نے چیمپئن شپ کے دوران مسلسل بہتر کارکردگی دکھائی جن میں پہلی تھرو، 75.64 میٹر، دوسری تھرو، 76.80 میٹر، تیسری تھرو، 85.57 میٹر، چوتھی تھرو، 83.99 میٹر اور آخری فاتح تھرو 86.40 میٹر شامل ہیں
ان کے مقابلے میں بھارت کے سچن یادو نے 85.16 میٹر اور جاپان کے یوٹا ساکی یاما نے 83.75 میٹر کی تھرو کی۔ پاکستان کے ایک اور ایتھلیٹ یاسر سلطان نے آٹھویں پوزیشن حاصل کی، جو قومی سطح پر دوسرے درجے کے کھلاڑیوں کی موجودگی اور ان کی صلاحیتوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔
ارشد ندیم کی شاندار کارکردگی پر صدر مملکت، وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، اور چیئرمین پی سی بی سمیت پوری قوم نے بھرپور انداز میں خوشی کا اظہار کیا۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے انہیں اعزازات، خلعتوں اور انعامات سے نوازا، جو کہ ایک مثبت قدم ہے۔
تاہم اس ستائش کے ساتھ ساتھ یہ لازم ہے کہ مستقل بنیادوں پر ایتھلیٹس کی سرپرستی کی جائے۔ صرف فتح کے بعد جشن منانا کافی نہیں؛ یہ تسلسل اور پالیسی سازی کا تقاضا کرتا ہے۔
ارشد ندیم ستمبر میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی تیاری اور شرکت کے لیے انگلینڈ روانہ ہوں گے۔ ان کے عزم اور حوصلے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے آبائی شہر میاں چنوں میں گھر کے آنگن کو تربیت گاہ میں تبدیل کر رکھا ہے۔ ایسے کھلاڑیوں کو عالمی معیار کی سہولیات دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ارشد ندیم کی کامیابی کسی فرد واحد کی جیت نہیں بلکہ پاکستان کے اس جذبے کی علامت ہے جو نامساعد حالات کے باوجود خود کو منوانا جانتا ہے۔ ایشیائی ایتھلیٹکس میں پاکستان کی یہ واپسی نہ صرف کھیلوں کی دنیا میں ایک نئی امید کی کرن ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ اگر حکومتی اور عوامی سطح پر مسلسل حمایت اور سہولتیں دی جائیں تو پاکستان ہر میدان میں چمک سکتا ہے۔
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سفارشات پر عمل کیا جائے۔ جن میں سر فہرست سرکاری سطح پر تربیتی کیمپوں کا قیام، علاقائی کھلاڑیوں کی شناخت اور سرپرستی، بین الاقوامی کوچز اور سہولیات کی دستیابی اور اسکول و کالج سطح پر نیزہ بازی کے فروغ کے لیے اقدامات شامل ہیں۔
ارشد ندیم ایک بے مثال پاکستانی ہیں، مگر پاکستان میں مزید کئی ارشد ندیم چھپے ہوئے ہیں۔ صرف ان کی تلاش اور تربیت کی دیر ہے۔
Title Image by andreas N from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |