سنہری دور اور مکافات عمل
صدر ایوب خان کے بارے یہ مصرعہ بہت مشہور ہوا تھا کہ، "تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد”۔ یہ فقرہ آج بھی کچھ سفری گاڑیوں، کاروں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھا نظر آتا ہے۔ صدر ایوب خان پاکستانی تاریخ کے واحد فوجی حکمران ہیں جنہوں نے اقتدار باعزت طریقے سے چھوڑا۔ اس کے باوجود کہ ایوبی دور کو پاکستان کی زرعی اور صنعتی ترقی کا "سنہری دور” کہا جاتا ہے۔ ان پر بہت سارے الزامات بھی ہیں جس میں مارشل لاء اور مادر ملت فاطمہ جناح کو "غدار” کہنا اور انہیں صدارتی الیکشن میں دھاندلی سے شکست دینا شامل ہیں۔ یہی نہیں گوجرانوالہ میں ایوب خان کے ایک سیاسی چمچے نے محترمہ فاطمہ جناح کی بے ادبی بھی کی تھی جس میں اس نے ایک کتیا کے گلے میں ایک نعرہ درج کر کے اس کے گلے میں ڈالا تھا جس پر محترمہ "فاطمہ جناح” کا نام لکھا تھا۔ یہ واقعہ ہماری بے وفا، بے ضمیر اور احسان فراموش قوم کی نمائندگی کرتا ہے۔ جس سیاستدان نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن کے ساتھ یہ گستاخی کرنے کی جرات کی تھی اس کی پشت پناہی ایوب خان کی انتظامیہ کر رہی تھی۔ اس اخلاق سے عاری اور بدتمیز سیاست دان کی کسی نے سرزنش کی اور نہ ہی اسے کوئی سزا ہی دی گئی۔
صدر ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی ضرور ہوئی۔ انہی کے دور میں چینی صدر المعروف "چواین لائی” پاکستان کی صنعتی ترقی کو دیکھنے کے لیئے 1964ء میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ چینی صدر کا اصل نام "چن جن پنگ” تھا، نہ کہ "چون لائی” تھا۔ انہوں نے لاہور میں سہراب سائیکل کی فیکٹری کا خصوصی دورہ کیا تھا اور پاکستان کی صنعتی ترقی کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ واپسی پر چین جا کر انہوں اسی طرز کی سائیکل کی فیکٹریاں لگائی تھیں۔ ایوب خان کی مثالی صنعتی ترقی کا یہی دور تھا جب لاہور، فیصل آباد اور کراچی کے گردونواح سے فیکٹریوں کا دھواں آسمان کو چھوتا تھا۔
صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان پر کوئی قرضہ نہیں تھا۔ پاکستان قرض لینے کے بجائے دینے والے ممالک میں شامل تھا. اس دور میں پاکستان نے جرمنی جیسے ملک کو 120 ملین کا ترقیاتی قرضہ دیا۔ ایوب خان نے جب اقتدار سنبھالا تو ڈالر 4 روپے کا تھا اور 11 سال بعد جب وہ چھوڑ کر گیا تب بھی ڈالر 4 روپے کا ہی تھا۔
ایوب خان کے دور ہی میں ایک اور چینی وفد پاکستان آیا تو حبیب بینک کی عمارت دیکھ کر حیران رہ گیا تھا اور وہ پاکستان سے اسکا ڈیزائن لے کر گیا تھا۔ اس دور میں کراچی کا مقابلہ لندن اور نیویارک سے کیا جاتا تھا۔ ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کی شرح پاکستانی تاریخ کا ریکارڈ 9 فیصد تھی۔ یہ شرح آج کے دور میں چین کی ہے۔ بے روزگاری کی شرح 3 فیصد تھی جو پاکستان کی تاریخ میں کم ترین ہے۔ جب ان کو اقتدار ملا تو قومی بچت جی ڈی پی کا 2.5 تھی۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ 10.5 فیصد پر پہنچ گئی۔ ایوب خان کی حکومت میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا سر پلس بجٹ پیش کیا گیا تھا۔ اسی دور میں جنوبی کوریا نے تیز رفتار ترقی کے لیئے پاکستان سے اس کا 5 سالہ منصوبہ لے کر اس پر عمل کیا تھا۔ ان کے دور میں ملک بھر میں بینکوں کی تعداد میں 5 گنا جبکہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد میں 11 گنا اضافہ ہوا تھا۔ سٹاک ایکسچینج نے 1.7 ارب سے 5.2 ارب کی چھلانگ لگائی تھی۔ سٹاک ایکسچیج میں رجسٹر کمپنیوں کی تعداد 81 سے 282 ہو گئی تھی۔ پاکستان نے پہلی بار آٹو موبائل آئل، ریفائنری اور سیمنٹ کی انڈسٹری میں قدم رکھا۔
پاکستان میں گیس کے میٹر نہیں ہوتے تھے اور نہایت معمولی سا فکس بل آتا تھا۔ پاکستان کے قومی ادارے اپنی ترقی کی معراج پر تھے مثلاً پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ائر لائنز میں کیا جاتا تھا اور اس میں امریکن صدور تک سفر کیا کرتے تھے۔ پی آئی اے ایشیاء کی پہلی ائر لائن تھی جس کے پاس جیٹ طیارے تھے۔پاکستان کی ٹرینیں صاف ستھری ہوتی تھیں۔ ان میں پنکھے، لائیٹیں بلکل ٹھیک ہوتے تھے۔ باتھ روم صاف اور بڑے بڑے اور سب سے بڑھ کر ٹرینیں وقت پر چلتی تھیں۔ پاکستان سٹیل مل کے تمام سرویز، فیزیبلٹیز اور سارا کاغذی کام ایوب خان کے دور میں مکمل کیا گیا تھا جسکے بعد یحی خان نے 1969 میں روس کے ساتھ اسکا معاہدہ کیا تھا۔ منگلہ اور تربیلہ ڈیم کی تعمیر سمیت کئی بڑے اور بہت سارے چھوٹے ڈیم بنائے گئے جو آج بھی ملک میں سستی بجلی مہیا کر رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان کے اہم ترین بیراج ، ہیڈورکس اور نہریں بنائی گئیں نہروں کی کل لمبائی 56073 کلومیٹر تک پہنچا دی گئی تھی جس کے بعد پاکستان دنیا میں سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک بن گیا تھا۔ یہ بیراج اور نہریں آج بھی پاکستان کی کل جی ڈی پی میں 23 فیصد حصہ ڈالتی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات میں ان کا حصہ 70 فیصد ہے اور یہ ملک کی 54 فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔
ایوب خان کے دور میں فصلوں پر جہازوں کے ذریعے سپرے کیا جاتا تھا۔ ایوب خان نے چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ کیا جس سے پاک چین دیرپا تعلقات کی بنیاد پڑی جو آج بھی پاکستان کے کام آ رہی ہے۔ ایوب خان کی حکومت میں اسلام آباد کی صورت میں پاکستان کا نیا دارلخلافہ بنایا گیا۔
ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکی صدر اپنی تمام کابینہ، تینوں افواج کے سربراہان اور امریکن عوام کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ ان کے استقبال کے لیئے ائر پورٹ پر پہنچے۔ ایوب خان کے دور میں 65 ء کی جنگ میں پاکستان نے اپنے سے کئی گنا طاقتور انڈیا کے حملے کو ناکام بنایا۔ پاک فوج نے نہ صرف کئی انڈین علاقوں میں پیش قدمی کی بلکہ انڈیا کے ٹینکوں اور جہازوں کی بہت بڑی تعداد کو تباہ کر دیا جس کے بعد انڈیا امریکہ کے پاس سیز فائر کی درخواست لے کر گیا۔
اس مثالی ترقی کے باوجود صدر ایوب خان اپنے کردار سے مارشل لاء کی کالک دھو سکے اور نہ ہی اس گستاخی کا ازالہ کر سکے جو انہوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی شان میں کروائی تھی۔
صدر ایوب خان کے مداحوں میں بااثر شخصیات شامل تھیں۔ فرانس کے ڈی گال سے لے کر امریکی صدر جانسن تک مغربی لیڈران پاکستان میں اقتصادی ترقی کے گن گاتے تھے۔
حتیٰ کہ اُس دور کے عالمی بینک کے صدر ربرٹ مک نمارا نے بھی ایوب خان کے زیرِ اہتمام پاکستان کو "دنیا میں ترقی کے حصول کی ایک سب سے بڑی کامیابی” قرار دیا تھا۔
اس کے باوجود ماہرین نے جلد ہی اِس نکتے کو ظاہر کیا کہ ڈی گال، جانسن مک نمارا اور دیگر نے صرف اقتصادی ترقی پر غور کیا اور دولت کی تقسیم کو نظر انداز کر دیا تھا جس کے نتیجے میں بے چینی، اشتعال انگیزی پیدا ہوئی اور جو بالآخر "سقوطِ ڈھاکہ” کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ انسانی معاشروں کی حقیقی ترقی کا راز ان کی بنیادوں میں چھپا ہوتا ہے۔ صدر ایوب خان نے اپنی حکومت کی بنیاد جس احسان فراموشی کے ساتھ رکھی تھی وہی اس کے کام آ گئی اور اس کی ساری کارکردگی داغ دار ہو گئی۔
مارچ 1969ء کو صدر جنرل ایوب خان نے قوم کے نام اپنے آخری خطاب میں مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت فوج کے حوالے کر دی تھی جب ان کے خلاف طلباء تنظیموں اور عوامی احتجاج عروج پر پہنچ گیا تھا۔ طلباء نے اپنے احتجاج میں اسی ایوب کو "کتا” کہہ کر پکارا تھا جس نے بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح کو "کتیا” کہلوایا تھا۔ دنیا مکافات عمل ہے انسان جو بیجتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ ایوب نے اپنے 1962ء کے آئین کی خلاف ورزی کی تھی جس کے مطابق ایسے حالات میں حکومت سپیکر کے حوالے کر کے نئے صدارتی انتخابات کروائے جانے تھے اور حکومت آئینی طریقے سے بدلی جانی تھی لیکن مکافات عمل کے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ جنرل ایوب خان اور ان کے خودساختہ نظام کو لپیٹنا ضروری ہو گیا۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |