بکنے والے گھوڑے اور لاتیں مارنے والے گدھے!

بکنے والے گھوڑے اور لاتیں مارنے والے گدھے!

Dubai Naama

بکنے والے گھوڑے اور لاتیں مارنے والے گدھے!

افریقہ کے کسی پسماندہ ملک کے جنگل کا واقعہ ہے کہ وہاں ایک “گھوڑے” کی اسامی نکلی۔ عرصے سے ایک بے روزگار “گدھا” ہر جگہ عرضی بھیجتا رہتا تھا، اُس نے تنگ آ کر اِس اسامی کیلئے بھی درخواست جمع کرا دی۔ اتفاق سے کسی گھوڑے نے درخواست نہیں دی تو اسی گدھے کو ہی گھوڑا تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دیدی گئی۔ ایک دن گھوڑے کو پتہ چلا کہ جنگل میں گھوڑے کی ایک اسامی پر ایک گدھا کام کر رہا ہے اور اسے گھوڑے کا مشاہرہ اور مراعات مل رہی ہیں۔ گھوڑے کو اس ناانصافی پر سخت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل گدھے کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹے بدن والا گدھا ایک گھوڑا بن کر مزے اڑا رہا ہے۔ گھوڑے نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا ذکر کیا تو سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔ گھوڑے نے فوری طور پر جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی۔ جب ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی اور کوئی جواب نہ بن پایا تو اس نے شکایت والی فائل جنگل کی انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑوانے کیلیئے چند سینیئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے گدھے کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک گھوڑا ہے۔

دوسرے دن گدھے نے کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک گھوڑا ہے۔ کمیٹی نے غلط دعوی دائر کرنے پر گھوڑے کی سرزنش کرتے ہوئے اسے قید و بند کی سزا دینا چاہی اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ ایک گھوڑا ہے؟ اس پر اس گھوڑے کو مجبوراً اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک گدھا ہے۔ تب کمیٹی نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے لکھا: “سچ یہ ہے کہ ڈیوٹی پر مامور وہ گدھا ہی ایک گھوڑا ہے۔ لھذا بغیر ردو بدل کے دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر یونہی فرائض انجام دیتے رہیں گے۔” گھوڑے نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔ گدھے کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو گدھے نے کہا: “میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کس طرح ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے رکن چیتے تھے اور ان کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے کہ قانون اور عدلیہ کی طاقت ہاتھ میں ہو تو ان کی نسلوں میں مرضی سے تبدیلی کرنا اتنا کوئی بڑا مشکل کام نہیں ہے۔

یہ ادب پارہ محض ایک افسانہ ہے مگر ہمارے ملک کی سیاست میں گزشتہ نصف صدی سے ایسا حقیتا ہوتا چلا آ رہا ہے کہ پہلی بار چھانگا مانگا کے جنگل میں الیكشن جیتنے والے ممبران کو گھوڑوں اور گدھوں کی طرح اکٹھا کر کے جس طرح چالاکی اور مکاری سے عوام کا حق رائے دہی بدلا گیا تھا اس کی انہیں لت لگ گئی۔ اقتدار کی خاطر ہمارے سیاست دان جہاں اپنا ضمیر بیچنے کے عادی ہو گئے وہاں وہ ایک دوسرے کے سیاسی انتقام کا نشانہ بننے اور قید و بند بھگتنے سے بھی نہیں گھبراتے ہیں. اس وقت 2024 میں عمران خان سزا یافتہ قیدی کے طور پر سلاخوں کے پیچھے ہیں اور نااہل بھی ہیں۔ یہی سچویشن 2018ء میں نوازشریف کو درپیش تھی کہ وہ سزایافتہ قیدی تھے اور نااہل بھی تھے۔ ہمارے آباو’ اجداد گھوڑوں کو سواری کیلئے پسند کرتے تھے. ان کے ابلق گھوڑے دُنیا بھر میں مشہور تھے. ان کے گھوڑے میدان چھوڑ کر بھاگتے نہیں تھے بلکہ وقت کے بھیڑیوں کی تلاش میں میدان ڈھونڈتے تھے. ان نسلی گھوڑوں کو پتہ ہوتا تھا کہ انہوں نے اپنے سواروں کو صرف میدان تک پہنچانا ہے پھر وہ سوار بھیڑیوں کا خود شکار کر لیں گے. جبکہ امریکی گدھوں کو پسند کرتے ہیں. وہ خود محنت کش گدھوں کی طرح مشقت کرتے ہیں اور دوسرے ممالک میں وہ ٹٹو نما ایسے نکمے گدھے ڈھونڈتے ہیں جو ان کے مخالفین کو لاتیں رسید کر سکیں یا ان کے مفادات کی برداری کا کام سرانجام دیں. ہمارے سیاست دان اپنے آباو’ اجداد کی ابلقی سواریوں اور ان کے اخلاص نیت کو بھول کر اپنوں اور غیروں کے لیئے “بکاو گھوڑوں” اور “لات مار گدھوں” والے کام کرنے میں مصروف ہیں.

8 فروری 2024 کے االیکشن  میں تو آزاد امیدواروں کی پوری پود لگائی گئی جو جیت کر 29 فروری کو اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔ جس طرح اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور جیسے اسے مختلف پہلوؤں سے متنازعہ بنایا گیا یہ یقینا جنگل کا سماں پیش کر رہا تھا کہ جہاں کسی معذب اور تہذیب یافتہ ملک کا نہیں بلکہ جانوروں کے کسی جنگل کا قانون رائج تھا۔ آثار یہی نظر آتے ہیں کہ جیسا الیکشن ہوا آئیندہ اجلاسوں میں ہنگامہ آرائی اور ہلڑ بازی بھی ویسی ہی ہو گی۔ سیاست کی جو نسل خصوصی طور پر اس الیکشن سے پہلے تیار ہوئی اس پر یہ گدھے سے گھوڑا اور گھوڑے سے گدھا بننے والی کہانی عین صادق آتی ہے۔ بلفرض عوام مایوسی کا شکار نہ بھی ہوں اور وہ پرامید اور آپٹیمسٹک بھی رہے تو سیاست دانوں کی کم از کم یہ کھیپ مفلوج عوام کی امنگوں پر پوری اترنے والی نہیں ہے۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی شکل میں پی ڈی ایم نے اقتدار کی باری لینی ہے لے لے مگر حقیقت یہی ہے کہ موجودہ سیاست دان جنگل کے گھوڑوں اور گدھوں کی طرح الیکشن لڑ کر صرف اپنا “بہروپ” بدلتے ہیں تاکہ وہ عوام کو دھوکہ دے سکیں، مصدقہ سچ یہی ہے کہ انہیں عوام کی تقدیر بدلنے سے کوئی غرض نہیں ہے:

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ،
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا.

Title Image by Rebekka D from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

دنیا کی درسگاہوں کی رینکنگ اور مسلم دنیا کا علمی زوال

پیر فروری 26 , 2024
دنیا پر آج تک جتنی بھی قوموں نے حکومت کی ہے وہ اپنے وقت کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قومیں تھیں۔
دنیا کی درسگاہوں کی رینکنگ اور مسلم دنیا کا علمی زوال

مزید دلچسپ تحریریں