اسلامی نشاۃِ ثانیہ، مذہبی جنگ یا علمی تحریک؟

“اسلامی نشاۃِ ثانیہ، مذہبی جنگ یا علمی تحریک۔۔۔؟”

اسلامی نشاۃِ ثانیہ، مذہبی جنگ یا علمی تحریک؟

ہمارے معاصر صحافی اور مصنف خواجہ حبیب صاحب نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کے اہم موضوع پر ایک ناول لکھا ہے جس کے لئے انہوں نے خاکسار کو اس پر تبصرہ لکھنے اور اس کا عنوان تجویز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ناول کا مطالعہ بوجوہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔ بہرطور حیران و ششدر ہوں کہ بحیثیت قوم نشاتہ ثانیہ کو ہم مسلمان عقیدے سے کیوں جوڑتے ہیں؟ جہاں علامہ اقبال جیسی عظیم ہستی نے “مذہبی نظریئے کی از سر نو تعمیر”
The Reconstruction of Religious Thought
جیسا معرکتہ آراء مقالہ لکھا ہو وہاں مجھ جیسے حروف جوڑنے والے حقیر لکھاری کی “کہاں پدی اور کہاں پدی کا شوربہ”، کے مصداق کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟

دراصل، نشاۃِ ثانیہ مستعار لی گئی مغربی اصطلاح ہے جسے انگریزی زبان میں renaissance یا “احیائے علوم کی تحریک” کہتے ہیں جس کا آغاز مغرب میں 14 ویں صدی میں اٹلی سے ہوا اور 17 صدی میں انگلینڈ پہنچ کر اس کا خاتمہ ہو گیا۔ درحقیقت، اس تحریک کی ابتداء بھی ایک کتاب کے لکھنے کے بعد ہوئی تھی جسے سب سے پہلے اٹلی کے مصنف جیکب بروچیٹ کی مشہور کتاب بعنوان، “سویلائزیشن آف دی رینائسینس ان اٹلی” میں بیان کیا گیا تھا لیکن بعد میں بے شمار لکھنے والوں نے اس کام کو ایک تحریک بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جس کو لیونارڈو ڈا ونسی، مائیکل اینگلو، میچا ولی اور میڈیسی فیملی نے بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا اور جسے مغربی مورخین جیسا کہ فرانسیسی تاریخ دان جولیئس مچلیٹ نے اس تحریک کو سب سے زیادہ نمایاں کیا اور اسے باقاعدہ ایک تاریخ بنا دیا جس وجہ سے مغربی دنیا میں سیاست، کلچر، فنون لطیفہ اور سائنسی علوم کے میدان میں ایک “”انقلاب”” برپا ہو گیا جس کے بعد یورپ “مڈل ایجز” سے نکل کر باقی ماندہ ترقی یافتہ دنیا کے برابر کھڑا ہو گیا بلکہ اس سے بھی کہیں آگے نکل گیا جس کے بل بوتے پر یورپ اور امریکہ ابھی تک بلاشرکت غیرے پوری دنیا پر راج کر رہے ہیں۔

قیام پاکستان سے قبل علامہ محمد اقبال نے 1930 کے اپنے الہ آباد کے خطبے میں قیام پاکستان کا نقشہ پیش کیا تھا جسے “خواب پاکستان” کہا جاتا ہے جبکہ ان کی متحرک شاعری کا زیادہ تر حصہ بھی قیام پاکستان کے پس منظر میں “”اسلامی نشاۃِ ثانیہ”” کے گرد گھومتا ہے جسے وہ “طلوع اسلام”، “شاہین”، “خودی” اور “مومن” جیسے اپنے آفاقی اور عالمگیر تصورات میں پیش کرتے ہیں مثلا ان چند اشعار پر غور کریں:

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں،
ادھر ڈوبے، ادھر نکلے ادھر ڈوبے، ادھر نکلے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے،
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیؐ سے مجھے

کہ، عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

حتی کہ علامہ محمد اقبال کی پوری شاعری اور فلسفے کا نچوڑ یہ ہے کہ وہ الہامی پیغام کو انسانی عظمت اور عروج آدمیت سے ملاتے ہیں اور دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے “احیاء” کو عقیدے کی بجائے جدید علمی ترقی اور عروج سے جوڑتے نظر آتے ہیں جس کا واضح اظہار انہوں نے اپنے مقالے میں کیا (جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے) یعنی علامہ اقبال نے دینی عقیدے کے استحکام کو بھی جدید سائنسی علوم کی ترقی سے وابستہ کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ انہوں نے واقعہ معراج جیسے عظیم الشان واقعہ کو بھی سائنسی علوم کی ترقی کا زینہ قرار دیا تھا جس کی ابتداء عملی طور پر سرسید احمد خان نے 27 دسمبر 1886ء کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھ کر کی تھی (مگر افسوس ہے کہ بعد میں آنے والے کسی مفکر نے اس سلسلے کو ذرا برابر بھی آگے نہیں بڑھایا ہے)!

جبکہ اس کے برعکس متحدہ ہندوستان کے مسلمان علمائے کرام نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور نشاۃِ ثانیہ کے خواب کو دنیا میں علمی ترقی کی بجائے عقیدے کی ترقی سے جوڑ دیا۔ آج انہی علمائے عظام نے قرآن و حدیث کے حوالوں سے “حضرت عیسی علیہ السلام” اور “امام مہدیؑ” کی آمد اور “غزوہ ہند” وغیرہ کو مسلمانوں کے دوبارہ عروج کو ایک راسخ عقیدے کے طور پر باور کرا رکھا ہے۔ یعنی ہم مسلمانوں نے “جوج ماجوج” اور “دجال” کا خاتمہ “”علم”” سے نہیں، “تلوار” سے کرنا ہے اور یہ عروج دوبارہ ہمیں قرب قیامت کے قریب حاصل ہونا ہے۔۔۔!!!

مسلم اُمہ کی بہت بڑی تعداد اس تصور کو سینے سے لگا کر جی رہی ہے کہ ایک نہ ایک روز سورج مسلمانوں کے عروج کی نوید لے کر ضرور ابھرے گا کیونکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا یہ وعدہ گذشتہ صدی کے تمام بڑے مسلم مذہبی و سیاسی مشاہیر و اکابرین بڑے طمطراق سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اس پر مستزاد کچھ خود ساختہ لکھاری اور دانشور یورپ اور امریکہ میں 2050ء تک سیمول ہنٹنگٹن کی کتاب “تہزیبوں کا تصادم” کی روشنی میں یورپ اور امریکہ میں پھیلتے ہوئے اسلام کو مسلم نشاۃِ ثانیہ کے مترادف قرار دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہے ہیں۔ حالانکہ وہاں پیدا ہونے والے مسلمان تیزی سے الحاد اور مغربی کلچر میں مکس ہو رہے ہیں اور ان کی دوسری اور تیسری نسل کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ اسلام کس چڑیا کا نام ہے اور اس کی اصل طاقت کیا ہے؟ اگر قرآن کی پہلی آیت “اقراء” اور “ملائک مسجود” کا مطلب علم کی بجائے صرف جنگ و جدل اور سہل انسانی خون کی ترویج و سبیل ہے تو پھر سرسید اور علامہ اقبال کے علاوہ روسو، وولٹیئر اور روبسپیئر وغیرہ کے خیالات و افکار کا جادو جو یورپی نشاۃِ ثانیہ میں سر چڑھ کر بولتا رہا تھا اور جس کے سامنے صدیوں سے رائج پاپائیت اور بادشاہت کی فلک بوس دیواریں دھڑام سے زمین پر آ گری تھیں، ان خیالات و افکار کو بھی فی الفور تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جانا چایئے۔

نسل انسانی کا علمی سفر پہلے رکا ہے اور نہ ہی آئندہ رکے گا مگر مسلمان اس نکتہ کو نہ سمجھ سکے تو ان کا سنہرا دور اب صرف ماضی کی یاد بن کر ہی رہ جائے گا کیونکہ اقوام علم کی بنیاد پر ترقی کرتی ہیں نہ کہ فریب زدہ روایات اور عقائد کی جنگ پر کرتی ہیں۔ اہل فکر کے سامنے آج یہی چبھتا ہوا سوال ہے کہ مسلم دنیا کا یہ عروج والا زمانہ واپس لوٹ بھی سکتا ہے یا نہیں؟

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

 پرائمری سکول ملہووالہ بلڈنگ اینڈ فرنیچر

منگل اپریل 25 , 2023
1961 میں سکول لاہنی مسجد کے پاس تھا۔ اس کے دو حصے تھے ۔ اتیا / اُتلا سکول اور تھلیا سکول۔
 پرائمری سکول ملہووالہ بلڈنگ اینڈ فرنیچر

مزید دلچسپ تحریریں