اماراتی وومن کانفرنس 2025ء
دنیا میں جتنے بھی ممالک اور معاشرے تیز رفتاری سے ترقی کر رہے ہیں ان میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کا بھی بنیادی کردار شامل ہے۔ دنیا بھر کی آبادی خواتین کے 52فیصد حصہ پر مشتمل ہے۔ اگر آبادی کی اس اکثریت کو مسلم معاشروں کی روایت کے مطابق محض گھر داری تک ہی محدود رکھا جائے گا تو پھر معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ جائے گی۔ مغربی معاشروں نے یہ راز بہت پہلے محسوس کر لیا تھا جس سے عورت کو گھر سے باہر جا کر زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کرنے کی آزادی دے کر انہوں نے اپنی ترقی کی رفتار کو مہمیز دی۔
اب مسلم معاشروں میں بھی خواتین میں زندگی کے تمام شعبوں میں بھرپور حصہ لینے کا شعور پیدا ہو رہا ہے۔ اس مد میں گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کی خواتین کا دن تھا جو ہر سال 23 اگست کو منایا جاتا ہے۔ امسال یہ دن متحدہ عرب امارات دبئی میں شیخ زید روڈ پر ایک فائیو سٹار ہوٹل "ڈوسٹ تھانی” میں ایک کانفرنس کے انعقاد کی شکل میں منایا گیا۔ اس کانفرنس کو "اماراتی وومن کانفرنس 2025ء” کا نام دیا گیا جس کے انعقاد کا احتمام بارکلیز مڈل ایسٹ نے کیا تھا۔ لیکن اپنے نام کی نسبت سے یہ کانفرنس صرف متحدہ عرب امارات کی خواتین کے کردار تک محدود نہیں تھی، بلکہ اس میں ماضی کی طرح دیگر ممالک کی خواتین نے بھی کثیر تعداد میں حصہ لیا۔ یہ دن خواتین کے کارناموں اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی مزید حوصلہ افزائی کرنے کے لیئے منایا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس ایونٹ میں ان مرد حضرات کو بھی حصہ لینے کا موقع فراہم کیا گیا جو خواتین کی بڑھ چڑھ کر حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
چند روز قبل اس کانفرنس میں شرکت کرنے اور اس کی پریس کوریج کے لیئے مجھے ای میل آئی اور پھر یکے بعد دیگرے واٹس ایپ پر بھی رابطہ کیا گیا، اور انٹری پاس بھی موصول ہو گیا تو میں نے اس کانفرنس میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ ایک روزہ کانفرنس صبح 9 بجے سے لے کر شام 5 بجے تک جاری رہی۔ اس کانفرنس کے تین سیشن تھے جس میں عالمی اور اماراتی خواتین کی ذہانت اور کردار کے حوالے سے تقاریر، ڈسکشن اور ایوارڈز کی تقسیم سرفہرست تھی۔ کانفرنس کے دوران ساڑھے گیارہ بجے چائے کا مختصر وقفہ کیا گیا۔ جن موضوعات پر مقالے پڑھے گئے یا گفتگو ہوئی اس میں تعلیم اور خواتین، لیڈر شپ کے ذریعے خواتین کو طاقت فراہم کرنا، خواتین کی کامیابی کی کہانیاں اور ان کے سامنے رکاوٹیں یا امکانات وغیرہ شامل تھے۔ اس پروگرام کی زیادہ تر میزبانی پاکستانی نیشنل ڈاکٹر موسی شیخ نے کی۔ یہ کانفرنس اپنے جوبن پر تب پہنچی جب انگلش خاتون سارا بروک نے پہلے تقریر کی اور پھر چند اماراتی خواتین شرکاء کو سٹیج پر بٹھا کر مذاکرے کا آغاز کیا۔ کانفرنس کے اس سیشن میں خواتین کی اہمیت اور کردار کے بارے میں چند موضوعات پر گفتگو ہوئی جس کا ایک موضوع یہ تھا کہ، "میں کون ہوں؟” اس دوران عام شرکاء کو بھی اس موضوع پر بات کرنے کا موقعہ دیا گیا تو میں نے جو کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ، یہ ایک گہرا اور فلسفیانہ سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے انسان کی عمر گزر جاتی ہے مگر مکمل طور پر وہ اپنی صلاحیتوں اور سیرت و کردار کے ذریعے اس سے زیادہ کچھ نہیں جان سکتا ہے کہ اس نے دنیا کو رہنے کے لیئے کتنی اچھی جگہ بنایا۔
یہ کانفرنس میرے لیئے انتہائی موٹیویشنل ثابت ہوئی۔ جن خواتین و حضرات مقررین نے اسے خوبصورت بنایا اور ایوارڈز بھی وصول کیئے ان میں دبئی سے ڈاکٹر شمع لوطاء، ڈاکٹر خولہ ال شیہئ، راس الخیمہ کی آمینہ قہطان، امریکن یونیورسٹی دبئی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریما اساف، ڈاکٹر خولہ، اومانی نیشنل اریج ال شیبانی، عروج فرحت خان، برکلے مڈل ایسٹ کے نجم شیخ، ڈاکٹر نوف احمد، نیتو جوزف، پرابھ دیپ سنگھ بویجہ، ظہیر انیس اور پاکستان بزنس کونسل کے بانی صدر اور وائس چیئرمین ڈاکٹر سید قیصر انیس سرفہرست ہیں۔ اس کانفرنس کی مہمان خصوصی بورڈ ممبر آف راک انشورنس عزت مآب آریفاء ال فلاہی تھیں۔ اس کانفرنس میں شخصیت اور کردار سازی کے ضمن میں انتہائی متاثر کن باتیں ہوئیں جن میں اپنے اندر کی آواز کو سنیں، خود سے شفقت کے ساتھ پیش آئیں، آو مہربانی اور نرم دلی اختیار کریں، کیا ہم بہتر انسان بن سکتے، ضرورت مندوں کی مدد کیسے کی جانی چایئے، دوسروں پر اعتبار کرنے سے پہلے خود پر کریں، اپنی کایا پلٹیں، پاگل پن یا غصہ نہ کریں، آپ نے زندگی کے ساتھی، بچوں اور دیگر فیملی ممبرز کو کیسے ریسپونڈ کرنا ہے اور آپ خود کو جتنا زیادہ تعلیم یافتہ، باعمل اور بااخلاق کر سکتے ہیں کریں، وغیرہ وغیرہ۔ ایوراڈ وصول کرنے والوں میں پیپلز پارٹی گلف کے صدر میاں منیر ہنس بھی شامل تھے جنہیں خواتین کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنے میں ہمیشہ پیش پیش دیکھا جاتا ہے۔
دوسرے مسلم ممالک کے لیئے یہ کانفرنس ایک نمونہ ہے۔ جب تک زندگی کے تمام میدانوں میں مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیئے برابر کے مواقع فراہم نہیں کیئے جاتے ہیں، ہم تیز ترین ترقی نہیں کر سکتے ہیں۔ اللہ رب العزت خواتین کو اخلاق، نرم دلی، ذہنی افتاد اور مردم شناس کی خصوصی صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ اسلام نے تعلیم حاصل کرنے اور زندگی کے ہر میدان میں خواتین کو عملی حصہ لینے کا جو حق دیا ہے، ہمیں بھی چایئے کہ ہم خواتین کو اس سے استفادہ کرنے کا بھرپور موقع دیں۔
اس کانفرنس میں ایک سپیکر نے کہا، "صرف یہی دن ہی نہیں ہر دن ہی خواتین کا ہے۔” انسان کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیئے صرف اپنی پہچان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قدرت خفیہ صلاحیتیں ہر مرد و زن میں رکھتی ہے۔ جبکہ ترقی وہی خواتین و حضرات کرتے ہیں جو اپنی ان صلاحیتوں کی دریافت کر لیتے ہیں اور پھر انہیں طاقتور طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیئے مرد و زن کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ خواتین بھی زندگی میں اتنے ہی بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہیں جتنے مرد دیتے ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |