جشن آزادی 2025ء کی تقریبات
انجینئر محمد جاوید یوم جشن آزادی پاکستان کا استعارہ ہیں۔ وہ پاکستان میں ہوں یا متحدہ عرب امارات، ہر سال یوم پاکستان باقاعدگی سے مناتے ہیں۔ اگست کا پہلا ہفتہ انہوں نے لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں یوم آزادی اور معرکہ حق کی تقریبات میں شرکت کرتے گزارا اور 12 اگست کو واپس راس الخیمہ پہنچے تو انہوں نے فون کر کے بتایا کہ 14 اگست کو یوم آزادی منانے کا احتمام ابوظہبی رمادا ہوٹل میں کیا ہے۔
پاکستان ایسوسی دبئی (پیڈ) اور دبئی پولیس کی جانب سے 13 اگست کو ایکسپو سنٹر دبئی میں جشن آزادی کی ایک شاندار تقریب کا احتمام کیا گیا تھا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی متحدہ عرب امارات کے رواداری اور بقائے باہمی کے وزیر عزت مآب شیخ نہیان بن مبارک النہیان تھے۔ اطلاعات کے مطابق یہ دنیا بھر میں جشن آزادی پاکستان کا سب سے بڑا پروگرام تھا۔ اس میگا ایونٹ میں شرکت کے لئے 60,000 سے زائد افراد نے رجسٹریشن کروائی تھی جس میں پاکستان سے آئے معزز مہمانوں (بشمول کرکٹر شاہد آفریدی)، فنکاروں اور گلوکاروں نے چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت، بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے ثقافتی پروگراموں کی نمائندگی کی، جس میں یوم آزادی کے حوالے سے تقاریر ہوئیں، پاکستانی رقص اور گیت پیش کیئے گئے اور اختتام پر طرح طرح کے کھانوں کے ساتھ مہمانوں کی تواضع کی گئی۔
امریکہ میں 13 اگست ہی کو پاک امریکن سوسائٹی کے زیرِ اہتمام “جیوے جیوے پاکستان” کے عنوان سے آزادی کی شاندار تقریب کا احتمام نیویارک بروکلین میں کیا گیا تھا، جس میں پاکستانی کمیونٹی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جوش و خروش کے ساتھ بھرپور شرکت کی تھی۔ جشن آزادی پاکستان کی یہ تقریب صدر پاک امریکن سوسائٹی شمس الزماں کے زیر صدارت منعقد ہوئی تھی۔ تقریب کے معزز مہمانوں میں نیویارک اسٹیٹ سینیٹر، پاکستان کے ڈپٹی قونصل جنرل عمر شیخ، ڈاکٹر چوہدری اشرف اور ڈاکٹر شہباز خان وغیرہ شامل تھے۔ اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی مشیر امریکی پاکستانی ڈاکٹر غلام مجتبی نے نیو نیویارک میں الگ سے اپنے گھر پر جشن آزادی کی تقریب منعقد کی۔ جبکہ اسی طرح برطانیہ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں بھی جشن آزادی کی بہت ساری تقریبات کا انعقاد ہوا۔ یوں گزشتہ کئی سالوں سے اس دفعہ منفرد انداز میں دنیا بھر میں جشن آزادی منایا گیا، جو 14اگست کے اس تاریخی دن کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک خوبصورت انداز ہے۔
دبئی سے ابوظہبی جانے کے لیئے جب انجینئر محمد جاوید نے مجھے ڈیرا دبئی سے پک کیا تو دوپہر کے 3 بج رہے تھے۔ پروگرام شام ساڑھے پانچ بجے شروع ہونا تھا۔ پاکستان کی 78ویں سالگرہ کا رعب اور تقدس زہن پر پہلے ہی سوار تھا۔ ہم سارے راستے پاکستانی کلچر، ثقافت، حب الوطنی اور برق رفتار ترقی نہ کر سکنے کی وجوہات پر گفتگو کرتے رہے۔ لیکن حالیہ پاک بھارت مختصر جنگ اور "آپریشن بنیان مرصوس” کی کامیابی نے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک نیا بلند مقام عطا کیا ہے۔ جب ہم ہوٹل پہنچے تو پروگرام کا آغاز ہو چکا تھا اور تقریب کے مہمان خصوصی اور گلف پیپلز پارٹی کے صدر میاں محمد منیر ہنس تقریر کر رہے تھے۔
14 اگست برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا وہ واحد دن ہے جب ہندوستان کو دو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا جس کے نتیجے میں کروڑوں افراد بے گھر ہوئے اور انہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کی، لاکھوں افراد قتل ہوئے اور ہزاروں خواتین کی عزتیں لٹیں۔ اس حوالے سے بعد میں آنے والے مقررین نے آزادی پاکستان کی اہمیت پر دل کھول کر روشنی ڈالی۔ جشن آزادی کے اس پروگرام کا احتمام پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے کیا تھا جس کے بانی ممبر اور وائس چیئرمین ڈاکٹر قیصر انیس نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کا وجود کوئی اساطیری کہانی نہیں، بلکہ یہ ان عظیم قربانیوں کی داستان ہے جس کی بنیاد پر آج پاکستان "ایٹمی طاقت” کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ اس پروگرام کو حبیب بنک، یونائیٹڈ بنک، سٹیٹ لائف انشورنس، آدم جی انشورنس، گرومیکس اور تواسل انشورنس نے سپانسر کیا تھا۔ ڈاکٹر قیصر انیس نے ان سب سپانسرز اور دیگر شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ دیگر تقاریر کرنے والوں میں کونسل کے اعلی عہدیداران اقبال نسیم، جمیل ابوبکر اور ڈاکٹر موسی شامل تھے۔ مقررین کی اکثریت نے پاک امارات دوستی کا ذکر بھی کیا اور متحدہ عرب امارات حکومت کا پاکستان کے بنکنگ اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا بھی شکریہ ادا کیا۔
جشن آزادی کا کیک کاٹنے سے پہلے تالیوں کی گونج میں بزنس کونسل راس الخمیہ اور فجیرہ کے کوآرڈینیٹر انجنیئر محمد جاوید آگے بڑھے اور انہوں نے اپنی مختصر تقریر کے بعد کونسل کے ممبران کے لیئے ایوارڈز کا اعلان کیا جس میں کمیونٹی اور صحافتی خدمات کے بدلے روزنامہ "اوصاف” کے نمائندے اور کالم نگار (راقم الحروف)، جوسف علی اور ہفتہ روزہ "پاکستان” کے ایڈیٹر انچیف چوہدری ارشد سرفہرست تھے۔ اسی دوران کونسل کے کوآرڈینیٹر انجنیئر محمد جاوید صاحب نے اعلان کیا کہ روزنامہ اوصاف کے صحافی جوسف علی کو کونسل کا "میڈیا کوآرڈینیٹر” مقرر کیا جاتا ہے۔ تب قومی نغموں کی دھنوں کے درمیان کیک کاٹنے کے لیئے انجنیئر محمد جاوید صاحب نے ہی میان سے تلوار نکالی اور کیک کاٹنے کے لیئے میاں محمد منیر ہنس کے حوالے کر دی۔
اس پروگرام کی ایک خاص بات اس میں شامل کچھ غیر ملکی مہمانان تھے جن میں امریکی سفارت کار مس ایتھل اور ایک برطانوی عہدیدار مسٹر سٹیون شامل تھے۔ ایک دو انڈین مہمانوں کو بھی اس جشن آزادی پاکستان کے پروگرام میں دیکھا جس میں سے ایک نے کھڑے ہو کر پاکستانی شرکاء کو جشن آزادی کی مبارک باد پیش کی۔ پروگرام میں عراقی بزنس کونسل بھی موجود تھے جبکہ ایک پاکستانی کنیڈا سے خصوصی طور پر اس تقریب میں شرکت کرنے کے لیئے آئے تھے۔ پروگرام کے اختتام اور ڈنر سے پہلے عام شرکاء کو بھی مختصرا تقاریر کا موقع دیا گیا جس میں زیادہ تر خواتین نے تقاریر کیں جن میں میڈم سحر اور
شازیہ صدیقی نمایاں تھیں، جبکہ کونسل کے عہدیداروں اور مہمانوں میں محمد احمد، انجم راشد، مشکور مرشد، فرمان حیدر، ظفر اقبال چوہدری، طارق جاوید قریشی، محمد شفیق گوجر خانی اور طارق محمود بٹ صاحب شامل تھے۔
جب میں کھانے کی میز پر پہنچا تو مجھے پاکستانی سفارت خانہ کا احساس ہوا جس کا کوئی نمائندہ تقریب میں شامل نہیں تھا۔ میں نے پاکستان کے سفیر عزت مآب فیصل نیاز ترمذی صاحب کو میسج کیا، "ہم آپ کو یاد کر رہے ہیں”، تو انہوں نے پاکستانی سفارت خانہ ابوظہبی میں جشن آزادی کے پروگرام کی ایک مختصر لائیو ویڈیو مجھے بھیج دی۔ تب معلوم ہوا کہ ابوظہبی کے رمادا ہوٹل اور سفارت خانہ پاکستان جشن آزادی کے دونوں پروگرامز بیک وقت چل رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انجینئر جاوید صاحب نے کہا، "جلدی نکلتے ہیں ہمیں ایک اور پروگرام میں جانا ہے۔” میں سمجھا شائد ہم پاکستان ایمبیسی جا رہے ہیں مگر دس پندرہ منٹ بعد ہماری گاڑی "لال قلعہ ریسٹورنٹ” کے باہر رکی۔
لال قلعہ ریسٹورنٹ میں منعقدہ اس پروگرام کے مہمان خصوصی انجنیئر محمد جاوید صاحب تھے۔ ریسٹورنٹ کے بڑے دروازے پر پاکستان کا جھنڈا چسپاں تھا، اندر داخل ہوئے تو وہاں بھی پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے جھنڈے ایک اونچی دیوار پر لگے دکھائی دیئے، کھانے کے تمام ٹیبلوں پر غبارے اور جھنڈیاں لہرا رہی تھیں۔ اس تقریب کا احتمام سکندر بھٹی نے کیا تھا۔ اس پروگرام میں ارشد چوہدری اور محمد زبیر بھی ہمارے ساتھ تھے، جس کے بعد کیک کاٹنے کی تقریب ہوئی اور پھر تمام مہمان طرح طرح کے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔
مسلم لیگ جس نے ہندوستان کی تقسیم کروا کر پاکستان کو الگ ملک بنوایا اس کی ساری سرگرمیاں، اکثر لیڈرشپ اور غالب اکثریت ہندوستان کے ان علاقوں سے تھی، جو آج ہندوستان میں شامل ہیں۔ جن علاقوں میں آج پاکستان ہے، یہاں مسلم لیگ کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی، نہ لاہور کے ایک دو اجلاسوں کے علاؤہ انکی یہاں کوئی سیاسی سرگرمیاں موجود تھیں۔ پنجاب جو آج اصل پاکستان سمجھا جاتا ہے، یہاں پر یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے سر چھوٹو رام اور خضر حیات ٹوانہ کی اتحادی حکومت تھی، جو پاکستان کی تشکیل کے خلاف تھے۔ سر چھوٹو رام سمجھتے تھے کہ پاکستان بن گیا تو پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے "یونینسٹ پارٹی” بھی ٹوٹ جائے گی، جبکہ خضر حیات کا خیال تھا کہ پاکستان بننے سے پنجاب نہیں ٹوٹے گا۔
وہ لوگ جو پاکستان بنانے میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، آج کل پاکستان میں "مہاجر” کہلاتے ہیں، انہوں نے اچھی نوکریوں، اچھے روزگار اور روشن مستقبل کی خاطر پاکستان میں ہجرت کی، اور انہی میں سے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں نومولود پاکستان کی زمام حکومت بھی آئی۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جب یہ بنا، تو لوکل ابادی کی بجائے، لوکل آبادی پر باہر سے ہجرت کر کے آنے والوں نے حکومت کی۔ پاکستان کو "مذہبی تجربہ گاہ” بنانے کا خواب آج تک تشنہ تکمیل ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک تھا، جس کے دو حصے تھے، جو ایک دوسرے سے ہزار کلومیٹر دور تھے اور دونوں حصوں میں دو ایسی اقوام رہتی تھیں، جن کی زبان، کلچر، روایات، آبادی، تعلیمی تناسب، تاریخ اور مستقبل کی خواہشات ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔ نہ صرف یہ کہ قائد اعظم کو وہ پاکستان نہیں ملا، جس کے قیام کے لیئے انہوں نے جدوجہد کی تھی یا ان سے وعدہ کیا گیا تھا، بلکہ قائد اعظم کو اس پاکستان کی بنیاد رکھنے کا بھی موقع نہیں دیا گیا جس کے لیئے انہوں نے آزادی کی عظیم الشان جدوجہد کی تھی، یا جیسا کرنے کا ان کا ارادہ تھا۔ وہ مذہبی قوتیں جنہوں نے قائد اعظم کی نیت، عقیدہ اور خود پاکستان کی مخالفت کی تھیں، برطانیہ کی باقیات کے ساتھ مل کر پاکستان پر مسلط ہو گئیں اور آج تک اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔
جن کو قائد اعظم نے اپنی جیب کے کھوٹے سکے کہا تھا، وہ پاکستان کے مقتدر رہنما بن گئے ہیں، اور جنہوں نے قائد اعظم کے اصل پاکستان کو ان کھوٹے سکوں سے واگذار کرنے کی جدوجہد کی تھی، وہ پاکستان کے غدار کہلائے۔ مشرقی پاکستان سندھ بلوچستان اور پختونخوا کے جمہوریت پسند اور آئین مانگنے والے سیاستدانوں کو تو چھوڑ دیں، قائد اعظم کی اپنی بہن فاطمہ جناح کو بھی "غدار” کہا گیا۔ پاکستان کی موجودہ حالت اسی نوع کے موقع پرست نام نہاد لیڈران، پارٹیوں اور ان کے ذاتی مفادات کی وجہ سے بنی ہے، جنھوں نے پاکستان پر آج تک حکومت کی ہے۔
جشن آزادی کی اس بار تقریبات نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مثالی طور منعقد ہوئی ہیں۔ 22 مارچ سے 24 مارچ، 1940ء کو لاہور کے "منٹو پارک” میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لئے عليحدہ وطن کے حصول کے لئے تحریک شروع کی اور صرف 7 برس کے مختصر عرصہ کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ آج پاکستان کو معرض وجود میں آئے 78 برس بیت گئے ہیں مگر وہ مقاصد ابھی تک حاصل نہیں ہوئے جس کے لیئے پاکستان بنانے کے لیئے اتنی بڑی تاریخی قربانیاں دی گئی تھیں۔ اس موقع پر قیام پاکستان کی بنیاد میں ایک یہ نعرہ شامل کیا گیا تھا کہ "اب نہیں تو کبھی نہیں” (ناوُ آر نائیور)، آج جس مقام پر پاکستان کو قدرت نے لا کھڑا کیا ہے، اچھا موقع ہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے کہ ابھی بھی 14 اگست کا "اصل پاکستان” بنانے کا خواب پورا نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہو گا۔
رات گئے جب دبئی واپس جا رہے تھے تو پاکستان سمیت دنیا بھر سے 14 اگست کے جشن آزادی کے شاندار پروگراموں کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔ اب پاکستان کو تیز رفتاری سے ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ چین پاکستان کے دو سال بعد 1949ء میں آزاد ہو کر کہاں سے کہاں نکل گیا ہے۔ اس جدوجہد میں پوری قوم شامل ہو جائے مگر درحقیقت جو کرنا ہے "مقتدر طبقہ” نے کرنا ہے، آو مل کر آج یہ دعا کریں:
"خدا کرے میری ارض پاک پر اترے،
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو۔
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں،
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |