بیج کا سایہ
کہانی کار:۔ سید حبدار قائم
اشرف کو سارے گاوں میں اچھو کہہ کر بلاتے تھے وہ اٹک کے ایک چھوٹے سے گاؤں تھٹی سیداں میں رہتا تھا اس کے گاؤں میں پرائمری تک تعلیم تھی اس نے سکول میں داخلہ لیا اور گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے لگا پانچ جماعتیں پاس کرنے کے بعد اس کو شہر کے ہائی سکول میں داخلے کے لیے والدین لے گئے جہاں پر وہ داخل ہو گیا اس کے گاؤں سے شہر پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جہاں اس کا سکول تھا وہ روزانہ پیدل فاصلہ طے کر کے سکول جاتا تھا بہت زیادہ گرمی اور شدید سردی اکثر اس کو برداشت کرنا پڑتی تھی لیکن اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری ایک دن جب وہ گاؤں سے سکول کی جانب چلا تو اسے ابو جان نے بتایا کہ درخت لگانا سنتِ نبویؐ ہے یہ انسان کی زندگی کے لیے بہت ضروری ہیں کیوں کہ یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں آکسیجن انسانوں کے لیے باعثِ زندگی ہے آکسیجن اگر نہ ہو تو بندے جیتے جی مر جائیں والد کی باتوں میں ہی اچھو فیصلہ کر چکا تھا اور دل ہی دل میں انسانوں کی زندگی کے لیے فکرمند ہو گیا تھا
اسی اثنا میں اس نے گاؤں سے کیکر کی پھلیاں اور دھریک کے دھرکانو (بیج) چن لیے اور بیگ میں لے کر سکول کی طرف چل پڑا چھوٹے سے کچے راستے میں جہاں مشکل سے ایک گاڑی ہی گزر سکتی تھی اس کے ساتھ کھیت تھے جب وہ اس رستے سے ہوتا ہوا سکول کی طرف گیا تو ان بیجوں کو کھیتوں کے کنارے پھینکتا گیا اللہ تعالٰی کا کرنا ایسا ہوا کہ تھوڑے دن کے بعد بارش آ گئی جہاں جہاں اس نے بیج پھینکے تھے وہاں چھوٹے چھوٹے کیکر اور دھریک کے درخت اگنا شروع ہو گئے جس کی وجہ سے اچھو کو بہت خوشی ہوئی اور اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ یہ سب سنتِ نبوی پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے اچھو ہر روز وہاں سے گزرتا تھا اور ان چھوٹے چھوٹے کیکر اور دھریک کے پودوں کو جوان ہوتے دیکھتا تھا جو آہستہ آہستہ بڑے ہو رہے تھے اچھو بھی ایک جماعت سے دوسری اور دوسری سے تیسری جماعت تک آگے بڑھ رہا تھا جب اس نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تو ان دنوں میں جنگ لگی ہوئی تھی جس کی وجہ سے پاک فوج کی بھرتی کھل گئی بھرتی کے لیے پاک فوج کے نمائندے گاؤں کی طرف آ گئے اچھو نے بھی وہاں اپنا نام لکھوا دیا اور فوج میں بھرتی ہو گیا اور آرٹلری سنٹر اٹک چلا گیا جہاں اُس نے سخت ٹریننگ کی
اچھو کے لگائے ہوئے درخت بڑھ رہے تھے وقت گزر رہا تھا کافی مدت کے بعد جب اچھو فوج کی جانب سے بوسنیا میں امن مشن کے لیے گیا تو وہاں دو سال عسکری فرائض ادا کرنے کے بعد واپس آیا
جب اچھو گرمیوں کے دنوں میں جس وقت ملک میں ٹمپریچر پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تھا اور لوگ گرمی سے بدحال تھے اسی راستے سے گزرا تو بہت زیادہ درختوں کے جُھنڈ دیکھ کر اچھو خوش ہو گیا وہ راستہ جو اس کے لیے پہلے بہت مشکل ہوتا تھا وہاں اب سایہ ہی سایہ تھا جس کو دیکھ کر اچھو بہت خوش ہوا اور اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ یہ اسی بیج کا سایہ ہے جس کو اس نے کھیتوں میں بچھایا تھا اب وہ تناور درخت بن چکے ہیں اور ہر آنے جانے والے مسافر کو سایہ فراہم کر رہے ہیں نیکی جہاں بھی کی جاتی ہے اللہ تعالٰی اس کا اجر دیتا ہے اور لوگوں کی دعائیں بھی ساتھ ہوتی ہیں
پیارے بچو!
حدیث کی کتاب صحیح بخاری حدیث نمبر 6012 میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ
"جو مسلمان کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس میں سے کوئی انسان، پرندہ یا جانور کھائے تو وہ اس کے لیے صدقہ شمار ہوگا۔”
اس لیے آپ بھی اپنے وطن میں جہاں خالی جگہ دیکھو وہاں بیج لگا دیا کرو خواہ وہ کسی بھی پودے کا ہو اللہ تعالٰی اس کو تناور درخت بنا دیتا ہے جو بندوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے یہی سنتِ نبویؐ ہے جس پر عمل کرنے سے اللہ راضی ہوتا ہے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |