سونا اور کیویار کھانے والے لوگ
ایک اردو کا محاورہ ہے کہ "کیا تم سونا کھاتے ہو؟” اس محاورے کا آسان مفہوم اور مطلب یہ ہے کہ آپ بہت فضول خرچی کرتے ہیں۔ اس محاورے کے ان دو اصطلاحی مفاہیم و مطالب پر غور کیا جائے تو اس کے یہ معنی بھی لیئے جا سکتے ہیں کہ آپ دولت مہنگی چیزوں پر لٹاتے ہیں یا آپ ایسی سادہ اور صحت مند خوراک استعمال کرتے ہیں کہ آپ دن بدن نکھرتے چلے جا رہے ہیں یعنی آپ جو بھی کھاتے ہیں وہ آپ کو لگتا ہے اور اس کے آپ کی صحت پر اچھے اور مثبت اثرات پڑ رہے ہیں۔
یہ تو صرف اس اردو محاورے کے کچھ معانی اور مطالب ہیں لیکن لوگ حقیقتا سونا کھاتے بھی ہیں جیسے کہ کھانے کی ڈشز اور سویٹس وغیرہ پر امیر لوگ سونے اور چاندی وغیرہ کے ورق لگاتے ہیں۔ چونکہ سونا دنیا کی مہنگی ترین دھاتوں میں سے ایک ہے تو ممکن ہے کہ امراء دکھاوے یا شوخی کے لیئے دعوتوں وغیرہ کے دوران کھانوں پر سونے کے ورق لگاتے ہوں مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ سونے کی دھات کو کھانے کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں کچھ چونکا دینے والے انکشافات یہ ہیں کہ برصغیر کے دیسی حکیم بتاتے ہیں کہ سونے اور چاندی کے استعمال سے "قوت باہ” میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالانکہ برصغیر ہی نہیں جہاں مغلیہ بادشاہ اور دیگر امراء و رؤساء (جو الٹرا رچ ہوتے تھے) اپنے کھانوں پر سونے یاچاندی کے اوراق استعمال کرتے تھے، اب سونے کے انہی اوراق کو امریکہ اور یورپ وغیرہ کے ممالک میں بھی مہنگی آئس کریمز اور پڈنگز وغیرہ پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
سائنسی اعتبار سے کسی دھات کو کھانا بے معنی ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کا مقصد محض کھانے کی ڈیکوریشن ہو، کیونکہ دھات کو زیادہ مقدار میں استعمال کرنا صحت کے لیئے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن دنیا بھر کے دیسی حکماء "کشتہ جات” مارنے میں سونے چاندی کا استعمال صدیوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انسانی غذا میں بے شک دھات کے بہت کم اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اس کی مقدار کچھ ملی گرام یا مائیکرو گرام میں ہوتی ہے، جو مختلف پھلوں، سبزیوں اور دوسرے نمکیات وغیرہ سے باآسانی مل جاتے ہیں۔ سونے یا چاندی کے ورق پہلے ہمارے یہاں صرف برصغیر کے کھانوں کی روایت تھی، جو اب پھیل کر دیگر ممالک میں بھی پہنچ چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سونے کے ورق تیز مصالحے یا مرغن کھانے کے ہاضمے میں مدد دیتے ہیں. دنیا کے مہنگے ہوٹلوں میں کھانوں کی سجاوٹ وغیرہ کے لیئے اس کا کافی استعمال ہو رہا ہے۔ اگر سونے جیسی دھات کا کھانے کے طور پر استعمال اتنا ہی نقصان دہ ہوتا تو "فوڈ سپیشلسٹ” ضرور اس سے روک دیتے، مگر عمومی تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ یہ ایک فرسودہ عمل ہے۔ حالانکہ میرے خیال میں یہ ایک خوشحال اور خوش خوراک معاشرے کا عمل لگتا ہے۔ اس دور میں ہمارا برصغیر کا سماج اس عروج اور ترقی پر تھا جہاں مغربی سماج آج جا کر پہنچ رہا ہے۔ طبی فوائد تو اہل علم اور محققین ہی بتا سکتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ سونے کے ورق آج پوری دنیا میں امراء کے انتہائی مہنگے کھانوں کا حصہ ہیں، جیسا کہ اس کے بارے سوشل میڈیاء پر بہت ساری وڈیوز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ گو کہ بہت سارے ثبوت موجود ہیں کہ صرف سو فیصد خالص سونا یعنی 24 کیرٹ سونا ہی، انتہائ معمولی مقدار میں کھانے کے مقصد کے لئے استعمال ہو سکتا ہے مگر درحقیقت یہ دکھاوے اور نمائش پر مبنی ایسا غیرمعمولی رویہ (سنوبش بی ہیوئیر) ہے کہ جو عام غرباء کی تحقیر کے ضمرے میں آتا ہے۔
سونے کے اوراق کا استعمال امریکن اور یورپین فوڈ اتھارٹیز "ای175” کوڈ کے تحت منظور کر چکی ہیں مگر دھیان رہے کہ یہ سونا پورے کا پورا انسانی نظام ہضم سے بغیر کسی تحلیل کے خارج ہو جاتا ہے یعنی یہ صفر غذائی طاقت کا حامل ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ امیر لوگ سونا کیوں کھاتے ہیں؟ کیا وہ ایسا صرف "نمودنمائش” اور "دکھاوے” کے لیئے کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ خود پر ظلم کرتے ہیں جس کا قرآن و حدیث ﷺ میں ذکر موجود ہے۔ اسے عموما صرف خوراک کی خوبصورتی اور روایتی پسندیدگی کی وجہ سے استعمال کیا جاتا ہے جو فضول خرچی میں آتا ہے اور جس سے امراء کا طبقہ صرف اپنی ناک اونچی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صدیوں سے یہ صارف کی امارت اور مقام و مرتبہ کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
ایک امریکی کہاوت ہے کہ اتنے امیر ہو جاؤ کہ ہر روز "کیویار” (سی اے وی آئی اے آر) کھا سکو۔ کیویار ایک نایاب مچھلی کے انڈوں کے اچار کو کہتے ہیں یا اس مہنگی مچھلی کو بھی کہتے ہیں جسے کھانے کے ساتھ کچا کھایا جاتا ہے۔ میرے ایک کرم فرما لندن میں ہیں، جن کا بوجوہ نام نہیں لکھا یے، جو ہر دو تین ماہ بعد مجھ سے سونے کے اوراق منگواتے ہیں۔ ان کو دعوتیں کرنے کا بہت شوق یے۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ شاید وہ سونے کے اوراق مہمانوں کو کھانے کی دعوت دیتے وقت استعمال کرتے ہوں گے مگر چند روز پہلے مجھے پتہ چلا کہ وہ سونے کے ورق خود بھی استعمال کرتے ہیں۔ تب پتہ چلا کہ وہ کیویار بھی کھاتے ہیں۔ البتہ انسان سونے کے باریک چند ورق تو کھا سکتا یے مگر وہ سونا نہیں کھا سکتا ہے۔ ایسے امیر لوگ چاہیں تو وہ کیویار روزانہ کھا سکتے ہیں اور اس کی زیادہ مقدار بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات غلط ہو جاتی ہے کہ، "امیر بھی صرف دو ہی روٹیاں کھاتے ہیں۔” اس کی وجہ یہ ہے امیروں اور غریبوں کے کھانوں میں بھی اتنا ہی فرق ہوتا ہے کہ جتنا امارت اور غربت میں فرق ہوتا ہے جس سے دنیا بھر میں "سٹیٹس کی لعنت” کو قائم کیا جاتا ہے۔
آج یہ احساس مجھے ایک انتہائی سستا اور سادہ ترین ڈنر کرنے کے بعد ہوا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں ابھی اتنا امیر نہیں ہوں کہ میں ہر روز یا کبھی کبھار سونے کے اوراق اور کیویار والا کھانا کھا سکوں۔ بسا اوقات ان نام نہاد امراء کو بھی اتنا سادہ کھانا ضرور کھانا چایئے کہ جو ان کے ایک بار سونے کے اوراق اور کیویار کھانے کی قیمت پر کسی غریب کے عمر بھر کے کھانے کے برابر ہو۔ امیر لوگ صرف مہنگا کھاتے ہیں اور مہنگا پہنتے ہیں۔ میرے کچھ ایسے دوست ہیں جو پچاس لاکھ سے لے کر ایک کروڑ تک کی گھڑی باندھتے ہیں، جن میں ڈائمنڈ لگے ہوتے ہیں، مہنگی انگوٹھی پہنتے ہیں، ان میں بھی مہنگے ڈائمنڈ ہوتے ہیں۔ ان کی پتلون اور شرٹ بھی مہنگی ہوتی ہے۔ ان کے نیچے ایک دو کروڑ کی گاڑی بھی ہوتی ہے۔ ان کا اتنا کروفر ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہوں نے مرنا نہیں ہے۔ لیکن وہ امارات کے علاوہ کچھ مختلف انداز سے سوچتے نہیں ہیں کہ کل یا اگلے لمحہ ان کے ساتھ کیا ہونا ہے؟
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہ سونا اور کیویار کھانے والے لوگ اپنا اربوں کا بنک بیلنس، مہنگی گاڑیاں، بڑے بڑے گھر، سونا چاندی کے زیورات اور دیگر ساری مہنگی چیزیں چھوڑ کر، ایک دن اچانک خالی ہاتھ دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کچھ جاتا ہے تو ان کے نیک اعمال اور دوسروں کو دی ہوئی خوشیاں ان کے ساتھ جاتی ہیں۔ لیکن امارت کا ایک سب سے غضبناک پہلو یہ ہے کہ جوں جوں ایک امیر آدمی زیادہ امیر ہوتا جاتا ہے توں توں وہ اس طرح کی "مختلف سوچ” رکھنے سے قاصر ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ غریبوں کے طبقے سے نکلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی سوچ امیروں والی کر لیں۔ سوال یہ ہے کہ سوچ کیسے بدلیں؟ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو امیر سمجھ کر غرباء اور نادار لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا سیکھیں۔
اگر آپ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو اپنی زندگی کا مقصد بدلیں۔ اگر آپ امراء میں شامل ہیں تو کبھی نادار اور غریب بن کر بھی سوچیں کہ اس طبقے کے کیا خواب اور ضروریات ہوتی ہیں۔ دولت تقسیم کرنے کے لیئے ملتی ہے اس پر سانپ بن کر بیٹھنے کے لیئے نہیں! ہو سکتا ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد کرنے سے آپ کی امارت اور پیسے میں کچھ کمی آ جائے مگر یہ دنیا میں روح اور آخرت میں جسم کے عذاب جھیلنے سے بہتر ہے۔ یہاں مجھے ایک حدیث نبوی ﷺ یاد آتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ، "میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں زیادہ تعداد غریبوں کی تھی۔” یہ حدیث نبوی ﷺ انہی دولت مندوں کے بارے میں ہے جو اپنے دوستوں اور جاننے والوں کا خیال نہیں رکھتے اور ان کے سامنے دولت کی نمائش تو کرتے ہیں مگر ان پر خرچ نہیں کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ان کو یہ دولت صرف خود پر ہی خرچ کرنے کے لیئے دی ہے۔ بے شک اللہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی۔ خود پر اتنا ہی خرچ کریں جو آپ کو لگے اور دنیا و آخرت میں اس سے آپ کو فائدہ ہو۔ ما الصواب!!

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |